نوجوان داعیان دین: کہیں قافلہ چھوٹ نہ جائے

اَشفاق پرواز

خداے تعالی کی بندگی کی دعوت دراصل دنیا کی سب سے عظیم نعمت ہے جو ایک انسان دوسرے انسان کو دے سکتا ہے۔ یہ خیر خواہی میں سب سے بہترین خیر خواہی ہے کہ ہم اپنے بھائی کو جہنم کی آگ سے بچانے کی خاطر اور اپنے ساتھ جنت میں لے جانے کی خاطر اس فکر میں تڑپتے رہیں۔ اس سے بڑھ  کر اور کیا خیر خواہی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے بھائ کو ابدی زندگی میں خوشحال دیکھنا چاہتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دینی تنظیموں کی ترجیحات میں سب سے اولین درجہ دعوت کو دیا گیا ہے۔

  آج ملت کے نو جوانوں کا ایک بہت ہی قلیل طبقہ اپنی دعوتی ذمہ داریوں کو سمجھ پایا ہے۔ نو جوانوں کا ایک بڑا گروہ سرے سے دعوتی ذمہ داری کا اس بنا پر انکار کرتا ہے کہ ہمیں سب سے پہلے خود اپنی ملت کے نوجوانوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جب اتنا بڑا میدان ہمارے سامنے ہے تو اپنے لیے ایک نیا محاذ کھولنا کس طرح مناسب ہو سکتا ہے ؟ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج امت کے نوجوانوں کی اکثریت دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے غافل ہی نہیں بلکہ اس کی ضد میں اپنی زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نکا لا جاے کہ جب ہم اپنے نو جوانوں کی اصلاح و تربیت مکمل کر لیں تو دعوتی کام کی ضرورت باقی نہ رہے گی اور ہمارے غیر مسلم ساتھی خود بہ خود ان کی سیرت و کردار سے متاثر ہو کر حلقہ اسلام میں داخل ہوں گے، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن کی رو سے”دعوت”اور ”اصلاح” دو الگ الگ کام ہیں۔ جو کہ ہماری یکساں توجہ کے مستحق ہیں۔ یہاں پر یہ قیاس کرنا بالکل بھی مناسب نہ ہوگاکہ ہم اپنی ملت کے نوجوانوں کی اصلاح و تربیت سے فارغ ہوجائے تو پھر ’’دعوت ‘‘ کی طرف توجہ کریں گے کونکہ نہ تو ہم’’اصلاح و تربیت ‘‘ کے لیے کوئ ٹایم فریم مقرر کرسکتے ہیں کہ دس، پندرہ  یا بیس سالوں کی ڈیڈ لائن سے پہلے ہم یہ کام مکمل کرلیں گے اور نہ ہی ہم اصلاح و تربیت کا کوئایسا پیمانہ رکھتے ہیں جس پر انسان کو بٹھایا جائے اور الیکٹرانک ریڑنگ ہمیں یہ بتادے کہ اس شخص کی تربیت مکمل ہوچکی ہے یا نہیں۔ تربیت تو ایک مسلسل عمل ہے۔ جو انسان کی سانس ٹوٹنے تک چلتا رہتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے جس کام کا آغاز دعوت سے کیا وہیں اس دعوت کے قبول کرنے والوں کی اصلاح و تربیت کا مناسب اور اعلیٰ معیار کا انتظام بھی فرمایا۔ آپﷺ مسلسل ان دونوں کاموں کو انجام دیتے رہے اس لیے آپﷺ کی دعوت نے جہاں اپنے وابستگان کو مسلم نوجوانوں سے روابط قایم کرنے کی ترغیب دی ہے وہیں کم از کم دو غیر مسلم نوجوانوں سے دعوتی روابط رکھنے کو لازمی ٹھہرایا ہے۔

ہمارے نوجوانوں کی ایک دوسری بڑی اکثریت ایسی بھی ہے جو دعوتی کام کی اہمیت کا احساس تو رکھتی ہے لیکن اس کارِدعوت کو انجام دینے کے طریقے کار سے واقف نہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہم دعوتی کام کے آغاز سے پہلے ہی رک جاتے ہیں اور اپنی کالج لایف کا ایک بڑا حصہ اسی تذبذب میں گزار دیتے ہیں کہ شروعات کہاں سے ہو اور کیسے ہو؟ ہم مختلف شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کبھی ہمیں کالج میں اپنے امیج کا خیال اس کام سے روک دیتا ہے تو کہیں کالج انتظامیہ کا بے وجہ خوف تو کبھی دنیا کے کسی حصے میں ہونے والا کوئ سانحہ ہمارے قدم ڈگمگادیتا ہے۔ ان تمام وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جس شخص کو ہم دعوت دے رہے ہیں اس کے مذہب اور عقیدے کے متعلق ہمیں جب تک مکمل معلومات نہیں ہوں گی ہم اسے مطمے￿ن نہیں کر سکیں گے۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جس کا ہم شکار ہیں۔ اس معاملہ میں ہمیں اللہ کے رسولﷺ کے طریقے کو نمونہ بنانہ ہوگا چناچہ ہم آپﷺ کی پوری زندگی کو دیکھتے ہیں کہ کہیں آپﷺ نے لوگوں کو اسلام کی طرف بلانے کے لیے ان کی مذہبی کتابوں کا سہارا نہ لیا ہے نہ ان کے عقیدوں پر بحث کی ہے۔ آپ ﷺ نے تمام نظام ہایے زندگی اور عقیدوں کی حکیمانہ انداز میں نفی کرتے ہوے اسلام کو کامیابی و نجات کا واحد راستہ قرار دیا۔

بے بنیاد عقیدوں اور تحریف شدہ کتابوں کے سہارے اسلام کو ظاہر کرنے کی کوئ بھی ضرورت نہیں ہے۔ دین اسلام کا بنیادی علم اور دیگر عقاید کی واقفیت کم از کم ہمارے اس کام کے لیے بہت کافی ہے۔ دعوت کے لیے کسی خاص طریقے کو اپنے لیے اُصول بنا لینا بھی کسی حد تک مناسب نہیں ہے۔ بلکہ دعوت فرد اور موقع کے لحاظ سے مختلف انداز میں دی جا سکتی ہے۔ میرا زاتی تجربہ یہ ہے کہ جب تک ہم اس میدان میں کود نہیں پڑ تے تب تک دعوت کے مختلف طریقے ہم پر نہیں کھل سکتے۔ ہمیں رسول اللہ ﷺکی زندگی میں ہر پہلو بڑی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ آپﷺ کے دعوتی انداز میں ہمیں خیر خواہی، ہمدردی اور ایثار کے جزبات نمایاں نظر آتے ہیں لہٰذاہمارا انداز دعوت بھی انہی جزبات سے سرشار ہونا چاہیے۔ نہ کہ ہم مدعو کو چلینج (Challange ) کر کے اس سے مقابلہ آرائ کریں۔

  اپنی زندگی کے اس سفر میں جب میں فریضہ دعوت کی انجام دہی میں اپنی پستی اور کوتاہیوں پر نظر ڈالتا ہوں اور گہرے شعور کے ساتھ اس کام کا تہیہ کرتا ہوں تومیں اپنے آپ کو کالج لایف کے آخری ایام میں پاتا ہوں۔ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ کچھ ہی دنوں میں ہم کالج چھوڑنے والے ہوتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ دن رات اٹھنے بیٹھنے والے ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہونے والے ہوتے ہیں۔ نہ جانے ان میں سے کوئ اعلٰی تعلیم کے لیے باہر چلا جاے، کوئ ملازمت کے حصول کے لیے کسی دوسرے شہر چلا جاے اور ہم سب اپنی اپنی مصروفیاتِ زندگی میں گم ہو کر رہ جایں۔ اور ان سب سے ہمارا تعلق اس وقت تک کے لیے ختم ہو جاے جب ہم میدانِ حشر میں جمع ہوجایں۔ ہمارے یہی ساتھی ہمیں اللہ کے حضور ﷺ قصور وار ٹھہرایں کہ ہم نے ان سے حق کو چھپایے رکھا۔

دعوت کے جتنے مواقع کالجوں میں ہیں یقین جانیے کالج سے باہر کی دنیا میں بہت کم میسر آسکتے ہیں۔ آج مجھے اس بات کا احساس بڑی شدت سے ہو رہا ہے جب میں نے کالج کی زندگی سے باہر قدم رکھا ہے اور یقین مانے کہ اسی بات نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا کہ میں اپنے ساتھی داعیان دین کو اس بات سے آگاہ کروں کہ وہ اپنے دعوتی سفر کا آغاز کرنے میں دیر نہ کریں۔

  اگر آپ کا تعلق کسی دینی تنظیم کے ساتھ ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ دعوت دین آپ کی تنظیم کا لبِ لباب ہوگا۔ ایک داعی گروہ ہونے کی حیثیت سے آپ کو ارشاد ربانی کی روشنی میں اپنے دعوتی پروگرام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ نوجوان طبقے کی نفسیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اور بڑی ہمدردی، شفقت اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ چڑھتی جوانی میں مزاج تند و تیکھا ہوتا ہے اس لیے احتیاط ضروری ہے کہ کہیں کوئ مخاصمت کی صورت پیدا نہ ہو۔ داعی بننا صبر کا متقاضی ہوتا ہے، تبھی ممکن ہے کہ آپ اختلافات کوبرداشت کر سکتے ہیں اور اپنے حسن کردار و شیرین گفتار اور محبت و اخوت کے اتھاہ جذبات سے دوسروں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ورنہ بعیدنہیں کہ تند مزاجی جوانوں کو آپ کی دعوت سے متنفر کردے۔

 بقولِ اقبال؎

  کوئی کارواں سے چھوٹا کوئی بدگمانِ حرم سے  

کہ میر کارواں میں نہیں خوے دل  نوازی   

تبصرے بند ہیں۔