لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!

نایاب حسن
نوٹ بندی کے بعدسے پوراملک لائنوں میں کھڑاہے اور عام انسانوں کی زندگیاں دوبھرہوگئی ہیں،جبکہ کچھ لوگ اور طبقات ایسے بھی ہیں ،جن کے لیے سرکارکایہ فیصلہ گویا’’نعمتِ غیر مترقبہ‘‘ثابت ہورہاہے،ہمارے وزیر اعظم مسٹرمودی کو بھرم ہے کہ ہزاراورپانچ سوکے نوٹ بندکردینے سے ملک میں بدعنوانی اور کالے دھن کی ذخیرہ اندوزی پر لگام لگے گی ،مگر حقیقت توایسی سامنے آرہی ہے ،جوسرکارکے لیے شرم ناک بھی ہے اور ذلت و رسوائی کاباعث بھی۔نوٹ بندی پراب تک ایک ماہ سے زائد کاعرصہ بیت گیا،مگرنہ بینکوں کی لائنیں ختم ہوئیں،نہ اے ٹی ایم میں ضرورت کے بقدرکیش ڈالے گئے اور نہ عوامی مشکلات پرقابوپانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں آئی،حیرت ہے کہ پوراملک اور ملک کی سرکاران130؍ لوگوں کے بارے میں سوچناتودور،سننے کے لیے بھی تیارنہیں ہے،جواپنے پیسے بدلوانے ،بنکوں میں جمع کرانے یانکالنے کے لیے گھنٹوں لائنوں میں لگنے کی وجہ سے جاں ہارہوگئے ؛حالاں کہ اکیلے یہی واقعات ایسے ہیں کہ ان پر مودی اینڈکمپنی کوشرم سے ڈوب مرنا چاہیے تھا؛کیوں کہ دنیامیں ایساکوئی بھی سیاسی یااخلاقی قانون نہیں ہوگا،جوبدعنوانی کے خاتمے کے نام پر ہی سہی، غیر متعلقہ اور بے قصور لوگوں کی جان لینے کی اجازت دیتا ہو۔روزانہ حکومت کی جانب سے بھانت بھانت کے اعلانات کیے جاتے ہیں،ہمارے ’’عجوبۂ روزگار‘‘وزیر اعظم پارلیمنٹ میں یاتوجاتے نہیں یاجاتے ہیں تو ’’ٹک ٹک دیدم،دم نہ کشیدم‘‘کی تصویر بنے رہتے ہیں،مگر عوامی سبھاؤں میں ان کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے اوروہاں لوگوں کواُلوبناتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ مجھے لوک سبھا میں نہیں بولنے دیاجاتا؛اس لیے جن سبھامیں بول رہاہوں،یہ کس طرح کی حکومت ہورہی ہے؟اورملک کوکیساوزیر اعظم ملاہے؟!ملک کاسربراہِ اعلیٰ ہونے کے باوجودکبھی یہ کہناکہ میں جھولااٹھاکر چل دوں گااور کبھی یہ کہناکہ مجھے بولنے نہیں دیاجاتا،یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتاہے کہ یاتومودی جی کے اندر سیاسی قیادت کے لیے مطلوبہ خصائص کا فقدان ہے یاوہ ملک کودامِ فریب میں مبتلارکھناچاہتے ہیں۔
دوسری طرف نوٹ بندی کے فیصلے کے بعدکالادھن کوفروغ دینے والاایک تازہ گروہ’’دریافت‘‘ہوچکاہے،جوپوری چابک دستی اور تند ہی کے ساتھ مودی کے خواب کی ایسی تیسی کررہاہے، ملک کے بھولے عوام رات دن لائنوں میں کھڑے ہیں اور کبھی پیسے جمع کرانے تو کبھی نکالنے کے لیے دھکے،پولیس کی لاٹھیاں اورگالیاں کھارہے ہیں،تودوسری طرف بینک ملازمین کی ملی بھگت سے گھاگ انسانوں کی ایک جماعت کروڑوں روپوں کے نئے نوٹ نکال کرپیسے بدلنے کادھندہ فروغ دے رہی ہے ،حیرت تواس پر ہے کہ اس قسم کے پیسے اب تک کئی بی جے پی کے نیتاؤں کے پاس سے بھی برآمدہوئے ہیں،روزانہ اور مسلسل ایسی خبریں آرہی ہیں،جن میں کئی کئی لاکھ؛بلکہ کروڑوں کے نئے نوٹ پکڑے جارہے ہیں،13؍دسمبرکوصبح صبح کرناٹک سے ایک خبرآئی کہ ای ڈی (Enforcement Directorate) اہل کاروں نے سات لوگوں کے پاس سے دودوہزارکے نوٹوں پر مشتمل93؍لاکھ کی رقم ضبط کی، یہ لوگ پندرہ سے پینتیس فیصدتک کمیشن لے کر پرانے نوٹوں کو بدلا کرتے تھے اوراس دھندے میں ایک سرکاری افسر بھی باقاعدہ ملوث تھا،اس سے قبل ایک معاملے کی تفتیش کرتے ہوئے ای ڈی کوکل5.7کروڑروپے کے نئے نوٹ حاصل ہوئے ،کسی کے باتھ روم سے توکسی کی گاڑی سے نوٹوں کے بنڈل برآمدہورہے ہیں،رپورٹوں کے مطابق گزشتہ پندرہ دنوں میں ایسے227؍کروڑروپے ضبط کیے جاچکے ہیں۔اس حوالے سے بینکوں کاکردارنہایت مشکوک ہے(الاماشاء اللہ)صورتِ حال یہ ہے کہ اِن دنوں بینکوں کے منیجرسے لے کر چپراسی اور گارڈ تک کما کماکر نہال ہورہے ہیں،پیسے بدلوانے کا معاملہ ہویاڈپوزٹ کرنے کا؛ہرطرح کاکام یہ لوگ کرکے دے رہے ہیں،اب جن لوگوں کے پاس کروڑوں روپے ہیں،ان کے لیے کیامشکل ہے اگروہ تیس فیصدکے عوض اپنے کالے دھن کو سفید کروا لیں،پریشانی تواُن کے لیے ہے،جولاکھ دس لاکھ والے ہیں،انھیں پتاہے کہ ان کے پاس وہ پیسے کیسے آئے ہیں؛اس لے وہ بے چارے دن دن بھرلائنوں میں لگ کر، قانون اور ضابطے کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے پیسے جمع کرواناچاہتے ہیں یانکلواناچاہتے ہیں،مگر جوگھس پیٹھیے اوربینک ملازمین سے سازبازکیے ہوئے بڑے بڑے صنعت کار،لیڈران،سیاست داں،مہاجن اورگرولوگ ہیں،وہ توپہلے ہی بینکوں میں پہنچائے گئے کیش کاصفایاکیے دے رہے ہیں؛اس لیے عام لوگوں کوانجام کارخالی ہاتھ ہی لوٹناپڑرہاہے۔5؍دسمبرکوکشمیری گیٹ کے ’’ایکسس بینک‘‘کے دومنیجراسی ہیراپھیری میں ملوث پائے گئے ،اسی بینک کے کم و بیش بیس افراد کو مالی بدعنوانی میں ملوث ہونے کے جرم میں معطل کیاگیا،اسی بینک کی چاندنی چوک علاقے کی شاخ میں 10؍دسمبرکو44؍فرضی اکاؤنٹس میں 100؍کروڑروپے جمع کرانے کامعاملہ سامنے آیا؛یہ توچندواقعات ہیں جوپکڑمیں آرہے ہیں یاآچکے ہیں، جو پکڑ میں نہیں آرہے ہیں،ان کی تعداد نہ معلوم کتنی ہوگی ،13؍دسمبرکی صبح ہی ایک خبریہ آئی کہ وزیر اعظم مسٹرمودی نے اس قسم کے واقعات پر روک لگانے کے لیے قدم اٹھاتے ہوئے ملک بھر کے پانچ سوبینک برانچزمیں اسٹنگ آپریشن کروایاہے،ان میں سرکاری بینک بھی شامل ہیں اورپرائیویٹ سیکٹرکے بینک بھی،اسٹنگ آپریشن کی سی ڈیزحکومت کومل چکی ہے اورعن قریب انھیں دیکھنے کے بعدعملی کارروائی کی جائے گی۔
حکومت نے کئی دنوں پہلے یہ دعویٰ کیاتھاکہ جلدہی پورے ملک کے دولاکھ سے زائد اے ٹی ایم کونئے نوٹ ڈالنے کے قابل بنادیاجائے گااور سبھی مشینوں میں پابندی سے کیش ڈالے جائیں گے،جبکہ دوسری جانب صورتِ حال اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ لاکھوں کی آبادی والے رہایشی علاقے میں ایک دواے ٹی ایم میں پیسے ڈالے جارہے ہیں اوریہ تودہلی جیسے شہرمیں ہورہاہے،جوقصبہ یادیہات کاخطہ ہے،وہاں توکئی کئی کلومیٹرتک اولاً تواے ٹی ایم کانام ونشان نہیں اوراگر کہیں ہے بھی،توحکومت کی ’’کیش لیس ‘‘پالیسی پرعمل پیراہے۔بازاروں میں خریدارنہیں ہے،دکان داروں کے پاس سامان نہیں ہے،قیمتیں آسمان کوچھورہی ہیں،چھوٹے موٹے کاروباری حیران و سرگرداں پھررہے ہیں،دس بیس ہزارماہانہ کمانے والے لوگ تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے اپنے گھروں کوسدھاررہے ہیں اور چھوٹی صنعت کے کارخانے مقفل ہوچکے ہیں یابتدریج ہورہے ہیں،منریگااسکیم کے تحت دیہی علاقوں میں روزانہ کی بنیادپر مزدوری کرنے والوں کادردبیان سے باہرہے،’’آؤٹ لک‘‘کی رپورٹ کے مطابق نومبرکے مہینے میں ایسے 23.4لاکھ لوگ ملازمت سے ہاتھ دھوچکے ہیں اوراس شعبے میں ملازمت کی شرح اکتوبرکے مقابلے نومبرمیں23؍فیصدتک گھٹی ہے،عام لوگ آنے والے دنوں میں سب سے زیادہ مہنگائی سے خائف ہیں؛کیوں کہ ابھی سے ہی آٹا،دال،چنا،تیل،سبزی وغیرہ کی قیمتیں حیرت ناک تیزی سے بڑھ رہی ہیں،ظاہر ہے کہ جب بازارمیں ڈیمانڈاورسپلائی میں کوئی توازن ہی نہیں ہوگا،توعملی زندگی میں افراط تفریط کاپیداہونایقینی ہے۔13؍دسمبرکو سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے ایک خاص نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکومت کونشانہ بنایاہے،ان کاکہناتھاکہ حکومت ایک مہینے میں تین سوکروڑسے زیادہ کانوٹ نہیں چھاپتی،تولوگوں کی پریشانیاں کیسے دورہوں گی۔ظاہرہے کہ نوٹ بندی سے پہلے مارکیٹ میں موجودنوٹوں کا86؍فیصدحصہ ہزاراورپانچ سوپر مشتمل تھا،اس فیصلے کے بعد اب تک سرکاری خزانے یابینکوں میں آن ریکارڈساڑھے بارہ لاکھ کروڑروپے یااس سے زائد جمع کیے جاچکے ہیں ،ہندوستان کی کل آبادی ایک ارب پچیس کروڑہے اورجب مہینے میں تین سوکروڑروپے چھاپے جائیں گے،پھراس میں بھی بالابالاصاف کی جانے والی رقوم کی ایک بڑی مقدارہوگی،توعوام تک کیاپہنچے گا؟؟خصوصاًگاؤں کی اندوہ ناک صورتِ حال کے پس منظرمیں چدمبرم کایہ کہنابالکل درست ہے کہ’’اتنی دقت اور پریشانی لوگوں کوقدرتی آفات کی وجہ سے بھی نہیں ہوتی،جتنی کہ مودی حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے کی وجہ سے ہورہی ہے‘‘۔
فیصلے کے بعدشروع کے کچھ دنوں میں ایسا لگ رہاتھاکہ ملک کاایک بڑاطبقہ مودی کے اس قدم کوواقعی کالے دھن پر پابندی لگانے کے لیے مؤثرسمجھ رہاہے،ٹی وی چینل والے بھی ایسی ہی خبریں دے رہے تھے،سوشل میڈیاپربھی زیادہ تر اِس فیصلے کی حمایت ہی دیکھنے کومل رہی تھی،مگر اب ایک ماہ سے زائدگزرنے کے بعدبھی جب حالات قابومیں نہیں آئے اورصورتِ حال ویسی ہی تباہ کن ہے،جیسی پہلے دن تھی،توآہستہ آہستہ لوگوں کے دل کی بھڑاس ان کی زبانوں پر آنے لگی ہے،خودمودی بھگتوں میں بھی کبیدگی عام ہورہی ہے،شروع میں کچھ لوگ یہ کہتے سنے گئے تھے کہ ہمارے فوجی سرحدوں پررات دن کھڑے رہتے ہیں،توکیاہم چندگھنٹے بینک یااے ٹی ایم کے باہرکھڑے نہیں رہ سکتے،مگراب اے ٹی ایم یابینک کے باہرلائنوں میں لگے کسی انسان سے اس فیصلے کے بارے میں پوچھنے پر شاید ہی دیش بھگتی ،بالفاظِ دیگر حکو مت کی حمایت میں کوئی لفظ کسی کی زبان پر سننے میںآئے،اب لوگوں کوواقعی اندازہ ہونے لگاہے کہ مودی حکومت نے کالے دھن کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو چھوٹ دے کر ملک کے محنت کش اور سیدھے سادے عوام پرشکنجہ کس دیاہے،عام ہندوستانی بھی یہ کہتانظرآرہاہے کہ کالے دھن والے لوگوں کے پیسے توسوئٹزرلینڈمیں رکھے ہوئے ہیں اورہمیں ناحق پریشان کیاجارہاہے ،اے ٹی ایم کے باہرلائن میں لگے ایک معمرانسان کی زبان سے نکلنے والے اس لفظ سے دل بہت رنجیدہ ہوا کہ ’’اب تواے ٹی ایم سے پیسہ ملناایساہی ہے،جیسے بھگوان سے‘‘! ،خودبی جے پی لیڈران اور ممبرانِ پارلیمنٹ ،جوزمینی حقیقت سے باخبرہیں،انھیں بھی اصل صورتِ حال کاادراک ہوگیاہے،13؍دسمبرکی صبح ’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے اپنی سائٹ پریوپی ،بہاراور دیگر مختلف صوبوں کے بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ سے بات چیت پرمبنی ایک خبرشائع کی ،جس میں ان لوگوں نے مانا کہ شروع میں توایک طبقہ اس فیصلے سے خوش تھا،مگر ایک ماہ سے زائدکاعرصہ گزرجانے کے باوجودبھی پریشانیاں دورہونے کی بجاے بڑھنے کی وجہ سے اب ناراضگی بڑھتی جارہی ہے،چوں کہ الیکشن کے دن قریب ترآتے جارہے ہیں؛اس لیے خاص طورسے یوپی بی جے پی کے خیمے میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔الغرض حقائق وہی ہیں،جوبیان کیے گئے اوران سب کے بیچ ایک واضح ترحقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت عوام کی پریشانیوں کودورکرنے کے لیے زبانی دلاسوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہی ہے ،ہمارے پی ایم یوپی الیکشن کی ریلیوں میں مصروف ہیں،پارلیمنٹ میں توجا نہیں رہے؛لیکن ریلی کے اسٹیج تک نہ پہنچ پانے کی صورت میں بذریعہ فون ہی عوام کی مٹی پلید کررہے ہیں۔
ان تمام حالات کوپیش نظررکھتے ہوئے بدعنوانی کے خلاف حکومت کی جنگ کے کامیاب ہونے اورپچاس دن کے بعدہندوستان کے ’’سُوَرگ‘‘بن جانے یاکندن کی طرح نکھرکرسامنے آنے کے سلسلے میںیقینی طورپرہم کیا،کوئی بھی کسی طرح کی حتمی بات نہیں کرسکتا،سوآئیے فیض کے ہم زبان ہوکریہ مصرعے گنگناتے ہیں:
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کاوعدہ ہے
جولوحِ ازل میں لکھاہے….
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔