برقعہ اور پردے کا مسئلہ

تحریر: علامہ یوسف القرضاوی۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
سوال: پردے کے سلسلے میں ہمارے یہاں زبردست بحث ہوتی رہتی ہے۔ خاص کر عورت کے چہرے کے سلسلے میں کہ اسے چھپانا ضروری ہے یا نہیں؟ امید کہ آپ اس مسئلے پر خاطر خواہ روشنی ڈالیں گے ۔
جواب: دین اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جس معاشرے کی طرف دعوت دیتا ہے اس کی بنیاد ایمان و یقین کے ساتھ ساتھ شرافت، نجابت، اخلاق فاضلہ اور مرد و عورت کے مابین پاک صاف رشتے پر استوار ہوتی ہے۔ اس کی خاطر اسلام نے ہر اس امکانی ذریعے اور دروازہ کو بند کر دیا ہے جو اباحیت، بد اخلاقی اور جنسی بے راہ روی کی طرف لے جاتا ہو۔ عورتوں کیلئے پردے کا حکم، عورتوں اور مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم اور ان جیسے دوسرے احکام کا مقصود بھی تو یہی ہے کہ معاشرہ جنسی بے راہ روی کی آغوش میں نہ چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہوکہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں‘‘ (النور:30)۔
آگے چل کر مزید فرمایا: ’’اور اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں‘‘ (النور:31)۔
ا بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘‘ سے مراد ہتھیلی، انگوٹھی اور چہرہ ہے۔ ابن عمرؓ کے نزدیک اس سے مراد چہرہ او ر ہتھیلی ہے۔ عائشہؓ سے یہی مروی ہے۔ بعد کے فقہء میں امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بھی اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلی ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کے دو اقوال ہیں۔ ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد صرف چہر ہے۔ نیل اولاطار میں امام شوکانی نے فقہاء کے تمام اقوال بالتفصیل درج کئے ہیں۔
چہرہ پردے میں شامل نہیں ہے: جمہور فقہاء نے چہرہ کو پردے کے حدود سے خارج شمار کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل کا ایک قول یہ ہے کہ چہرہ پردے میں شامل ہے۔بعض شافعیہ بھی یہی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند فقہاء کے علاوہ تمام فقہاء کے نزدیک چہرہ پردے میں شامل نہیں ہے۔ قرآن و حدیث کے نصوص بھی اسی قول کی حمایت کرتے ہیں۔ ابن عباسؓ، ابن عمرؓ، عائشہؓ اور دیگر اکابر صحابہؓ کی بھی یہی رائے ہے۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عید کے موقع پر خطبہ دیا۔ پھر عورتوں کی طرف آئے۔ ان کے ساتھ بلالؓ بھی تھے۔ آپؐ نے ان عورتوں کو نصیحت کی، وعظ فرمایا اور صدقہ کرنے کی تاکید کی کیونکہ ابن عباسؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ عورتیں اپنے ہاتھوں سے بلالؓ کے کپڑے میں مال و دولت ڈالتی جاتی تھیں۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن عباسؓ نے عورتوں کے ہاتھوں کو دیکھا؛ یعنی ہاتھ پردے میں شامل نہیں ہے۔
ایک دوسری حدیث بخاری و مسلم میں درج ہے کہ ایک نہایت خوبصورت عورت آپؐ سے کچھ سوال کر رہی تھی اور فضل بن عباسؓ بار بار مڑ کر اس عورت کو دیکھ رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بار بار ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیتے تھے۔ عباسؓ نے سوال کیا کہ اے نبیؐ! آپؐ فضل کا چہرہ بار بار دوسری طرف کیوں پھیر رہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے ایک نوجوان مرد اور ایک نوجوان عورت کو اس حال میں دیکھا کہ شیطان انھیں بہکانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس حدیث سے جمہور فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ اس عورت کا چہرہ کھلا ہوا تھا تب ہی تو پتا چلا کہ وہ خوبصورت عورت تھی اور فضلؓ بار بار ان کی طرف دیکھ رہے تھے اور آپؐ نے بھی اسے چہرہ چھپانے کا حکم نہیں دیا تھا حالانکہ وہ مسلم عورت تھی۔ آپؐ نے صرف یہ کیا کہ فضلؓ کا چہرہ دوسری طرف کر دیا تاکہ ان کی نظر اس کے چہرے سے دور رہے۔ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع کا ہے جبکہ پردے کا حکم نازل ہوئے پانچ سال گزر چکے تھے۔
نگاہیں نیچی رکھنے کا مطلب: نگاہیں نیچی رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آنکھیں بند ہوں یا سر نیچے کی جانب ہو تاکہ کسی پر نظر نہ پڑے کیونکہ مستقل ایسا کئے رہنا ناممکن ہے۔ نگاہیں نیچی رکھنے کا مفہوم یہ ہے کہ انسان بار بار اس چیز کی طرف اپنی نگاہ نہ لے جائے جو اس کیلئے فتنے کا باعث بن سکتی ہو۔ اسی لئے عورتوں اور مردوں کا ایک دوسرے کو ستر کے مقام کے علاوہ دیکھنا بالکل جائز ہے، بشرطیکہ ایسا دیکھنا شہوت کے ساتھ نہ ہو۔ اگر یہ دیکھنا شہوت کے ساتھ ہو تو یہ حرام ہے۔
مسند احمد کی روایت ہے کہ کچھ حبشی عید کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ تماشا دکھا رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں حضورؐ کے کندھوں پر چڑھ کر یہ تماشا دیکھتی رہی حتیٰ کہ دل بھر گیا۔
بعض شافعی حضرات کے نزدیک مردوں کا نہ عورتوں کو دیکھنا جائز ہے اور نہ عورتوں کا مردوں کو۔ ان کی دلیل ترمذی کی یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہؓ اور میمونہؓ کو عبداللہ ابن مکتومؓ سے پردہ کرنے کا حکم دیا تھا، حالانکہ وہ نابینا تھے۔ ان دونوں نے کہاکہ اے اللہ کے رسولؐ! وہ تو اندھے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ اندھے ہیں تم تو اندھی نہیں ہو، تم تو انھیں دیکھ سکتی ہو۔
لیکن علماء حدیث کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے اور استدلال کے قابل نہیں ہے۔ حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عرب اس زمانے میں پاجامے کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ بہت ممکن ہے کہ اٹھتے بیٹھتے وقت عبداللہ بن مکتومؓ کے ستر کا کوئی حصہ کھل جائے اور انھیں اس بات کا احساس نہ ہو۔ بہرحال علماء حدیث نے اسے ضعیف حدیث قرار دیا ہے۔ اس حدیث کے مقابلے میں دوسری حدیث زیادہ صحیح اور استدلال کے قابل ہے کہ جس میں حضورؐ نے فاطمہ بنت قیسؓ کو حکم دیا کہ عبداللہ بن مکتومؓ کے گھر میں عدت کے ایام گزاریں اور فرمایا کہ وہ نابینا ہیں، اس لئے تم ان کے سامنے اپنا پردہ اتار سکتی ہو۔ بخاری اور مسلم کی حدیث ہے۔
پردے کا رواج: رہی پردے اور برقعے کی بات تو بعض اسلامی معاشروں میں حد درجہ احتیاط کی وجہ سے پردے میں غلو سے کام لیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس غلو کا اسلام نے انھیں حکم نہیں دیا ہے، چنانچہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورتیں مسجدوں میں چہرہ اور ہاتھ کھول کر نماز پڑھ سکتی ہیں۔ بشرطیکہ ان کی صفیں مردوں سے پیچھے ہوں۔ اسی طرح یہ بات بھی جائز ہے کہ عورتیں درس و تدریس کی مجلسوں میں علم حاصل کرنے کی خاطر شریک ہوں۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ عورتیں مردوں کے ساتھ جہاد کے میدان تک سفر کرتی تھیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کرتی تھیں۔ صحابہ کرامؓ کی بیویوں نے جنگ یرموک میں مردوں کی مدد کی تھی۔ اسی طرح احرام کی حالت میں چہرہ کھولنا سب کے نزدیک جائز ہے بلکہ جمہور علماء کے نزدیک احرام کی حالت میں چہرہ کھولے رکھنا ضروری ہے اور چہرہ چھپانا حرام ہے؛ کیونکہ نبیؐ کا فرمان ہے:
’’احرام والی عورت نقاب نہیں لگا سکتی اور نہ دستانہ ہی استعمال کرسکتی ہے‘‘ (بخاری)۔
عورتوں کا شرعی لباس: سوال: آج کل بعض مسلمان عورتیں ذرا تنگ اور مختصر لباس پہنے ہوئے دیکھی جاتی ہیں۔ ان کا یہ لباس شریعت کی نظر میں حرام ہے یا حلال؟
جواب: حد درجہ افسوس کی بات ہے کہ آج کل لوگ اس قسم کا سوال بھی کرنے لگے ہیں جس کا جواب روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے یہ تو شریعت نے بالکل واضح کر دیا ہے۔ حلال و حرام کے درمیان بہت سی ایسی باتیں ہیں جو مشتبہ یعنی مبہم ہیں اور واضح نہیں ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے:
’’حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے۔ ان کے درمیان کچھ مبہم باتیں ہیں جنھیں بہت سے لوگ نہیں جانتے‘‘ (بخاری و مسلم)۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ ان مبہم اور غیر ضروری چیزوں کے بارے میں سوال ہو، لیکن ایسی چیز کے بارے میں سوال کرنا جس کا حرام ہونا بالکل واضح ہے؛ یقیناًباعث افسوس ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کیلئے اس قسم کا تنگ، باریک اور مختصر لباس پہن کر لوگوں کے سامنے آنا شریعت کی نظر میں بالکل حرام ہے۔
شریعت نے عورتوں کیلئے جو لباس جائز کیا ہے اس میں درج ذیل صفات ہونی چاہئیں:
(1 وہ لباس جسم کے سارے حصے کو ڈھانکنے والا ہو، سوائے اس حصے کے جس کی اللہ نے اجازت دی ہے؛ یعنی چہرہ اور ہتھیلیاں۔
(2 کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ جسم جھلکنے لگے کیونکہ ایسا لباس ساتر نہیں ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لباس کے بارے میں فرمایا ہے کہ بعض جہنمی عورتیں ایسی ہوں گی جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی؛ یعنی ان کا لباس اتنا باریک اور پتلا ہوتا ہے کہ سارا جسم جھلکتا ہے۔
(3 لباس اتنا تنگ و چست نہ ہو کہ جسم کے نشیب و فراز یعنی جسمانی اتار چڑھاؤ نمایاں ہوں۔
(4 ایسا لباس نہ ہو جو صرف مردوں کیلئے مخصوص ہو؛ یعنی جس لباس کو عرف عام میں مردوں کا لباس کہا جاتا ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔ عورتوں کا مردوں سے مشابہت اختیار کرنا در حقیقت اس فطرت سے بغاوت ہے جس پر اللہ نے عورتوں کو پیدا کیا ہے۔ اسی طرح مردوں کا عورتوں سے مشابہت اختیار کرنا بھی باعث لعنت ہے۔
یہ وہ اوصاف ہیں جو عورتوں کے شرعی لباس میں ہونے چاہئیں۔ ان میں سے اگر ایک وصف بھی کسی لباس میں مفقود ہو تو وہ لباس شریعت کی نظر میں جائز نہیں ہے؛ لیکن افسوس کی بات ہے کہ فیشن کے چکر میں آکر بعض عورتوں نے اللہ کے احکام کو فراموش کر دیا ہے۔ مرد حضرات بھی اتنے کمزور پڑ گئے ہیں کہ اپنی عورتوں کو شریعت کی حدود میں نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ’’قوامین علی النساء‘‘ (عورتوں کے گارجین) کی حیثیت عطا کی ہے۔ مسلمان مردوں کو چاہئے کہ خواب غفلت سے بیدار ہوں اور اپنی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے دور جدید کے اس فتنے کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔

تبصرے بند ہیں۔