لال قلعہ کی فصیل سے پھر مسلم خواتین سے جھوٹی ہمدردی! 

نازش ہما قاسمی

ہندوستان کی شان، مغلوں کے لال قلعہ جسے موجودہ حکومت نے گروی رکھ دیا ہے وہاں سے یوم آزادی کی ۵۲؍ویں معاف فرمائیں ۷۲؍ویں یوم آزادی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر مسلم خواتین کا رونا رویا۔طلاق ثلاثہ کو لیکر مسلم بیٹیوں سے جھوٹی ہمدردی جتائی، تین طلاق پر مگرمچھ کے آنسو بہائے؛ لیکن شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے سینکڑوں مسلم عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں۔ ہزاروں بچیوں کو ان کے والدین سے جدا کردیاگیا۔ حاملہ خاتون کا پیٹ چاک کرکے بچوں کو نیزے پر اُچھالاگیا۔ وہ شاید یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے اب تک سینکڑوں مسلم خواتین کا سہاگ اجاڑ دیاگیاہے۔ ان کے نزدیک یہ مسلم بیٹیوں پر ظلم نہیں ہے۔ ان کے نزدیک نجیب کی روتی ماں کے آنسوؤں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اخلاق کی بلکتی ماں، قاسم کی روتی بیٹی، اکبر کی حاملہ بیوی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ان کی پارٹی کی رہنمائی میں گئو رکشک دندناتے پھر رہے ہیں؛ لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں، ؛ بلکہ  ان کا استقبال کیاجارہا ہے۔ ان کا مقدمہ لڑنے کے لیے خرچہ اٹھانے کی بات کہی جارہی ہے۔

ملک کی ۷۲؍ویں یوم آزادی تھی۔ عوام اس امید اور آس میں تھے کہ وزیر اعظم مہنگائی پر بات کریں گے۔بڑھتی اشیاء کی قیمتیں گھٹائیں گے، گیس سلینڈر کی بڑھتی قیمتوں اور پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کو کم کرنے کا وعدہ کریں گے، نوجوانوں سے کیے گئے وعدے کو ایفا کریں گے اور انہیں روزگار سے جوڑ کر ان کا مستقبل تابناک بنانے میں معاون ثابت ہوں گے، مظلوموں پر ہورہے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائیں گے، اور ہجومی تشدد کے شکار افراد کی دادرسی کریں گے، کسانوں کے مسائل حل کریں گے؛ تاکہ ان کی خودکشیاں تھم جائیں، دلتوں کے مسائل حل کریں گے۔ گرتی معیشت کو سنبھالیں گے، لٹتی عصمت دری پر قابو پانے کی باتیں کریں گے اور اس ضمن میں ٹھوس قدم اُٹھائیں گے؛ لیکن ملک کے عوام کو شدید مایوسی ہوئی جب انہوں نے ۷۲؍ویں یوم آزادی کو۵۲؍ویں یوم آزادی قرار دیا اور ترقی کے ایجنڈے کو مزید پیچھے ڈھکیلتے ہوئے صرف مسلم خواتین سے جھوٹی ہمدردی کا راگ الاپا۔ کسانوں کے ساتھ ہورہے ظلم کو پس پشت ڈال دیا، بے روزگار نوجوانوں کو دو کروڑ نوکریاں دینے کے بجائے انہیں ٹوجی بی ڈیٹا ہاتھ میں تھمادیا۔ انہوں نے عصمت دری پر کوئی بات نہیں کی۔ اپنی ناکامیوں کو چھپاتے ہوئے چارسالہ دور اقتدار میں ہوئے ظلم کو پس پشت ڈال کر نہایت صفائی سے عوام کا ذہن بھٹکایا اور طلاق ثلاثہ کو جرم عظیم قرار دے کر پورے ملک کے عوام کو شدید مایوسی میں مبتلا کردیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طلاق ثلاثہ سے بڑا مسئلہ ہندوستان میں کوئی ہے ہی نہیں، کاش وزیر اعظم مسلمانوں کے تئیں واقعی ہمدردی دکھاتے۔ سابق ممبر پارلیمنٹ کی اہلیہ ذکیہ جعفری کو انصاف دلا دیتے، عشرت جہاں کی ماں کا غم سمجھتے، اخلاق کی روتی بلکتی ماں کے آنسو پوچھتے، اکبر کی حاملہ بیوی کا درد سمجھتے، نجیب کی ماں کا دکھ سمجھتے ہوئے ان کے لڑکے کو ڈھونڈنے میں تعاون کرتے؛ لیکن ان سب کے بجائے طلاق جو کہ خالص شرعی مسئلہ ہے اس میں مداخلت کرکے جھوٹی ہمدردی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ مودی حکومت نے طلاق ثلاثہ بل کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے اور اس کے ذریعے سے برادران وطن کو ایک پیغام دے رہے ہیں کہ ہم اس بل کو پاس کرا کر مسلمانوں کو مزید پستی میں ڈھکیلیں گے، ان کو شریعت سے دور کرکے ہندوستان کو اندلس ثانی بنائیں گے، مسلم عورتوں کی نام نہاد ہمدردی کے ذریعے انہیں سڑکوں پر بھٹکنے کےلیے مجبور کردیں گے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ رپورٹ معلوم ہونے کے باوجود بھی کہ مسلمانوں میں شرح طلاق ہندوئوں سے کم ہے، مسلم عورتیں ساس سسر، نند، سے ہندوئوں کے مقابلے میں کم ستائی جاتی ہیں، مسلم خواتین شوہر وں کی نافرمان ہندوئوں کے مقابلے میں کم ہیں، مسلمانوں کے یہاں جہیز کے نام پر ہندوئوں کے مقابلے میں دوشیزاؤں کو زندہ جلانے کی واردات نا کے برابر ہے؛ لیکن حکومت طلاق کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، طلاق جو کہ انتہائی خوش اسلوبی سے نااتفاقی والی زندگی سے ایک دوسرے سے جدا ہونے کےلیے اہم ذریعہ ہے، ہندوئوں کی طرح نہیں کہ وہاں عورتیں ہمیشہ اسی ظالم شوہر کے زیر نگیں رہنے پر مجبور ہیں، ظالم ترین شوہر سے بھی چھٹکارا ممکن نہیں۔

وزیر اعظم کی اہلیہ محترمہ خود اس ظلم کی چکی کے پاٹ میں پس رہی ہیں، چوکیدار نہ تو ان کو چھوڑ رہے ہیں اور نہ ہی بیوی والے حقوق دینے پر کسی طرح راضی ہیں، بیچاری کی حالت نہ جائے رفتن اور نہ پائے ماندن والی ہوگئی ہے، وہ شوہر کے جیتے جی بیواؤں والی زندگی گزار رہی ہیں، ہندوئوں میں طلاق نہیں ہوسکتی ہے جو ایک بار بیوی بن گئی وہ ہمیشہ بیوی ہی رہے گی، اگر شوہر وزیر اعظم کی طرح چھوڑ دیتا ہے تو بیوی یشودا بین کی طرح کسی سے شادی کرکے خوشگوار زندگی نہیں گزار سکتی ہے۔ یہ سہولت صرف دین اسلام میں ہی ہے جوکہ دین فطرت ہے اور یہی اسلامی قانون موجودہ حکومت کو راس نہیں آرہا ہے کہ وہاں کیوں عورتوں کے ساتھ ہمدردی کی گئی ہے، اسے بھی پریشانی میں ڈھکیلا جائے، جس کے لیے یہ سارے تام جھام اور پروپیگنڈے کئے جارہے ہیں۔ طلاق کے معاملے کو اجاگر کرکے مودی حکومت ہندوراشٹر کی طرف قدم تیزی سے بڑھا رہی ہے اور برادران وطن کو یہ باور کرارہی ہے کہ وہ مسلم مخالف ہے اور ان کی شریعت میں مداخلت کررہی ہے اور انہیں بے سروسامانی کے عالم میں پہنچانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ ترقیات اور اب تک کی حصولیابیوں کو چھوڑ کر ۲۰۱۹ کا الیکشن تین طلاق کے مسئلے پر لڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔حالانکہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام پورے ہندوستان کی شریعت پسند خواتین نے اس بل کو شریعت میں مداخلت قرار دیا ہے اور سڑکوں پر اتر کر اس کی مخالفت میں بڑے بڑے جلوس نکالے ہیں۔ لاکھوں مسلم عورتوں کے احتجاج پر حکومت جان بوجھ کر توجہ نہیں دے رہی ہے، مودی حکومت کو یہ مخالفت موافقت نظر آرہی ہے۔ چنندہ اسلام بیزار خواتین کی باتوں پر حکومت شریعت میں مداخلت کررہی ہے؛ لیکن لاکھوں مسلم خاتون کی آواز پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔