عرفات

سید شجاعت حسینی

حجاج نے آج قیام عرفات کے ساتھ مناسک حج کا اہم ترین مرحلہ مکمل کیا۔ خبر ہے کہ ہلکی بارش کی صورت میں ان پر ٹھنڈک کی رحمت بھی برستی رہی۔

تقریبا 50 مربع کلومیٹر پر پھیلی یہ بستی دلچسپ بھی ہے اور روح پرور بھی۔

کعبتہ اللہ سے 21 کلومیٹر دور، منیٰ سے آگے، مشرقی سمت میں واقع اس میدان کو میدان عرفات یا عرفہ بھی کہا جاتا ہے، جو جبل عرفات ( عرفات کی پہاڑیوں ) سے گھراہے۔

آئیے جانتے ہیں کیا ہے مقام عرفہ۔

1) عرفہ مقام نعمت ہے

اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کوکامل کردیا اورتم پراپناانعام پوراکردیا۔ اورتمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پررضامند ہوگیا۔

عمررضي اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔

ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے، جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئ۔ وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے۔

انسانیت پر رب کی نعمتیں تو ان گنت ہیں پر دین حنیف، تاریخ  انسانی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اور اسکے کامل ہونے  کا گواہ ہے میدان عرفات

2) عرفہ جائے عرفان ہے

یہی  وہ میدان ہے جہاں  آدم (ع)  نے قبولیت دعا کا عرفان اور ابراہیم (ع) نے حج اور اسکی حکمتوں کی معرفت پائی۔ اسی لئیے یہ سرزمین میدان معرفت یعنی عرفہ کہلائی۔

 یہ سرزمین اپنے مشن کی پہچان، زندگی کے مقصد سے آگہی، واقفیت ذات، علم وعرفاں، سیکھنے اور خود کو جاننے وپہچاننے کا مقام ہے۔

یہاں پہنچ کر خود کو ٹٹولنا نہ بھولیں۔ اپنی ذات کی اندرونی تہوں تک جھانکیں، نفس کی کثافتوں کو نچوڑیں۔ یہی درس دیتا ہے عرفات کا روح پرور سکوت۔

عرفات پہنچ کر جو اپنے گریبان ٹٹولے، ممکن نہیں کہ وہ خود کو اور خدا کو پہچانے بغیر لوٹ آئے۔

3) عرفہ حقوق انسانی کے اولین چارٹر کا گواہ ہے

عرفہ کی چوٹیاں گواہ ہیں، حقوق انسانی کے مکمل منشور کی جو صدیوں پہلے، اگلی بے شمار صدیوں کے لئے ریلیز کیا گیا تھا۔

یہی وہ پہاڑیاں ہیں جہاں سے دنیا نے انسانی وقار، عظمت و حقوق کی پاسداری کادرس، حجۃ الوداع کے بین الاقوامی چارٹر سے سیکھا۔ نبی کی جامع نصیحتوں کا مکمل پیکیج انھیں چوٹیوں سے پورے انسانی سماج کے لئیے نشر ہوا تھا۔

آج بھی عرفات کی چوٹیو ں سے خطبہ حج کئ زبانوں میں نشر ہوتا ہے۔ یہ گویا  پوری  دنیا کے لئیے  عالم اسلام کی جانب سے سالانہ پیغام ہوتا ہے۔ ایک کھلی منادی۔ دنیا اس منادی کی منتظر ہوتی ہے۔ بیشتر زبانوں میں اسکے تراجم  کا  ٹیکنولوجی کے بھرپور استعمال کے ساتھ نظم ہوتا ہے۔ کئی موبائل ایپس اور ایف ایم چینلس اس کام کے لئیے مختص ہیں۔

یہ سالانہ منادی اپنے ساتھ تاریخ ساز وقار پنہاں رکھتی یے۔ کاش یہ خطبہ شاہی ترجمانی کے بجائے نبوی منشور کی باز گشت بن جائے۔

4) عرفہ جاہلی عصبیت  کا مدفن ہے

بعثت نبی (ص)  سے قبل جاہلیت نے انسانوں کو قبیلوں اور خاندانوں سے آگے جغرافیائی اور شہری  عصبیت میں بھی باندھ رکھاتھا۔ عرب کو عجمی سے بیر، اہل حرم دیگر عربوں سے بلندتر، حرم کے باشندے بھی اہل معلاۃ اور اہل مسفلہ کی اونچ نیچ میں بٹے تھے۔

اسی عصبیت نے حرم کے رہنے والوں میں یہ تکبر پیدا کردیا تھا کہ اہل حرم حدود حرم سے آگے (مزدلفہ کے پرے)  کیوں جائیں۔ دیگر مقامات کے قافلے شوق سے عرفات جائیں لیکن ہمارا مقام (حرم)  عرفات سے بلند تر ہے۔ اسی جاہلی فکر کے بت کو سرور عالم (ص) نےتوڑا۔ سب کو مقام عرفات میں جمع ہونا لازمی قرار دیا۔ اور یہاں انسانی مساوات کا عظیم چارٹر دیا اور فرمایا کہ "وقوف عرفات ہی حج ہے۔ "جس نے اعراض کیا وہ حج سے محروم ہوگیا۔

معلوم ہوا کہ میدان عرفات ایک پیام ہے انکے لئیے جنھوں نے اپنے عظیم شہروں کے گرد انا کے "حرم ” کھڑے کر رکھے ہیں۔ شہری عظمتوں کی خودساختہ فصیلیں۔ جسکے پرےایک  نامعلوم دنیا ہے۔ چھوٹے قرئیے، گاؤں اور اضلاع  بس۔ وہاں قدم رکھنا بھی ” اہل حرم ” کی شان نہیں۔

میدان عرفات زندگی کے مشن کو سمجھاتا ہی نہیں بلکہ اس مشن کی خاطرعلاقائی اور  جغرافیائی انا کو قربان کرنے کا سبق بھی دیتا ہے۔

5) عرفہ، قبولیت حج کی لازمی شرط ہے

رب کی حکمتیں وہی خوب جانتا ہے، لیکن اسی حکیم کے حکم نے عرفات کو یہ  اعزاز بخشا کہ وہ  حج کی لازمی شرط ٹھہرا ۔ مقامات حج میں صرف عرفات، حرم کی حدود کے باہر ہے، لیکن پھر بھی حج کا سب سے لازمی جز ہے۔  کوئی لاکھ مشقت اٹھائے لیکن قیام عرفات سے کوتاہی برتے تو وہ بڑا خسارہ میں رہا۔

قیام عرفات رات کی ٹھنڈک  نہیں دن کی تپش کا نام ہے۔  جو تھک کر نڈھال ہوگئے، انھیں بھی ایک نئی توانائی بخشتا ہے عرفات کا روح پرور ماحول !

مجال ہے جو لاکھ تھکن کے باوجود عرفات میں کوئی غافل پڑا رہے۔

6) عرفہ نارجہنم سے آزادی کاراستہ ہے

صحیح مسلم میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا حديث مروی ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا، اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟

رب کعبہ ان بندوں کا ذکر بھی ناز سے فرماتا ہے جو نار جہنم سے پناہ کی التجا لئے عرفات میں آج جمع ہیں۔

7) عرفہ رحمت الہی کاجوئے رواں ہے

عرفہ کی پہچان ہے "جبل رحمت”

 اس سرخ پہاڑی پر رحمتوں کی بارش ہوتی ہے  اور یہ جوئے رواں جبل رحمت سے چلکر وادی عرفہ کے چپے چپے میں بہہ نکلتا ہے۔  جبل رحمت ہی وہ پہاڑی ہے جس کے پہلو میں پیغمبر اعظم ﷺ نے وقوف فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ وقوفِ عرفہ کرنے والوں پر فرشتوں کے سامنے کہتا ہے کہ : ”میرے بندو ں کو دیکھو کہ یہ میرے دربار میں گرد اور غبار آلود ہوکر پہنچے ہوئے ہیں،یہ میری رحمت کے امیدوار ہیں،یہ میرے عذاب سے خائف ہیں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انکی مغفرت کردی۔“۔

8) عرفہ سب سے بڑی عارضی بستی ہے

منیٰ کی پہچان ایک عارضی شہرہے، لیکن  عرفہ، چند گھنٹوں کی عارضی قیام گاہ۔ آسمان تلے ایک یادگار جائے وقوف۔

زندگی کی تمام سرگرمیوں سے منھ موڑ کر رب کی طرف لو لگانے کی کھلی معرفت گاہ۔

یہاں زندگی کے آثار صرف یوم عرفہ کو ہی نظر آتے ہیں۔ عرفہ میں بے شمار عارضی خیمے بھی ہیں لیکن لوگ  درختوں تلے یا چادریں تان کر ٹہھرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاکہ  اس وقوف کی یاد تازہ کریں اور خود کو اس قیام سے ہم آہنگ کریں جسے عرفات کی سرزمین نے صدیوں پہلے نبی اور صحابہ  کی جمیعت کے وقوف کی صورت میں دیکھا تھا۔

9) عرفات فطرت شناس بستی ہے

یہاں پہنچ کرانسان تصنوع کی دنیا سے بہت دوراور مادی لوازمات سے پاک ہو کر خود کو فطرت سے ہم آہنگ پاتا ہے۔ لباس، ٹھکانہ یا سواری، سب کچھ فطرت شناس۔

تن پر بدلتے زمانے اورمصنوعی سرحدوں کی چھاپ نہیں بلکہ بس دو سفید پٹیاں۔ عین وہی فطری لبادہ جسے پہن کر رب کے حضور سب کو رخصت ہونا ہے۔

کنکریٹ کے مصنوعی جنگل  اگانے کی یہاں اجازت نہیں۔ مسجد نمرہ  اور چند ضروری عمارتوں کے علاوہ یہاں کوئ اور پختہ عمارت نہیں۔ چادروں کے سائبان اور درختوں کے سائے  اس بستی کے مکینوں کا ٹھکانہ ہیں۔ دھواں اڑاتی سواریاں عرفات کی شاہراہوں کے لئے نامانوس ہیں۔ ملکہ زبیدہ نے عرفات کی پہاڑیوں سے گذار کر نہرزبیدہ بنائ۔ زنگی وزیر جمال الدین الجاوید نے جبل رحمت پر سیڑھیاں تعمیر کیں۔ لیکن عرفات کی فطرت شناس طبیعت کا احترام باقی رہا۔

10) عرفہ اسلامی اجتماعیت کا بے مثل نمونہ ہے

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی

عرفات اسی رمز مسلمانی کی مجسم تمثیل ہے۔ جہاں رنگ و بو کے بت توڑ کر رب کے بندے صرف رب کے ہوجاتے ہیں۔

یہی اجتماعیت کی روح ہے کہ روزانہ پانچ مرتبہ اپنی بستی میں، ہفتہ میں ایک مرتبہ شہر کی جامع مسجد میں، سال میں دو مرتبہ عید گاہ میں اور سال میں ایک مرتبہ عالمی سطح پر میدان عرفات میں اس عالمگیر اجتاعییت کا روح پرور اہتمام ہو۔

عرفات کا یہ پیغام عرفات کے پرے بسنے والوں کے لئے بھی اتنا ہی اہم ہے، اور یہ کھلا سوال کہ ہم اس پیغام کو یاد رکھتے ہیں یا کل عید سے پہلے بھول جاتے ہیں۔

مجھے یاد ہے اس حوالے سے ہمارے ایک رفیق بڑے اصول پسند تھے، کہتے تھے، یہ کیا تک ہے کہ عید فرقوں میں بٹی امت کے لئے رمزمسلمانی کی صدا لگاتے نمودار ہوتی ہے اور یہ صدا سنکر ہم اپنے اپنے مسلک کی مسجد کی جانب دوڑ لگائیں۔ یہ نہیں کہ نبوی اسوہ کی قدر کریں اور اس دن سب ملکر عید گاہ آباد کریں۔ اس اسپرٹ کے ساتھ کہ،

” نہ دیوبندی رہے باقی نہ سلفی ہو نہ ملتانی”

بلکہ جب انھیں پتہ چلتا کہ کسی نے مسجد میں  نماز عید ادا کرلی تو ازراہ تفنن یہ صلاح دیتے کہ آپ کا کام آسان ہوگیا  اب اسی مسجد میں حج بھی نپٹالینا۔ ۔

رب کعبہ یوم عرفہ کی مسعود ساعتوں سے ہم سب کو مستفید فرمائے۔۔

تبصرے بند ہیں۔