منیٰ

سید شجاعت حسینی

لیجیئے، خبر ہے کہ آج حجاج منی  پہنچ گئے اس دلفریب خبر  نے احساسات کو تازہ کردیا۔ کچھ پرانی باتیں اور بہت کچھ نئے نکات کے اضافے کے ساتھ اس روح پرور بستی کا ایک تعارف۔ ۔

حرمین کا ذکر و تصاویر تو عام ہیں لیکن عام ذہن یہ سوچتا ہے کہ

منیٰ کیا ہے؟

1)  منیٰ دنیا کا سب سے بڑا عارضی شہر ہے

یہ وہ شہر ہے جہاں ایام حج کا آغاز ہوتا ہے۔ جوبس چند دنوں کے لئیے بستا ہے اور پھر ایک سال کے لئیے سیل کردیا جاتا ہے۔  بس چند دنوں کا ساتھ ہوتا ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے اس چھوٹی سی وادی نے  ” گرین کارڈ ” سے نواز دیا ۔  ہر مکین یہاں چند دن گذار کر اپنا بدن تو اٹھا لیجاتا ہے لیکن دل یہیں چھوڑجاتا ہے۔  جب وقت وداع ہوتا ہے تو ہرفرد بوجھل نظر آتا ہے۔ بھلا ان  مکینوں کا زمین کے اس چھوٹے سے خطہ سے کونسا جغرافیائ تعلق ؟ اس شہر نے انھیں کونسے چکا چوند "کیریر” سے نوازا؟  کیا، انھیں موٹی تنخواہوں اور فارن ایکسچینج کے چھوٹ جانے کا غم کھائے جارہا ہے۔۔ کچھ نہیں۔۔

پھر یہ مکین اتنے بوجھل کیوں ہیں ؟؟ کیوں ان کی نگاہیں ان خیموں کو ٹٹولتی ہیں ؟  کیوں انھیں یہ عارضی ٹینٹ اپنے  ہوٹلوں کےعالیشان کمروں سے زیادہ عزیز ہوگئے۔ کیوں یہاں کی سخت گرمی جھیلنا۔ دیوانہ وار چل کر اپنے تلووں کی جلد کھرچ  دینا اور خاک آلود کپڑوں میں شب وروز بتانا سب کچھ انھیں گوارہ ہی نہیں بلکہ شوق تمنا بن  جائے گا۔

اس لئے کہ یہ بستی انھیں بس چند دنوں میں دو جہاں کی دولت سے نوازنے جارہی ہے۔ یہ ایک عظیم تر احساس کی دولت ہے۔ یہ وہ دولت ہے جسے نہ کرنسی مشینیں کاؤنٹ کرسکتی ہیں نہ ویئنگ مشین اسکے وزن کو سنبھال سکتی ہیں۔

2) منٰی  دنیا کا سب  سے گنجان آباد شہر ہے

یہاں آپ کو قریبا 12اسکوائر فٹ کی جگہ نصیب ہوتی ہے اور یہی آپ کا کل اسپیس ہوگا۔  مگر اس مختصر بیڈ کے مقابل ہوٹلوں کے ماسٹر بیڈس ہیچ۔ ۔۔ ماسٹر بیڈرومس کے کشادہ ماحول میں جنکی آنکھ نیند سے ہمکنار ہوتی ہے انکے لئے عین اتنا ہی اسپیس موجود ہے جتنا قبر کی صورت میں انکے مقدر میں لکھا ہے۔ بس اسی کشادگی کے ساتھ کئی لاکھ لوگ اس مختصر رقبہ میں قیام فرماتے ہیں۔ اس وقت جب چند ہزار لوگ منیٰ پہنچتے تھے تب بھی منیٰ کی وادیاں کشادہ تھیں اور آج جب یہ تعداد ملینز میں تجاوز کرگئی منیٰ اپنی تنگ دامنی کے باوجود ہنوز کشادہ ہے۔

3) منٰی ایک حقیقی انٹرنیشنل سٹی ہے

کاسموپالیٹین، انٹرنیشنل، اور بین تہذیبی سماج کے دعویدار تو بے شمار شہر ہے لیکن ایسی مثال شائد نہ ملے کہ کرہ ارض کے ہر خطے، رنگ، نسل  اور زبان کی نمائندگی یکجا ہو لیکن اس اسپرٹ کے ساتھ کہ

بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا۔

نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نا افغانی 

4) منیٰ شیطانی انا کا قبرستان بھی ہے

یہاں داخل ہوتے ہی ہر شخص اپنی انا کو یہاں کی اڑتی خاک تلے گہرائ میں دفناتا ہے۔ جس نے کوتاہی کی اسے اس مشقت میں ہارتے بھی دیکھا۔ کبھی کبھی انھیں خاک آلود احرام میں ملبوس کوئ فرد  بیڈ کی چوڑائ پر شکایت کرتا نظر آئے، مزدلفہ میں آسمان تلے رات بتانے پر چیں بہ جبیں ہوا جائے اور، رہ رہ کر حج پیکیج اور پیمنٹس کی دہائی دینے لگے تو یوں لگتا ہے  کہ شائد انا کی تدفین میں اب بھی کچھ کسر رہ گئ۔۔

5) منیٰ اطاعت، سادگی اور وقار کی درسگاہ ہے

جنکے تن برینڈس سے سجے ہوتے ہیں آج پسینہ کی بو اوراسی بستی کی   خاک وگرد سے اٹے احرام انکا پیرہن ہیں۔

جنھیں شوز کے پسندیدہ برینڈ کی معمولی تبدیلی سے پیروں کے پھٹے جانے کاڈر ہوتا ہے ان پر لازم ہے  کہ دو پٹی چپل کی حد نہ پھلانگیں۔

جنکی موجودگی محفل کو پیرس کے پرفیومس کی مہک سے مہکانے کے لئیے کافی ہے، آج بہتے پسینے کے ریلے انکے لئے مشک و عنبر ہیں۔

6) منیٰ مساوات  واتحاد کا ماڈل سٹی ہے

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے لیے منیٰ میں گھر نہ بنا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، منیٰ اس کی جائے قیام ہے جو پہلے پہنچ جائے“۔۔ ” (ترمذی، ابن ماجہ)”

رسول اکرم نے اپنے لئیے بھی کوئی ممتاز رہائش  پسند نہیں فرمائی  کجا کہ کوئی اور اونچ نیچ کی مصنوعی دراڑ ڈالے۔

 منیٰ ایسی جگہ ہے جہاں کوئ بڑا یا چھوٹا نہیں۔ دولت، رتبہ، دستار فضیلت  اور بزرگی کے عماموں کی بنیاد پر خیموں کو بانٹنے کی یہاں کوئی اجازت نہیں۔ جو یہاں پہنچنے میں سبقت لے جائے منی کی وادیاں بس اسی کا مسکن  ہیں۔

مگر اس حوالے سے شائد ہم پیچھے رہ گئے۔ افسوس کہ محسن اعظم (ص) کی اس نصیحت کا پاس  رکھنے میں ہم ناکام ہوئے جارہے ہیں۔ منیٰ کے خیموں کو بھی مادی اونچ نیچ میں بانٹ دیا گیا۔ علم و فضیلت کی دستاریں بھی جب  اونچ نیچ کی کسوٹیاں بن جائیں تو دکھ بڑھ جاتا  ہےکڑوی سچائی یہ ہے کہ یہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف ٹراویل ایجنسیاں اور ٹورآپریٹرس نے جونہی حج کی آڑ میں بزنس ڈھونڈھ لیا، ڈیلیکس، پریمیم اور اکانومی پیکیجس کے نام پر  اس خوبصورت بستی کو بھی اونچ نیچ میں بانٹ کر رکھ دیا۔ کسے فکر کہ رحمت عالم (ص) کی بیش قیمت نصیحت کو بھی یاد رکھے۔

ہمیں تمھاری غلامی پہ فخر ہے لیکن

بھلادیا کہ غلامی کا مدعا کیا ہے

وفا کو ایک تخیل بنالیا ہم نے

ہمیں شعور نہیں مقصد وفا کیا ہے

7)  منیٰ تعاؤن کے جذبات کا سمندر ہے

نفسا نفسی کے ماروں کی بات چھوڑئیے، لیکن بالعموم یہاں تعاؤن اور ہمدردی کا سیلاب بہتا ہے۔ منیٰ کے چپے چپے میں بے شمار حاتم بھی ہیں ایدھی بھی ہیں  اور خضر بھی۔

 بالخصوص خضران راہ کا کوئی ثانی نہیں، جنکی اکثریت ملیالی احباب کی ہے۔ انکی خوش مزاجی اور جذبہ تعاؤن نے دنیا بھر میں انکے لئیے نیک نامی سمیٹی، آج جب وہ سیلاب کا کرب جھیل رہے ہیں تو ہم سے پہلے سمندر پار والوں نے  ان کے لئیے آپنی جیبیں کھول دیں۔

8) شیطان کی ذلت کا مقام ہے

منٰی کے  راستوں پر شیطان کو ذلیل کرنے کے جذبہ سے معمور قافلے دوڑتے ہیں اور اس بستی کے ایک کوچہ میں وہ مقام بھی ہے جہاں لاکھوں لوگوں کے ہاتھ شیطان ذلیل و خوار ہوتا ہے۔

اسی بستی میں اس پانچ روزہ کشمکش کا آغاز ہوتا ہے جب بندہ احرام کی ڈھال باندھے شیطان کے ہر حربے کو مات دینے کا عزم کرتا ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ پست بھی ہوجائیں لیکن ایک کثیر اکثریت شیطان پر غالب ہوکر رہتی ہے۔

9) منیٰ  انبیا اکرام کی سجدہ گاہ ہے

اسی منیٰ میں مسجد خیف ہے جہاں 70 انبیائے کرام ؑ نے نماز پڑھی۔۔ یہ اعزاز منیٰ کی وادی کو دھرتی کے بیشتر حصوں سے ممتاز کرتا ہے۔ کون نہیں چاہے گا کہ اس کی پیشانی وہاں سجدہ ریز ہو جہاں نبیوں نے اپنی  جبینیں رب کے حضور جھکائی تھیں۔

10) منی مستحقین کا دستر خوان ہے

شائد یہ بات چونکادے کہ منی محروموں اور مستحقین کا دستر خوان بھی ہے۔

جی ہاں اس شہر کے باسی تو بالعموم وہ ہیں جنھیں رب نے نواز رکھا ہے، تبھی وہ یہاں پہنچ پائے ۔ پھر یہ محروموں کا دستر خوان کیسے ہوا؟

واقعہ یہ ہے کہ منی اپنے شہریوں اور محروموں کے بیچ ایک راست کنکشن ہے ۔ ایک سیدھا پل ۔۔

منی میں قدم قدم پر ایسے سلاٹر ہاؤس ہیں جن کے باہر نہ خون و گندگی بہتی ہے اور نہ بدبو ابلتی ہے ۔۔کم و بیش 30 لاکھ جانور یہاں قربان ہوتے ہیں ۔ جنکے گوشت کا بڑا حصہ راست ان تک پہنچتا ہے جنھوں نے سال بھر بمشکل گوشت چکھا۔اسی لئے میں کہتا ہوں، منی ایک غیر مرئ، غریب پرور نرالا دسترخوان ہے ۔

11) منیٰ تاریخ انسانی کی سب سے عظیم قربان گاہ ہے

اسی میدان میں تاریخ انسانی کا وہ حیرت انگیز واقعہ بھی وقوع پذیر ہوا جس پر ایمان سے خالی دل مشکل سے یقین کرپاتے ہیں ۔ بزرگ باپ کا اپنے چہیتے بیٹے سے سوال کہ میں رب کے حکم ورضا کی خاطر تمھاری گردن پر چھری پھیر دوں ، تمھارا کیا خیال ہے؟

یہ سوال ہی عام انسانوں کے ہوش اڑادے۔

پھر آٹھ سالہ معصوم بچے کا فدویانہ جواب بھی اتنا ہی ناقابل یقیں۔

’’ اے میرے باپ ! کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے‘‘۔

نہایت مبارک خاندان اور قابل رشک فرزند جو اس عظیم انسان کے مشن اور اقدار کا سچا اور مکمل وارث بن گیا ، اسی منیٰ کے باسی تھے۔

شہر منی کے ان عظیم سپوتوں کی آپسی گفتگو رب کے حضور اتنی پسندیدہ قرار پائی کہ قرآنی الفاظ کے ذریعے امر ہوگئی ۔
منی کا یہ تاریخ ساز ڈائیلاگ دن کے ہر پل دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں تاقیامت نماز و تلاوت کے ذریے دہرایا جاتا رہے گا۔

رب کعبہ منی و عرفات کی مقبول دعاؤں میں ہمیں بھی شامل فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔