لا یموت : ایک خود نوشت

مبصر: شبیع الزماں

لایموت ڈاکٹر راشد شاز کی خود نوشت ہے لیکن اس کا انداز روایتی بائیو گرافی کا نہیں ہے۔ کتاب کے کور پیج پر یہ تحریر موجود ہے کہ’’ لا یموت ایک خود نوشت نہیں گوکہ اسےاس پیرائے میں لکھنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے ۔‘‘ مصنف نے کتاب میں اپنی ذاتی زندگی کی تفصیلات جیسے خاندان، ،پیدائش،نکاح یہاں تک اپنی تاریخ ولادت تک بیان نہیں کی ہے۔ کتاب میں مصنف کے والد کا مستقل کردار ہےجو اہم معاملات میں مصنف کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن انکا نام بھی کتاب کے اشاریہ میں درج کیا گیا ہے۔ اس لیے غیر روایتی طور پر بھی اسے خود نوشت کہنا مشکل ہی ہے ۔اسےہندوستانی مسلمانوں پر گزرے حالات پر مصنف کے جذبات و احساسات کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے۔ کتاب کا انداز کچھ اس قسم کا ہے کہ مصنف کے قریب کچھ مضطرب انسان ہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ ہندوستان میں مختلف مظالم کا شکار ہوئے ہیں، اور الگ الگ حوالوں سے گفتگو کے دوران اپنے کرب کو بیان کرتے ہیں یعنی مصنف نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مختلف کرداروں کا سہارا لیا ہے۔

کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کا انداز بیان ہے۔ انداز بیان موثر اور رواں ہے۔ کتاب قاری پر سحر طاری کردیتی ہے۔ مظلومین کے کرب کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ قاری خود اس درد کی کسک کو محسوس کرنے لگتا ہے اور اسے یہ آپ بیتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ مصنف کا مستقل احساس ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے کیا کھویا اس کا ادراک وہ نہیں کر پارہے ہیں۔ انکے اندر سے اپنے لٹ جانےکا احساس ہی لُٹ گیا ہے، کتاب اسی مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہے۔مصنف ایک جگہ اسی درد کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔

’’در اصل سینتالیس کے بعد یہاں ہر روز ایک سقوط کا سامنا ہے ۔ سقوط دہلی تو وقائع نگاروں کو نظر آجاتا ہے، لیکن اس سقوط کا علم عام طور پر لوگوں کو کم ہی ہوتا ہے جس سے ہم سینتالیس کے بعد سے دوچار ہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہر روز مسلسل کوئی چیز ٹوٹتی بکھرتی جاتی ہو اور یہ سلسلہ روکے نہیں رکتا؟‘‘

دوسری جگہ لکھتا ہے’’تم درست کہتے ہو ، مولویوں کی انجمنیں ہوں یا مسلمانوں کے سیکولر سیاستدان ان بے چاروں کو اس بات کا سرے سے اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ یہاں کونسا حادثہ پیش آیا ہے ۔ اگر آپ کو اس بات کا پتہ ہی نہ چلے کہ آپ سے کیا چیز چھن گئی ہے تو آپ ایک حیرانگی کے عالم میں خوف و دہشت کے اسیر ہوجاتے ہیں ۔ہر روز کچھ نیا چھنتا ہے اور اس سے پہلے کہ آپ اس حادثہ فاجعہ کو اپنی گرفت میں لائیں یا اس کے تدارک کی کوشش کریں ، ایک نیا حادثہ مزید کچھ چیزوں سے آپ کو محروم کردیتا ہے ۔ ایک ورطہ حیرت ،خوف مسلسل اور کرب بے کنار ، یہ ہے ہماری کہانی‘‘

کتاب تقسیم کے بعد کے ہندوستان سے لیکر بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کے ذرا پہلے تک کےحالات کا احاطہ کرتی ہے ۔ اِس دورانیہ میں مسلمانان ہند پر کیا گزری ، خونیں مسلم کش فسادات کی تفصیلات جس میں ہر طرف جلتے گھر، خون میں لتھڑی لاشیں،لٹتی عصمتیں، برباد ہوتے خاندان اور فسادات کے بعد ،فساد کروانے کے جرم میں مسلمانوں کی گرفتاریاں۔ دوسری طرف ملی قیادت کی سادگی ، بے عملی یا کاسہ لیسی کو بیان کرتی ہے۔ کتاب بتاتی ہے کہ کانگریس کس طرح ملی قیادت کو استعمال کرتی رہی ہے اور مسلمانوں کے ووٹ وصولنے کے بعد انہیں کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیتی ہے۔

’’ مسلمانوں نے اپنا سب کچھ کانگریس کے حوالے کر رکھا ہے اور یہی کانگریس فسادات میں مسلمانوں کو نہ صرف بلوائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے بلکہ حکومتی مشنری بھی بلوائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہوجاتی ہے۔ان سب کے باوجود مسلم قائدین کانگریس کی حمایت میں تشہیری مہمیں چلاتے ہیں۔ اس سے اپنے تحفظ کی بھیک مانگتے ہیں۔ اور کانگریس کی مسلم دوستی کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے ‘‘

کتاب ،ملی قیادت چاہے مذہبی ہو یا سیاسی دونوں کے اپروچ ، مزاج اور ناکامی پر گفتگو کرتی ہے۔’’یر غمال قیادت‘‘ کے عنوان کے تحت ڈاکٹر راشد شاذ لکھتے ہیں۔

’’ بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کے بعد مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ ہم جسے مسلمانوں کی اجتماعی ملی قیادت سمجھتے ہیں اس کی حقیقت ایک سراب اور واہمہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ بیشتر قائدین نے اپنی اپنی خانقاہوں ۔ تکیوں، اداروں، انجمنوں اور مدرسوں میں انتظام و انصرام کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ان کی گوناگوں تنظیمی اور سماجی مصروفیات اس بات کی اجازت ہی کب دیتی ہے کہ وہ امت کے مسائل کا باقاعدہ تحلیل و تجزیہ اور مستقبل کے لیے کوئی موثر پلاننگ کرسکیں۔ اور پھر کسی ایسی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی ملک گیر تنظیمی ڈھانچہ بھی تو نہیں۔ اپنی موجودہ صورتحال میں یہ حضرات زیادہ سے زیادہ یہی تو کرسکتے ہیں کہ کسی ہنگامی صورتحال پر کوئی میٹنگ طلب کرلیں۔ پھر قرارداد، میمورنڈم ، اخباری بیانات اور زیادہ سے زیادہ وزیر اعظم سے بالمشافہ ملاقات کے ذریعہ انہیں اپنے موقف سے آگاہ کردیں۔مگر عوام تو ان حضرات کی طرف بڑی بڑی پر امید نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ وہ ان کی ایک اپیل پر وسائل کے بڑے بڑے انبار لگا دیتے ہیں ۔انہیں دین کے نام پر خرچ کرنے کا جو تصور دیا گیا ہے اس کی پوری پاسداری کرتے ہوئے وہ مسجدوں اور مدرسوں کو دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ زکوٰۃ و صدقات کی رقمیں اور قربانی کی کھالیں خوشی خوشی مولویوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ بورڈ کی ایک آواز پر شریعت کے تحفظ کے لیے عامۃ الناس کے غول کے غول سڑکوں پر نکل پڑتے ہیں۔ عام لوگ تو اسی تاثر کے ساتھ جیتے ہیں کہ ایک بیدار مغز ، بے لوث اور صالح قیادت ہمارے جملہ امور پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کاش کہ انہیں پتہ ہوتا کہ عدیم الفرصت مسلم قائدین کے اس کارواں کے پیش نظر مروجہ نظام کو برقرار رکھنے کے علاوہ سرے سے کسی منصوبہ کا کوئی وجود ہی نہیں۔‘‘

کتاب کا سب سے بہترین باب تیروہواں باب ہے جس کا عنوان’’روح کا زخم‘‘ ہے ۔جس میں مصنف نے ہٹلر کی فوج کے ان یہودی سپاہیوں کا موازنہ ،جو یہودی قوم کے ہولاکاسٹ میں ہٹلر کے ساتھ شامل تھے ، کانگریس کے ان مسلم لیڈروں سے کیا جو ترکمان گیٹ کے قتل عام میں بالواسطہ یا بلا واسطہ کانگریس کے ساتھ تھے۔ اس باب کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے ۔

’’تو کیا کانگریس کی مسلم دشمن مہم میں اسے بھی مسلم جرنیلوں ، رضا کاروں اور مسلم علما کی معاونت حاصل تھی؟ آج جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ، مجھے نہیں معلوم کہ یہ لوگ کہاں گئے اور انکا کیا بنا ۔ذاکر حسین سے لیکر فخرالدین علی احمد تک اور شنہواز خاں سے لیکر برنی ، مدنی ،اور ان جیسے دسیوں خادمین پر کیا گزری۔ انہیں اپنے آنسووں سے روح پر لگے زخم دھونے کا موقع ملا بھی یا نہیں‘‘

کتاب میں تاریخ کے مشہور پروفیسر عرفان حبیب کا بھی ذکر ہے اور انکے چند واقعات بھی درج ہیں۔ عرفان حبیب ہندوستانی تاریخ میں ایک بڑا نام ہے لیکن مصنف نے انکے بارے میں جو کچھ لکھا اگر وہ درست ہے تو ان کی امیج ا یک غیر علمی، اسلام یا مسلم دشمن اور شہرت حاصل کرنے کے لیے سستی سیاست کرنے والے شخص کی بنتی ہے۔

کتاب میں بعض خامیاں اور کمزوریاں بھی ہیں۔ کتاب قاری کو نیا مواد فراہم نہیں کرتی ہے۔ وہی اخباری قسم کی معلومات ہے جو عام طور سے اس طرح کے موضوعات پر پیش کی جاتی ہیں۔یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ معلوم اور معروف مواد کو نئے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔اس طرح کے عنوانات پر عالمی معیار کے سطح کی جو کتابیں موجود ہوتی ہیں ۔ اس میں مواد کی تلاش، چھان بین اور ترتیب میں جس محنت، دیانت اور دقت نظر کا ثبوت دیا جاتا ہے کتاب میں اس کا اہتمام نہیں دکھائی دیتا ہے ۔ تحقیق و ریسرچ، مواد کی صحت اور واقعات کی صحیح ترجمانی سے کتاب میں عالمانہ شان اور محققانہ وقار پیدا ہوتا ہے۔ جیسے پیری اینڈرسن کی انڈین آئیڈیالوجی یا اروندھتی رائے کی دی ڈاکٹر اینڈ دی سینٹ دونوں کتابیں بھی ظلم اور نا انصافی کی داستان بیان کرتی ہیں لیکن ان کی اکیڈمک سطح بہت اعلیٰ ہے اسکے بر عکس لا یموت ان میعارات پر پوری نہیں اترتی ہے۔

کتاب میں بعض تبصرے سطحی قسم کے ہیں ۔مولانا آزاد کے بارے میں مصنف اپنے ایک استاد کے حوالے سے یہ بات لکھتا ہے کہ

’’ابولکلام آزاد اور حسین احمد مدنی اپنی سماجی حیثیت کے باوجود خاندانی اعتبار سے اعلیٰ نسب نہ تھے سو مسلم لیگ میں انہیں قیادت کا عالی مقام نہیں مل سکتا تھا ، ان کے لیے کانگریس کے سایہ عاطفت میں پناہ لینے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں رہ گیا تھا۔‘‘

یہ جملہ بتاتا ہے کہ مولانا آزاد اور حسین احمد مدنی کانگریس میں اپنے اصولی موقف کی بنا پر نہیں بلکہ قیادت کی لالچ میں گئے تھے۔اور یہ جملہ نہ صرف ان کی زندگی بھر کی کوششوں بلکہ ان کی نیت پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کردیتا ہے۔ اگر مصنف کی رائے میں مولانا آزاد کا موقف اصولی بنیادوں کے بجائے قیادت کی ہوس کی بنیاد پر تھا تو اس موقف کو مضبوط دلائل کے ساتھ رکھنا چاہیے نہ کہ خود نوشت جیسی کتاب میں ایک کردار سے اس طرح کا ریمارک کروانا چاہیے۔مولانا آزاد بر صغیر کی جدید تاریخ کی ایک عظیم ملی شخصیت ہیں۔ انکا موقف ان کی کتابوں، تقریروں،فکراور زندگی بھر کی کاوشوں سے طے ہوتا ہے۔اس لیے مصنف کے اس ریمارک کی حیثیت ایک خیالی تکے سے زیادہ نہیں رہ جاتی ہے۔ اسی طرح صفحہ 155 پر مولانا مودودی کے بارے میں ایسا ہی تبصرہ کسی پائپ کش کمیونسٹ کا درج کیا گیا ہے ۔

’’بات ابو الاعلیٰ مودودی کے اس خطبے کی ہورہی ہے جو انھوں نے 1940 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹریچی ہال میں انجمن اسلامی تاریخ وتمدن کی دعوت پر دیا تھا اور جسے بعد میں اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے کے عنوان سے شائع بھی کیا گیا۔خورشیدالاسلام غالباً خود اس جلسے شریک تھے فرمارہے تھے بھلا بتائیے انکا مارکسزم کا کیا مطالعہ، پھر تخصیص کے ساتھ تحقیق کے ساتھ اور معین طور پر انھوں نے کوئی علمی تنقید بھی تو نہیں کی۔بس سرسری طور پر مسترد کردیا۔سوئپنگ اسٹیٹمنٹ دینا تو بڑا آسان ہوتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا رخ کھڑکی کی طرف کیا اور دھویں کے مرغولے بنانے میں مصروف ہوگئے۔مجھے حیرت ہوئی کہ ابوالاعلیٰ مودودی جیسی عبقری شخصیت کو جنہوں نے بیسویں صدی کی مسلم فکر کو متاثر کیا ہے ، ان حضرت نے کس طرح دھویں کے چند مرغولوں میں نپٹا دیا‘‘

حیرت ہے ،جو کتاب ہی مکمل طور سے سرسری تبصرے(سوئپنگ اسٹیٹمنٹس )سے بھری پڑی ہے وہ مولانا مودودی جیسے محقق اور وہ بھی مغربی فکر پر ان کی تنقید پر جو انکا خاص میدان رہا ہے سوئپنگ اسٹیٹمنٹ کا کمنٹ کر رہی ہے۔

اک جفا تیری کہ جوکچھ بھی نہیں، سب کچھ تو ہے

اک وفا میری کہ سب کچھ ہے ،مگر کچھ بھی نہیں

مسلمان ہندوستان میں سیکڑوں سالوں سے رہ رہے ہیں لیکن ہندوستانی سماج کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش انکے علمی طبقے کی طرف سے نہیں ہوئی بلکہ سطحی قسم کی معلومات اور مفروضوں پر ہی اکتفا کیا اور اس کا اظہار کتاب کے مطالعے سے بھی ہوتا ہے جیسے ایک جگہ مصنف لکھتا ہے۔

’’ مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس ملک میں ہزاروں سال سے نیچی ذات کے ہندوؤں کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسلام کی تعلیم مساوات سے متاثر ہوکر ان میں سے بہتوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اور اب آزادی کے بعد دستور میں نہ صرف یہ کہ مساوات انصاف حریت اور مواخات کی ضمانت دی گئی بلکہ نیچی ذات کے ہندوؤں کو ریزرویشن جیسی مراعات بھی عطا کردی گئیں۔ ہندوؤں کا مقتدر طبقہ اس سماجی اور نظری انقلاب کے لیے اسلام اور مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ان کی بعض تنظیمیں یہ سمجھتی ہے کہ جب تک مسلمان اپنے نظری پیغام کے ساتھ اس ملک موجود ہیں اونچی ذات کے ہندوؤں کی بالادستی مستحکم نہیں ہو سکتی‘‘

کتاب کا انداز بیان ماتمی قسم کا ہےاور اس کا مجموعی تاثر مایوسی پیدا کرتا ہے۔ کتاب کے مطالعے سےبے بسی و محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہ دنیا حوادث اور تغیرات کا کارخانہ ہے یہاں مشکلات اور مصائب آتے رہتے ہیں اقوام وملل کی زندگیاں نشیب و فراز سےبھری ہوتی ہیں۔ لیکن صرف ماتم سے حالات نہیں بدلتے۔ درد کو محسوس بھی کیا جانا چاہیے اور اسے بیان بھی کیا جانا چاہیے لیکن ساتھ میں مرہم بھی تجویز کیا جانا چاہیے۔ ہندوستانی مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں انہیں ماتم کی نہیں بلکہ ریسرچ و تحقیق کے ساتھ غور و فکر کے ذریعے زوال کے اسباب معلوم کرنے اور تیز رفتار عروج کے مناسب طریقہ کار اور حکمت عملی پتہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اٹھا وٗ تیشہ ادراک اہل فکر ذرا

نئے دماغ تراشو نئی صدی کے لیے

تبصرے بند ہیں۔