لفظوں کا لہو: ایک تجزیہ

محمد علم اللہ

ہندوستان میں ان دنوں ایک نیا رجحان تشکیل پا رہا ہے کہ اردو ادب میں نئے لکھنے والے قلمکاروں نے فکشن کی جانب توجہ مرکوز کی ہے اور اس میں کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہیں، ان کے یہاں صرف خیال و تراکیب ہی نہیں ہیں؛ بلکہ ان کو پیش کرنے اور بہتر انداز میں برتنے کا طور طریقہ بھی ہے، اس نوجوان اور ہنر مند کارواں میں عادل فراز،ابو فہد،عمران عاکف خان، کامران غنی صبا، نورین علی حق،شہناز رحمان وغیرہم چند نمایاں نام ہیں، یہ قلمکار جس انداز سے اپنے قلم کو حرکت دے رہے ہیں ،اگر وہ اسی انداز سے لکھتے رہے، تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ آسمانِ ادب کے نیر تاباں ثابت ہوں گے۔

سلمان عبد الصمد اسی قبیلے کے ایک قلمکار ہیں، انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلما سے عالمیت کی سند حاصل کی ہے اور اب جے این یو جیسے معروف ادارہ سے اردوزبان و ادب میں تحقیق کر رہے ہیں، انھوں نے اپنی قلمی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا؛ لیکن زیادہ دنوں تک وہ اس دشت کی سیاحی نہیں کر سکے اور بہت جلد اس سے تائب ہو کر اپنی ایک الگ راہ بنانے کی ٹھانی۔ اردو صحافت میں ان دنوں جس قسم کی کالا بازاری اور دلالی کازور ہے، اس میں کسی بھی جینوئن انسان کا رہنا واقعی بہت مشکل ہے،شاید اسی وجہ سے سلمان عبد الصمد سمیت بہتوں نے اس وادی کو خیرباد کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے بیشتر نے کلیتاً حرف و قلم سے رشتہ توڑ لیا ہے اور اب وہ اس کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے ہیں؛لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ سلمان نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا؛بلکہ اپنی راہ بدل دی اور بہت کم وقت میں ادبی دنیا میں اپنی شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

سلمان عبدالصمد مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپناقلمی سفرجاری رکھا ہے اور فکشن کے ذریعے معاشرہ کو جگانے اور بیدار کرنے کی مہم کا ساتھ دے رہے ہیں، ابھی حال ہی میں ان کی کتاب ’’لفظوں کا لہو ‘‘منظر عام پر آئی ہے، یہ ان کا ناول ہے، جو تقریباً 221 صفحات پر مشتمل ہے، یہ ناول صحافت اور اس کے پسِ پردہ میں ہونے والی گھٹیا حرکتوں اور صحافت کے نام پر جاری ریشہ دوانیوں کو طشت از بام کرتا ہے۔ اس ناول کے ذریعے جاہل، استحصال پسند اور نام نہاد صحافت کے علمبردار مدیران و مالکان کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہار اور اس کے گرد ونواح سے تعلق رکھنے والے کرداروں کے اردگرد کہانی گھومتی ہوئی بہار سے دلی اور پھر دلی سے سعودی عرب ہوتے ہوئے دوبارہ بہار پہنچتی ہے۔ لو سے لو جلاتے، چراغ سے چراغ روشن کرتے، حالات کی ستم ظریفیوں اور تھپیڑوں سے لڑتے، مار کھاتے اور طنز و طعنہ برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ لفظوں کے لہو کو بے ضمیری اور زرخریدی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے سے بچاتے ہوئے امید اور حوصلے کے پھریرے لہرانے میں یہ ناول کامیاب ہے۔

پوری کہانی بہار کے دیہات سے تعلق رکھنے والے محسن اور اس کی دو بیویوں نائلہ اور زنیرا، نائلہ کی سہیلی نیلا اوراس کے شوہر عبید کے ارد گرد گھومتی ہے۔ یوں تو اکمل، ڈاکٹر رستوگی، صوفیہ، تمیم اور شبنم کے علاوہ ثانیہ، پنڈت جی اور نورشیہ جیسے ذیلی کردار بھی کہانی کا حصہ ہیں؛ لیکن یہ لوگ ذرا سی جھلک دکھلا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اخیر تک محسن، اسکی دونوں بیویاں، نیلا اور عبید ہی باقی رہتے ہیں۔ سماج کو کچھ دینے، اسے بدلنے اور ایک نئی دنیاسے متعارف کرانے کا ان پانچوں کو شوق ہے۔ اس کے لئے وہ لوگ صحافت کی وادی کو چنتے ہیں لیکن اولین دنوں میں کامیابی نہیں ملتی۔ محسن دہلی کے ایک اخبار میں کام کرتا ہے؛ لیکن مدیران کے استحصالی رویہ اور کم تنخواہ سے عاجز آ کر ایک دن اخبار چھوڑ کرتلاش روزگار کے لیے سعودیہ چلا جاتا ہے، اس کی دونوں بیویاں دہلی میں ہی رہتی ہیں، ایک گھر بار دیکھتی ہے ،جبکہ دوسری ایک اسپتال میں نرس کی ملازمت شروع کر دیتی ہے، وہیں اس کی ملاقات نیلا نامی ایک غیر مسلم لڑکی سے ہوتی ہے ،جو اس کی سہیلی بن جاتی ہے، دونوں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتی ہیں، ایک دن نیلا بھی اسپتال چھوڑ دیتی ہے اور کہیں روپوش ہو جاتی ہے، کئی سال کے بعد جب وہ واپس لوٹتی ہے، تو صحافت کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکی ہوتی ہے، محسن بھی سعودیہ سے واپس آجاتا ہے اور یوں سب ملکر چراغ سے چراغ جلانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

ناول کا بیانیہ واجبی اور ٹھیک ٹھاک سا ہے، زبان و بیان کی بے شمارغلطیاں ہیں ،جو باذوق قاری کو الجھن میں ڈالتی ہیں، شروع کے تقریباً پچیس صفحات کی زبان تو بہت عمدہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ مصنف نے ان کو بہت توجہ اور یکسوئی کے ساتھ لکھا ہے؛ لیکن اس کے بعد سے کسی حساس قاری کو اسلوب کے رنگ بدلنے کا جو احساس ہوتا ہے، وہ تقریباً اخیر تک جاری رہتا ہے، شروع کے پچیس صفحات کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ لکھنے والے نے اس کو بہت ٹھوک بجا کر نگینے کی طرح بہت خوبصورتی سے سجایا ہے، مگر آگے کام کرنے کا غالباً موڈ نہیں بنا اور زبردستی بس خانہ پری کر دی ہے، پروف ریڈنگ کے علاوہ گرامر اور تراکیب کی بھی بہت سی غلطیاں ہیں، لگتا ہے مصنف کسی رو میں اس قدر بہتے چلے گئے کہ انھیں اس بات کا خیال ہی نہیں رہا کہ انہیں کیا اور کیسا لکھنا چاہیے اور کیا لکھ گئے ہیں؟ لکھنے کے بعد ناول پر شاید مزید کام نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ ایک بہترین ناول بنتے بنتے رہ گیا، اشاعت میں جلد بازی کا اظہار متعدد مقامات سے ہوتا ہے، جہاں خیالات کی تکرار کے ساتھ ساتھ کرداروں کی زبانی ہونے والی گفتگو یعنی مکالمہ اور ڈائلاگ بھی ملتے جلتے ہیں۔

ایک ہی بات کو بار بار گھما پھرا کر کہنے اور ایک جیسے الفاظ کو متعددمرتبہ نقل کرنے سے ناول کا فن متاثر ہوتا ہے، اسی طرح کتاب میں کثرت سے غیر ضروری انگریزی الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے ،حالانکہ ان کے خوبصورت اردو متبادل موجود ہیں، ذیل میں ایسے ہی کچھ الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

جوائن کرنا (ص93): اس کا خوبصورت اردو متبادل منسلک ہونایا وابستہ ہونا موجود ہے۔

جرنلسٹ (ص96): اس کا اردو متبادل صحافی یا صحیفہ نگار اردو میں مستعمل ہے۔

کمپرو مائز (ص112): اس کا اردو متبادل سمجھوتہ /صلح وغیرہ موجود ہے۔

آئڈیل (ص112): اس کامتبادل مثالی ہے۔

لنچ (ص167): دوپہر کا کھانا۔

ہسٹری (ص167): تاریخ۔

کوشچن (ص167): سوال۔

ڈسکس (ص167): بحث و مباحثہ، گفتگو، مکالمہ۔

انفارمیٹیو (ص167): معلوماتی۔

ڈیتھ (ص167): موت۔

اپ سیٹ (ص168): اداس / غمگین۔

سپوز (ص169): فرض کرنا۔

پرپوز (ص169): اظہار محبت کرنا۔

رفرنس (ص170): حوالہ۔

ریزلٹ (ص170): نتیجہ۔

فرسٹریٹڈ (ص172): ذہنی الجھن، خلجان یا پریشانی کا شکار ہونا وغیرہ۔

یہاں صرف چند الفاظ کی نشاندہی کی گئی ہے، ورنہ ناول نگار نے پورے ناول میں کثرت سے ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہے،میں یہ نہیں کہتا کہ انگریزی الفاظ کا اردو میں استعمال نہ کیا جائے؛ لیکن اردو متبادل کی موجودگی کے باوجود ایسے الفاظ کا استعمال ادب میں بے ادبی کی علامت ہے۔

کچھ بے محل الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں ،جن کی نشاندہی نہ کرنا زیادتی ہوگی، ناول نگار ایک جگہ لکھتے ہیں:

”ایام طفلی کی سرحد میں نے پار کر لی، اب جاکر کچھ خلاصہ ہوا کہ یوں ہوتا ہے خون شیریں ”۔(ص92)

یہاں لفظ ’’خلاصہ‘‘ انکشاف کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، جوار دو کے ساتھ سراسر ار زیادتی ہے، اس طرح اردو الفاظ کا قابل اعتراض استعمال ہندی داں کرتے ہیں ،جن کو الفاظ کے مادہ کا پتہ نہیں ہوتا یا پھر وہ ان کے استعمال کے طریقۂ کار سے واقف نہیں ہوتے، مدرسہ سے پڑھے ہوئے طالب علم سے کم از کم اتنی توقع تو رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اس قسم کی بھونڈی غلطی نہ کریں۔

ایک جگہ اور لکھتے ہیں:

”شرمیلی روشنی میں دونوں کے چہرے کا رواں رواں جاگ گیا تھا، ملگجی روشنی میں چہرے پر تازگی پھیلی ہوئی تھی۔” (ص117)

اب قاری تو اسٹوڈیو میں بیٹھا نہیں ہے کہ کارندہ نے سویچ فوراً آن سے آف اور آف سے آن کر دیا ہو کہ جس سے روشنی شرمیلی سے ملگجی ہو گئی، فنِ تحریر کی ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیاں بہت زیادہ ہیں۔

ایک جگہ نائلہ اپنی سہلی نیلا سے بات کر رہی ہے، اسے اپنی داستان سنا رہی ہے۔ (ص 138)

اس 21 سطر کی تحریر میں آٹھ جگہ” نیلا ”، ”نیلا ”پکارا گیا ہے، زنیرا اگر کہانی سنا رہی ہے تو ایک ہی جگہ نام لینا کافی تھا، اگر وہ توجہ نہیں دے رہی تھی تو اسے ٹہوکا لگایا جا سکتا تھا؛ لیکن اتنا زیادہ نیلا نیلا کر دیا کہ پورا صفحہ ہی نیلا ہو گیا۔

ناول میں جگہ جگہ ”پتہ نہیں کیوں اس کا جی نہیں لگ رہا تھا ”۔

”جانے کیوں آج وہ مغموم تھا” (ص76)

جیسے جملوں کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے جس سے لگتا ہے کہ مصنف کو خود بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، ان کے پاس صرف الفاظ کی ہی کمی نہیں ہے؛ بلکہ وہ تشکیک کا شکار ہیں۔ہندی الفاظ کا بھی کثرت سے استعمال کیا گیا ہے،جس سے گمان ہوتا ہے کہ کہیں اردو کے بجائے ہندی کا ناول تو زیرمطالعہ نہیں؟۔

گرماہٹ، بد بداہٹ، کہیں نہ کہیں، کھیا جانا، گرما دیا، مانو جیسے، بھومیکا وغیرہ جیسے الفاظ اگر کرداروں کی زبان سے ادا ہوں اور کردار بھی واقعتاً اسی لسانی مزاج کے ہوں، تب تو روا سمجھا جا سکتا ہے؛ لیکن پڑھا لکھا اور بہترین اردو جاننے والا اس طرح کے الفاظ استعمال کرے تو انھیں فصیح کہنے میں تامل ہوگا؛ کیونکہ اس ناول کا ہیرو محسن اچھا خاصا پڑھا لکھا اور بہترین اردو جاننے والا بندہ ہے ،جب وہ ایسی زبان استعمال کرتا ہے، تو طبیعت پر گراں گذرتی ہے،کتاب میں کئی جگہ ”لعل ” کو لال تحریر کیا گیا ہے۔

ناول میں گفتگو حال سے اچانک ماضی اور ماضی سے اچانک حال میں پہنچ جاتی ہے، جس سے قاری الجھن کا شکار ہو جاتا ہے کہ ابھی تو بات اِس کی ہو رہی تھی اب اُس کی بات کیسے شروع ہو گئی؟ بات چیت میں تو یہ انداز چلتا ہے؛ لیکن ظاہر ہے ناول میں یہ اندازقطعاً نامناسب ہوگا۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ ناول میں صرف غلطیاں ہی غلطیاں یا کمیاں ہی کمیاں ہیں؛ بلکہ ناول کی جو خصوصیت ہونی چاہئے ،وہ اس میں بدرجۂ اتم موجود ہے، کچھ جملے اور مکالمے اتنے خوبصورت ہیں کہ طبیعت خوش ہو جاتی ہے، مثلاً ایک جگہ مصنف لکھتا ہے:

”لفظوں کو غلام بنانے والے، عدالتوں کو اتنے ہی الفاظ دیتے ہیں، جن سے ان کے افکار و خیالات کی ترجمانی ہو سکے۔ لفظ کے ذخیرہ اندوز اسکرینوں پر ایسے لفظوں کی پھول کیاریاں لگاتے ہیں، جو انھیں دلکش مالا اور ہار دے سکیں۔ صحافت کے سینوں پر ان لفظوں کا ہی خون بہایا جاتا ہے، جن سے انسانیت لہو لہان ہو جائے، تہذیب زخم خوردہ اور تاریخ کی سرخیوں میں بد نمائی شامل ہو جائے”۔(ص8)

ناول کے بالکل اختتام پر نائلہ کی زبانی تقریر میں لکھا گیا ہے:

”دنیا میں دو بھوک بڑی خطرناکیوں کے ساتھ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ ایک پیٹ اور دوسری پیٹھ کی بھوک ہے۔ یعنی پیٹ اور جنس کی بھوک! ان دونوں بھوک سے ہی دنیا میں جرائم پنپ رہے ہیں، ان دونوں بھوک کی وجہ سے انسان، انسان کا لہو بہانے پر عار تک محسوس نہیں کرتا، ان دونوں بھوک کو مٹانے کے لئے ہی عدالت ہو کہ میڈیا گھرانے، لفظوں کا لہو بہایا جا تاہے، میری نگاہ میں ان دونوں بھوک کے علاوہ ایک اور بھوک ہے، وہ ہے رشتوں کی بھوک! آج انسان رشتوں کی بھوک میں مبتلا ہے۔”(ص223)

یہ اور اس قسم کے کئی دلچسپ اور متاثرکن جملے، استعارے اور خیالات بتاتے ہیں کہ سلمان عبد الصمد میں ایک اچھے فکشن نگارکی صلاحیت موجود ہے؛ لیکن اس کے لیے ریاضت شرط ہے، یہ نقشِ اول ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ نقشِ ثانی اس سے بہتر ہوگا، اس ناول کو دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی، لکھنؤ نے شائع کیا ہے۔ 800 کی تعداد میں شائع شدہ اس ناول کی قیمت 100 روپے ہے۔

تبصرے بند ہیں۔