لفٹ

سالک جمیل بڑار

وہ 26 جنوری کی ایک سردرات تھی۔ ٹھنڈی اورتیزہوائیں چل رہی تھیں۔ رات کے کوئی بارہ بجے تھے۔ پوراماحول اندھیرے کی سیاہ چادر میں لپٹاہواتھا۔ کہیں دورسے سناٹے کو چیرتی ہوئیں کتّوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایسے میں شہرکے باہر بائی پاس روڈ کے مین چوک میں ٹریفک انسپکٹر گربچن سنگھ اپنے دوساتھیوں سمیت سڑک کے دائیں طرف برگدکے پیڑ کے نیچے بیٹھے آگ کا مزہ لے رہے تھے۔ ہواکاایک تیزجھونکا آیااورانسپکٹربچن سنگھ کپکپا اٹھا۔ اسے ایسے محسوس ہواجیسے ہوااس کے جسم کے آرپار نکل گئی ہو۔

’’سالی……یہ سردی توجا ن لے کرہی رہے گی۔ ‘‘وہ بڑبڑایا۔

چندلمحوں بعدگربچن سنگھ اپنی مونچھوں کوبل دیتاہوااٹھ کھڑاہوا۔ اس نے اپنی توندسے نیچے ڈھلک رہی پتلون کواوپرکھینچا اورٹہلتا ہوا سڑک کے درمیان آگیا۔ اس نے اپنی پتلون کی جیب کوٹٹولا۔ جس میں صرف دوپچاس کے نوٹ تھے۔ اسٹریٹ لائٹوں کی دھندلی روشنی میں دورتک پھیلی سیاہ ناگ کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑک پر اس نے بے صبری سے دونوں طرف نظریں دوڑائیں۔ لیکن کچھ نظرنہ آیا۔

’’سالا……ساراشہرہی مرگیاہے کیا؟‘‘وہ ایک موٹی سی گالی دیتاہوابڑبڑایا۔

یومِ جمہوریہ کی وجہ سے آج اس کابہت مندارہا۔ بہت سخت چیکنگ تھی۔ شہر میں داخل ہونے والے ہروہیکل کی مکمل تلاشی لی جارہی تھی۔ کاغذات میں ذراسی بھی کمی پرفوراً چالان کیاجا رہا تھا۔ اس حالت میں اوپرکامال بننا بہت مشکل تھا۔ ڈیوٹی تواس کی ختم ہوچکی تھی۔ مگراب وہ کسی اچھّے سے شکارکی تلاش میں تھا جس سے دن بھرکی کمی کو پوراکیاجاسکے۔ ویسے بھی روزانہ بارہ بجے کے بعد گنپتی رولنگ سے پانچ چھ مال سے بھرے ٹرک نکلتے ہیں۔ گربچن کے سوروپے فی ٹرک بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے اصول کے مطابق اس روڈ سے گزرنے والے ہرٹرک کو چاہے اس میں ایک نمبر کا مال ہو یا دونمبر کاچاہے ٹرک اوورلوڈہویانہ ہو۔ بس اسے سوکانوٹ دیناہوگا۔ سوکانوٹ نہ دینے والے کوگربچن کاغصّہ بہت مہنگاپڑتا۔

انسپکٹرگربچن سنگھ نے اپنی ۲۵ سالہ ملازمت کا بیشتر حصّہ اسی شہر کی نذرکیاہے۔ گربچن کی پہنچ اوپرتک ہے۔ محکمہ کے سبھی بڑے افسروں سے اس کی جان پہچان ہے۔ کیوں کہ وہ ہمیشہ انھیں قیمتی تحائف پیش کرتارہتاہے۔ اس لیے اگرکوئی شکایت بھی کرتا ہے تواسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ کچھ ملتاہے توانسپکٹر گربچن سنگھ کی دشمنی۔

پچھلے سال کی ہی بات ہے۔ کوئی نیاٹرک ڈرائیور تھا۔ گربچن نے اسے روکنے کے لیے ہاتھ دیااورکاغذات دیکھنے شروع کردیے۔ کاغذات کے علاوہ ہرچیز مکمل تھی۔ اس نے اپناچائے پانی مانگاتوڈرائیور اکڑگیا۔

’’کس بات کا چائے پانی، کی کوئی کمی ہے توآپ چالان کرسکتے ہیں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے……توپھرچالان کاٹ دیتے ہیں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے ایک ڈنڈا ٹرک کی ہیڈ لائٹ پرجمادیا، جوچکناچورہوگئی اور گربچن اپنے ساتھیوں سمیت ہنس ہنس کرٹرک ڈرائیور کامذاق اڑانے لگا۔ ٹرک ڈرائیور آپے سے باہرہوگیااوراس نے گربچن کو گریبان سے پکڑ لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گربچن اوراس کے ساتھیوں نے مارمارکراُس کابراحال کردیااور پھر پولیس کی مدد سے اسے حوالات میں بندکردیاگیااورنشیلی چیزوں کی اسمگلنگ کرنے کاپرچہ درج کروا دیا۔ ایسے بے شمارقصّے گربچن کے نام سے مشہورہیں۔

گربچن کوکچھ سردی محسوس ہوئی۔ وہ دوبارہ آگ کے پاس آکربیٹھ گیا۔ اسی بیچ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اس نے اپنی جیب میں سے موبائل نکالااورنمبردیکھتے ہوئے حیران ہوکر کان سے لگایا۔

’’ہیلو……کیابات ہے دلجیت؟‘‘

’’جی……ماں جی دی…… طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے…آپ فوراً آجاؤ ……وہ بے ہوش پڑی ہیں اورآپ ہی کانام لیے جارہی ہیں۔ ‘‘

اس کی بیوی نے گھبرائی ہوئی آواز میں اُسے بتایا۔

’’دلجیت……تو……توڈاکٹرکوبلالے……ہاں، ہاں ……میں آرہا ہوں ‘‘۔ گربچن کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔

ایک دم گربچن کے دل کی دھڑکنیں تیزہوگئیں اوراس کے ہاتھ پیرکانپنے لگے تھے۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔ کہ وہ کیاکرے؟

’’اوئے حاکم!…… ماں دی طبیعت بہت خراب ہے یار……میں گھر جارہا ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے گربچن نے پاس ہی پڑالفافہ اٹھایا۔ جس میں ماں کی دوائیوں کے علاوہ کچھ پھل تھے اور پاس ہی کھڑی سفید رنگ کی بلٹ موٹر سائیکل پرسوارہوگیااوراسٹارٹ کرنے کے لیے کِک ماری لیکن وہ اسٹارٹ نہ ہوئی۔ شاید سردی کی وجہ سے ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ پھر مسلسل کئی ککیں مارنے کے بعد وہ پھٹ پھٹ کی آواز سے اسٹارٹ ہوگئی۔ اب گربچن سنگھ ہواسے باتیں کرتاہوا اپنے گھرکی طرف جارہا تھا۔

انسپکٹر گربچن سنگھ کاگاؤں اسی روڈپرواقع ہے۔ شہرسے کوئی دس بارہ کلومیٹر دورہوگا۔ اس کی ماں پچھلے پندرہ دنوں سے زندگی اور موت کے ساتھ لڑرہی تھی۔ گربچن کے والدکاانتقال اس کے بچپن میں ہی ہوگیاتھا۔ وہ اپنی ماں کی محنت کے صدقے ہی آج اس مقام تک پہنچ پایاتھا۔ وہ اپنی ماں سے بے پناہ محبت کرتاتھا۔ وہ من ہی من میں واہے گوروسے ماں کی خیریت کی دعامانگتا ہوا شہرکی حد سے باہرنکلاہی تھا کہ موٹر سائیکل سے کھڑکھڑکی آوازآئی اور وہ بندہوگئی۔ گربچن کک پر کک مارتارہا لیکن موٹرسائیکل اسٹارٹ نہ ہوئی۔ چاروں طرف گھپ اندھیراتھااورسائیں سائیں کی آوازیں آرہی تھیں۔ تھوڑے ہی فاصلے پرایک اسٹریٹ لائٹ جل رہی تھی۔ جوآندھی میں چراغ کا کام کررہی تھی۔ وہ موٹر سائیکل دھکیلتا ہوالائٹ کے نیچے چلاگیا۔ اس نے ایک سوکھی ہوئی کمزور سی شاخ کی مدد سے پیٹرول چیک کیا۔ ٹنکی آدھی سے زیادہ بھری ہوئی تھی۔ وہ اپنی ہرممکن کوشش کے بعد ہارگیاتھا۔ مگرموٹرسائیکل اسٹارٹ نہ ہوئی۔

اس نے ماں کی خیریت پوچھنے کے لیے موبائل نکالا۔ لیکن بدقسمتی سے اس کی چارجنگ ختم ہوگئی تھی۔ اب وہ بالکل بے یارو مددگار تھا۔ اس نے سوچا کہ شہرکی طرف واپس جایاجائے تاکہ کوئی مددمل سکے۔ اب وہ موٹرسائیکل دھکیلتاہوا شہرکی سرحدپرواقع چوک میں آچکاتھا۔ تھکاوٹ سے اس کے ماتھے پرپسینے کی ننھی ننھی بوندیں ابھرآئی تھیں۔ چوک کے تین راستے شہرکے اندرجاتے تھے اور چوتھامین روڈ تھا۔ اس نے موٹر سائیکل ایک طرف لگادی۔ اردگردکی دکانیں اور چائے کے ڈھابے سب بندتھے۔ دورسے بوڑھاچوکیدارسیٹی بجاکرلاٹھی زمین پرمارتا ہوا آرہاتھا۔ اب تووہ کسی سے لفٹ مانگ کر ہی گھر پہنچ سکتاتھا۔ کیونکہ کسی موٹرسائیکل مکینک کا ملنا اس وقت ناممکن تھا۔ وہ نڈھال ہوکرایک ہوٹل کے چبوترے پربیٹھ گیااوربجھی ہوئی انگیٹھی کوچھیڑنے لگا۔ وہ ماں کے ساتھ گذارے خوشگواریادوں کے سمندرمیں ڈوب گیا۔ اس کی آنکھوں سے دوموٹے موٹے آنسو نکلے اور داڑھی میں پیوست ہوگئے۔ اس کے دل میں خیال آیاکہ کہیں ماں اس کے پہنچنے سے پہلے مرنہ جائے۔ وہ جذباتی ہوکربڑبڑایا۔

’’نہیں نہیں ……ماں تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ ‘‘

وہ بے چین ہواٹھا اورچبوترے سے اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ انتظار کا ایک ایک لمحہ اس پربہت بھاری پڑرہاتھا۔ مسلسل پندرہ منٹ کے پہاڑجیسے انتظار کے بعد دائیں طرف سے اسے روشنی دکھائی دی۔ اس نے اندازہ لگالیا کہ شایدکوئی ٹرک ہے۔ اس کو تسلی ہوگئی۔ جب ٹرک اس کے قریب آگیا تو اس نے سڑک کے درمیان میں جاکرسیٹی بجائی اور ہاتھ دے کر موٹرسائیکل پرپڑالفافہ اٹھانے کے لیے بھاگا جس میں اس کی ماں کی دوائیوں کے علاوہ کچھ پھل تھے۔ ٹرک رک گیا۔ گربچن کے صبرکا باندھ ٹوٹ گیااوروہ جذبات کی رومیں بہہ گیا۔ ’’اب مجھے ماں سے ملنے سے دنیاکی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی…………کوئی بھی نہیں۔ ‘‘وہ من ہی من بڑبڑایا۔

جیسے ہی وہ ٹرک کی طرف لپکا ڈرائیورنے ٹرک کی کھڑکی سے ہاتھ باہرنکالا اور سوکا نوٹ ہوا میں اچھّال دیا۔ اس سے پہلے کہ گربچن کچھ بولتا یاکرتا ٹرک دھواں اڑاتا ہواآگے بڑھ گیا……!

تبصرے بند ہیں۔