محبت رسولﷺ کے بعض وسائل

سراج احمدبرکت اللہ فلاحی   

            موجودہ وقت میں عام مسلمان جو کتاب وسنت سے دور ہیں۔ اپنی عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کا پاس ولحاظ نہیں کرتے ہیں۔ اللہ کی پسند وناپسند اور رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ ان کے سامنے پیش کیا جائے تو اس پر عمل کرنے کے لئے پوری طرح آمادہ نہیں ہوتے ہیں، اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ان کے اندر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت نہیں رہی یا ان کے دلوں میں موجود محبت رسولﷺ اس درجہ قوی نہیں ہے کہ ا ن کو مکمل دین اسلام کا پابند بنا سکے۔ دین کی نشر واشاعت، دعوت وتبلیغ، اقامت دین اور غلبہ اسلام کے لئے وہ اپنے جان ومال قربان کرسکیں۔ آج ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں محبت رسول ﷺ کا جذبہ زیا دہ سے زیادہ پیدا کیا جائے۔ اسی تناظر میں ذیل کی تحر یر پیش خدمت ہے۔ اہل ایمان کے دلوں میں محبت رسول ﷺ کا جذبہ پیدا کرنے، اسے زیادہ سے سے زیادہ بڑھانے، قوی اور موثر بنانے کے لئے درجہ ذیل وسائل کو اختیار کیا جاسکتاہے۔

1۔ محبت رسولﷺ کی اہمیت وضرورت :       اہل ایمان کے سامنے بار بار اس حقیقت کو بیان کیا جائے کہ محبت رسولﷺ ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ اس کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ محبت رسولﷺ ہی دراصل ہمارے ایمان کی ایک بڑی علامت ہے۔ حدیث رسولﷺ ہے : عَنْ أَ نَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ :’’ لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ‘‘۔ (مسلم کتاب الایمان، باب وجوب محبۃ رسول اللہﷺ)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا :کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے باپ، اپنی اولاد اور سارے لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرنے لگے۔

            نبی اکرمﷺ سے محبت کرنا اس لئے واجب کردیا گیا ہے کہ اس کے بغیر آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ نبیﷺ سے محبت نہ ہو تو ان کے نقش قدم کی پیروی آخر کیسے ممکن ہوسکتی ہے ؟ یہ محبت نبی ﷺکے مقام ومرتبہ کی وجہ سے بھی ہے۔ آپ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور ہم ان کے امتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نبیﷺ کی ذات ہماری اپنی جان سے زیادہ عزیز ہونا چاہئے۔ سورہ احزاب میں ہے:النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنفُسِہِمْ(الاحزاب:۶) ’’ نبی (ﷺ)کی ذات اہل ایمان کے لئے ان کی جانوں سے بھی مقد م ہے۔

            نبیﷺ سے محبت دنیا کی ساری چیزوں، تمام محبتوں اور جملہ علائق سے بڑھ کر ہونی چاہئے اور مطلوب یہ ہے کہ پوری خوشی اور دل کی آمادگی کے ساتھ یہ محبت کی جائے اور کیفیت یہ ہو کہ اتباع رسول ﷺمیں آدمی کو خوشی محسوس ہو اور مزہ آئے۔ یہی ایمان کی حقیقی لذت ہے۔ حدیث میں ہے :’’ایمان کا مزہ اس آدمی نے چکھا جو اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہوا ‘‘۔ (مسلم، کتاب الایمان)

2۔ تعلق باللہ:          ظاہر ہے کہ رسولﷺ سے محبت اسی لئے کی جاتی ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو اپناآخر ی رسول منتخب فرمایا اور آپﷺ کو اپنا محبوب قرار دیا۔ اللہ ہی ہمارا خالق ومالک ہے۔ ہمارا دین اسلام اسی کا پسندیدہ اور نازل کردہ دین ہے۔ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں۔ ہمارے لیے لازم  ہے کہ اللہ سے ہمارا رشتہ مضبوط ہو۔ اس کے احکام پر عمل آوری کے ذریعہ اور اس کے دین کی اشاعت واقامت کرکے، اس کے نبیﷺ کی سنت اور شریعت کو نافذ کرکے، تلاوت قرآن مجید، نماز، روزے اور دیگر عبادات بالخصوص دعائوں کے ذریعہ اللہ سے تعلق مضبوط کیاجائے۔ جب اللہ سے تعلق ہوگاتو اس کے محبوبﷺ کے لئے دل میں خود ہی محبت پیدا ہوجائے گی۔ اللہ کی محبت کے لئے ضروری ہے کہ رسول ﷺ کی اتباع کی جائے اور رسولﷺ کی اتباع کے لئے ضروری ہے کہ رسول ﷺ سے محبت کی جائے۔ غرض یہ کہ تعلق باللہ بھی محبت رسولﷺ کا ایک ذریعہ ہے اور اس سے محبت رسول ﷺمیں اضافہ ہوتاہے۔

3۔ خصائص نبوی کا علم:    قرآن وحدیث میں نبی اکرمﷺکے بہت سے خصائص اور امتیازی خوبیوں کا بیان ہے، امت کے سامنے اسے بیان کیا جائے۔ جب لوگوں کو آپ ﷺکے خصائص کا علم ہوگاتو خود ہی نبی کی عظمت اور قدر ومنزلت کا احساس ان کے اندر بیدار ہوگا۔ اس سے ان کے دلوں میں نبی ﷺکے لئے محبت اور احترام کا جذبہ پیدا ہوگا۔ فطرت ہے کہ آدمی جب کسی دوسرے سے محبت کرتاہے تو کسی صفت کی وجہ سے کرتاہے۔ وہ دیکھتاہے کہ فلاں کے اندر یہ اور یہ خوبی ہے اور پھر اس سے وہ محبت کرنے لگتا ہے۔ جب رسول اکرم ﷺ کے خصائص سے عوام الناس کو واقف کرایا جائے گا تو ان کے اندر خود بخود محبت رسول ﷺ کا جذبہ پیدا ہوگا، پروان چڑھے گا اور وہ دین پرعمل کرنے کو تیار ہوں گے۔ محدثین نے کتب احادیث میں آپ ﷺ کے خصائص کو جمع کردیا ہے۔ بالخصوص سیرت نگاروں نے خصائص نبوی ﷺ کو تفصیل سے بیا ن کیا ہے۔ قاضی محمد سلیمان منصور پوری نے اپنی مشہور کتاب رحمۃ اللعالمین جلد سوم صفحہ 13 تا 240؍ میں بہت تفصیل سے خصائص نبوی پر روشنی ڈالی ہے۔ 50؍ سے زائد خصوصیا ت نبوی، متعدد معجزات اور نبی ﷺکے ہاتھوں صادر ہونے والے بعض برکات اور حیرت انگیز واقعات کا بخوبی تذکرہ کیاہے۔ اس کا تفصیل سے مطالعہ کیا جائے اور عوام الناس کے سامنے اچھے اور مرتب انداز سے پیش کیا جائے تو کافی مفید اوربہت مؤثرہوگا۔ آپﷺ بہت سی خوبیوں اور خصائص کے مالک ہیں اورآپ ﷺ افضل الخلائق ہیں۔ دیگر انبیا ء علیہم السلام جو اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں ان کے مقابلہ میں بھی آپﷺ کو بعض چیزوں میں فضیلت حاصل ہے۔ مسلم شریف کی حدیث ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا :مجھے دوسرے انبیا ء کے مقابلہ میں چھ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ ۱۔ مجھے جوامع الکلم دیے گئے۔ ۲۔ دشمن پر رعب ڈال کر میر ی مدد کی گئی۔ ۳۔ میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیا۔ ۴۔ ساری زمین میرے لئے پاک اور پاکی حاصل کرنے کے لائق اور نماز ادا کرنے کے قابل بنا دی گئی ہے۔ ۵۔ مجھے ساری مخلوقات کی طرف رسول بناکر بھیجا گیاہے  ۶۔ اور میری نبوت پر نبیوں کا سلسلہ تمام کر دیا گیا ہے۔ (مسلم، کتاب المساجد )

4۔ امت پر آپ ﷺ کے احسانا ت کا علم :            آپ ﷺ رحمۃ اللعالمین ہیں۔ امت مسلمہ ہی نہیں پوری دنیا والوں کے لئے آ پﷺ کی تعلیمات رحمت ہی رحمت ہیں۔ کسی تفریق کے بغیر جملہ انسانیت پر آپ ﷺکے احسانات ہیں۔ بالخصوص اہل ایمان کے لئے آپ ﷺ کی نبوت سراپارحمت ہی رحمت ہے۔ امت محمدیہ پر آ پ ﷺ کے عظیم احسانات ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے :لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْنٍ(آل عمران:164) اہل ایمان پر اللہ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے خود ان کے درمیان سے ایک نبی مبعوث فرمایا۔ جوانہیں اللہ کی آیات واحکام پڑھ پڑھ کر سناتاہے، ان کو شرک وکفر کی آلائشوں سے پاک کرتاہے اور انہیں کتاب وحکمت کی باتیں سکھاتاہے۔ بلاشبہ اس سے پہلے وہ لوگ بڑی گمرہی میں بھٹک رہے تھے۔

            معلوم ہوا کہ نبوت محمدی انسانیت کے لیے ایک رحمت ہے جو دراصل رحمت الہی کا عظیم مظہر ہے۔ اس سے پہلے لوگ شرک و کفر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اپنے خالق ومالک کی معرفت سے بالکل لا علم تھے۔ ظلم وجبر، ناانصافی، قتل وخون، لوٹ گھسوٹ اور ہر طرح کی برائی عام تھی۔ جس سے ان کی زندگی اجیرن بنی ہوئی تھی۔ دین کے معاملات میں وہ خود ساختہ شریعت، جھوٹے عبادات، غیر فطری حلال وحرام کی پابندیوں اوربے سند نذرونیاز کے تلے دبے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ آئے اور اللہ کا دین ٹھیک ٹھیک اللہ کے بندوں تک پہونچایا۔ دنیا کی ہزاروں غلامی سے نکال کر بندوں کو صرف ایک اللہ کی غلامی کا درس دیا۔

            آپﷺ نے جان ومال کی قربانی دی، دشمنان دین سے معرکہ آرائی کی اور تاحیات مسلسل جہاد کرتے رہے۔ صحابہؓ کی ایک ایسی جانثار جماعت تیار کی جو دعوت وجہاد کرتے ہوئے دنیا کے کونے کونے تک پہونچے۔ آپ ﷺ نے مدینہ اور اس کے آس پاس کے خطے میں ایک اسلامی حکومت قائم کی۔ غرض کہ آپﷺ نے اپنی زندگی اللہ کے احکام کتاب الہی کا مکمل عملی نمونہ امت کے سامنے پیش کردیا۔ آپﷺ کی سیرت طیبہ میں سماج کے ہر طبقہ کے لئے اسوۂ حسنہ موجود ہے۔ آ پﷺ کی خاص دعاسے امت پر سے اوپر اور نیچے کا دونوں عذاب اٹھالیا گیا۔ آپﷺ کی دعا سے امت محمدیہ کے افراد کی مدت حیات میں برکت دی گئی کہ کم اعمال کا زیادہ ثواب طے کیا گیا۔ آپﷺ کی شفاعت سے روز محشر حساب وکتاب کا آغاز ہوگا۔ آپﷺ ہی کی شفاعت سے جملہ اہل ایمان کو عذاب جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ آپﷺ نے استطاعت سے بڑھ عبادت میں محنت اور مشقت کرنے سے لوگوں کو منع کیا۔ رمضان المبار ک میں صرف تین روز نماز تراویح باجماعت ادا فرمائی تاکہ امت پر فرض نہ ہوجائے۔ امت کی سہولت کے لئے دوران سفر قصر نماز ادا کرنے اور دو نمازیں جمع کرنے کی رخصت دی، دوران سفر روزہ چھوڑنے کی رخصت عطا فرمائی۔ امت کی سہولت کے لئے آپ ﷺنے اللہ سے قرآن مجید سات قراتوں یا لہجوں میں پڑھنے کی اجازت حاصل کی۔ پانی نہ ملنے کی صوت میں مٹی سے وضو اور غسل کرنے کی اجازت دی، خواہ اس کی مدت کئی سال ہو۔ آپﷺ نے امت کی سہولت کے لئے ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم نہیں دیا۔ عشاء کی نماز شروع وقت میں ادا کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ ان تفصیلات کو امت کے سامنے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

            امت پر آپﷺ کے احسان کا ایک عظیم مظہر معراج کے موقع پر آپ ﷺکی شفاعت ہے، آپﷺ نے بار بار اللہ سے درخواست کرکے 45؍ نمازیں معاف کروائیں۔ امت پر 50؍ کے بجائے صرف 5؍ وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ مسلم کی ایک حدیث میں ہے :ایک بار نبی ﷺ نے کہا: اے اللہ میری امت !اے اللہ میری امت!اور رونے لگے۔ آپ ﷺ روتے رہے اور امت کی مغفرت کے لئے دعا کرتے رہے۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کو آپ ﷺ کے پاس بھیجا کہ پوچھو کیا سبب ہے؟ جبرئیل ؑنے جب واپس جا کر خبر دی تو اللہ عزوجل نے فرمایا: اے جبرئیل! محمد(ﷺ) کے پاس جائو اور کہدو :’’ ہم تمہیں تمہاری امت کے بارے میں خوش کردیں گے اور آپ ﷺ کو ناراض نہیں کریں گے۔ (مسلم کتاب الایمان باب دعا النبی ﷺ لامتہ)

            اس حدیث سے معلوم ہو اکہ امت کی مغفرت کے لئے آپ ﷺ کس درجہ پریشان رہا کرتے تھے اور رو رو کرامت کی مغفرت کے لیے دعائیں کرتے رہتے تھے۔ دو مستحب کاموں میں ہمیشہ آسان کاموں کا اختیار کرنے کی سنت آپﷺ نے جاری کی۔ آپﷺ کے احسانات بہت ہیں، تفصیل کتب حدیث وسیر ت میں موجود ہے۔ آپﷺ کی صرف ایک بات اس حوالہ سے کافی ہے کہ ہر نبی کو اللہ کی طرف سے ایک موقعہ دیا گیا، تمہیں اختیار ہے کوئی بھی دعا کرو اللہ کی طرف سے قبول کرلی جائے گی۔ انبیا نے وہ دعا کی اور دنیا میں اسے حاصل کرلیا لیکن نبی ﷺ کہتے ہیں کہ میں نے اس دعا کو محفوظ کر رکھاہے۔ قیامت کے روز میں شفاعت کروں گااور میر ی شفاعت ان تما م لوگوں کے لئے قبول ہوگی جو اہل ایمان ہیں۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات الشفاعۃ واخراج الموحد من النار )

5۔ نبی کے اصل کارنامہ سے واقفیت ـ:          نبیﷺ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے سب سے بگڑی قوم کو جو حیوان بن چکی تھی اس کو انسان بنایا، جو ہر وقت قتل وخون پر آمادہ رتے تھے، ان کے اندر الفت ومحبت پیدا فرمادی۔ جو سینکڑوں دیوی دیوتائوں کی غلامی میں بندھے ہوئے تھے ان کو ایک اللہ کا سچا عبادت گذار بنادیا۔ جو قبائلی زندگی بسر کرتے تھے، ان کو ایک منظم ریا ست کا تابع فرمان بنایا۔ جو شتر بے مہار زندگی گذار رہے تھے، ان کواعلیٰ اخلاق وآداب کا پابند بنادیا۔ حلال وحرام کی تمیز سکھائی، غرض کہ 23؍ سال کی مختصر مدت میں لاکھوں انسانوں کے ذہن ودماغ کو بدل دیا۔ ان کے نہاں خانہ دل کی اصلاح فرمائی۔ ان کو شرک وکفر کے تمام آلائشوں سے پاک وصاف کیا، ان کو حکمت ودانائی کی تعلیم دی۔ بکریاں چرانے والوں کو بڑے بڑے ملکوں اور ریا ستوں کا انتظام وانصرام سنبھالنے کے قابل بنا دیا۔ آپ ﷺنے جو تعلیم اور اخلاقی اصول بیان فرمائے اسے عملی طور پر برت کر دنیا کے سامنے دکھایا۔ آپﷺنے ایک فطری، عملی اور کامیاب دین یا نظام حیات پیش کیاجو صدیوں تک دنیا کے ایک بڑے خطہ پر غالب اور نافذ رہا۔ وہ آج بھی اس قابل ہے کہ اسے دنیا میں نافذ کیا جاسکے بلکہ آج کی سسکتی اور بلکتی انسانیت اسی کی محتاج ہے اوراسی میں ساری دنیا والوں کی بھلائی مضمر ہے۔

            علامہ سید سلیمان ندویؒ نبوت کا کار نامہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :’’عرب میں سرتاپا روحانی واخلاقی انقلاب پیدا کردینا، تمام عالم کے سامنے کامل ترین اور اخیر شریعت پیش کرنا، دنیا کے گوشہ گوشہ کو ترانۂ توحید اور سرور ومحبت سے معمور کرنا، ظلمت کدۂ عالم کو سراج منیر بن کر بقعہ نور بنا دینا، گمراہوں کو راستہ بتانا، بھولوں کو یاد دلانا، بندوں کا رشتہ خدا سے جوڑنا، غلط اوہام کو مٹانا، اخلاق سکھانا، گناہوں کے دفتر کو دھونا، انسانوں کو شیطان کے دام فریب سے نکال کر فرشتوں کی صف میں کھڑا کرنا، دنیا کو رفق و محبت، لطف وشفقت اور برادرانہ مساوات کی تعلیم دینا، حکمت و دانائی، پندو موعظت اور تہذیب وتمدن کے رموز سکھانا، روحانیت کی برباد شدہ دنیا کی دوبارہ تعمیر اور قلوب وارواح کے ویران گھروں کی ازسر نو آبادی، الغرض خاتم النبینﷺ کا اصلی کام ایک شریعت ابدی کی تاسیس، مذاہب عالم کی اصلاح، فن اخلاق کی علمی وعملی تکمیل، قانون الہی کا اظہار وعرض اور تہذیب نفوس کی معراج اخیر تھی ‘‘۔ (سیرۃ النبی ج 4 ص 2 تا 3)

             نبیﷺ کی ذات کسی عبقری شخصیت یا فاتح عالم کی سی نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ دنیا کے سب سے عظیم انسان ہیں۔ عظمت کا راز یہ ہے کہ 23؍ سال کی قلیل مدت میں علاقے اور ممالک نہیں لاکھوں انسانوں کے دلوں کو جیت لیا۔ کسی جبر واکراہ کے بغیر وہ دین اسلام میں داخل ہوئے۔ کسی سزا یا قانون کے خوف کے بغیر بخوشی آپﷺ کے پیش کردہ اصول حیا ت کو عملی جامہ پہنایا۔ دن ورات، خلوت وجلوت، عام سڑک پر یا گھر کے اندر کی تفریق کے بغیر دین کی ساری تعلیمات پر عمل کیا۔ حتی کہ جرم کے مرتکب ہوجانے کی صورت میں مجرم خود دربار رسول ﷺ میں حاضر ہوتا اورسزا کے نفاذ کا مطالبہ کیاکرتا تھا۔ یہ ہے انسانوں کے اعمال واخلاق کی اصلاح اور ان کے دلوں کا ذہن ودماغ کا وہ انقلاب جس کی مثال پیش کرنے سے پوری تاریخ انسانی آج بھی قاصر ہے۔

6۔ درودو سلام کی کثر ت :              درود وسلام بھی محبت رسولﷺ کا ایک شرعی اظہار اور اس میں اضافہ کا ذریعہ ہے۔ قرآن میں اللہ کا حکم ہے کہ :’’إِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْماً(سورۃ الاحزاب: 56)  اللہ رب العزت اور فرشتے بھی نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں اس لیے مسلمانون کو حکم ہے کہ اے مومنو !نبی پرخوب خوب درود بھیجو۔ اس کی بڑی فضیلتیں ہیں۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتاہے اللہ اس پر دس رحمتیں ناز ل فرمائیگا، اس کے دس گناہ معاف فرمائے گا، اور دس درجہ بلند فرمائے گا۔ ( سنن نسائی، جزء اول، حدیث :۱۲۳۰) بکثرت درود پڑھنے سے آپﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی۔ درود گناہوں کی مغفرت اور تمام دنیا وی دکھو ں اور مصائب وآلام سے نجات کا ذریعہ ہے۔ درودبھیجنے والے پر فرشتے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ درود نہ بھیجنا موجب ہلاکت ہے، جنت سے محرومی کا باعث ہے، دعائوں کے رد ہوجانے کا سبب ہے۔ ان نصوص سے ظاہر ہے کہ درود وسلام کا بھیجنا محبت رسو ل ﷺکی علامت ہے اور اس کی کثرت محبت رسولﷺ میں اضافہ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

7۔ آپ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ:         نبی اکرم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ اہل ایمان کے لئے کئی پہلوئوں سے اہم اور مفید ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں محبت رسولﷺ میں اضافہ ہوگا۔ مطالعہ کی صورت میں جوں جوں معلومات میں اضافہ ہوگا، آ پﷺ کے بلند اخلاق وکردار، آ پﷺ کی عبادت وریا ضت، توبہ واستغفار، عام انسانوں کے ساتھ عدل وانصاف کے معاملات، قاتلوں اور دشمنوں کے ساتھ عفو ودرگذر کی سنت، اہل خانہ کے ساتھ رفق و نرمی، بچوں کے ساتھ شفقت، بڑوں کا احترام، لین دین اور معاملات میں صفائی، نوکر اور خادموں کے ساتھ اچھا سلوک وغیرہ کا تذکر ہ جب کتب سیرت میں مسلمان پڑھیں گے یا علماء سے سنیں گے تو ان کے دلوں میں محبت رسولﷺ پیدا ہوگی اور وہ اس بات کے لیے آمادہ ہوں گے کہ اسوہ ٔرسولﷺ پر عمل پیرا ہوں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ دینی محفلوں میں درس قرآن، درس حدیث یا دینی احکام و مسائل کے بیان کے ساتھ سیرت رسولﷺ کو بھی بالخصوص موضوعِ گفتگو بنایا جائے۔ سیرت رسولﷺ پر جب بھی گفتگو ہو تو تطبیقی پہلو کو ہمیشہ مدنظر رکھا جائے۔ واقعات رسولﷺ کے ساتھ اس کی عملی تطبیق اور استنباط بھی عوام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ سیرت رسولﷺ کی عصری معنویت سے بھی عوام واقف ہوں اور اس کے عملی تقاضے پورا کر سکیں۔

7۔ احادیث نبوی ﷺ کا مطالعہ :         آ پﷺ کے ذریعہ پیش کردہ شریعت اسلامی مکمل نظام حیا ت ہے۔ اس حقیقت کا بخوبی علم اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ احادیث نبویہ کا تفصیل سے مطالعہ نہ کیا جائے۔ احادیث کے مطالعہ سے جب ہمیں اس با ت کا علم ہوتاہے کہ واقعی اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ زندگی کے جملہ شعبہ ہائے جات کے لئے ان کے اندر مکمل رہنمائی موجود ہے۔ طہارت اور نماز سے لے کر ایک مکمل اسلامی ریا ست کی تمام ضروری تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ انسان کی پیدائش بلکہ نطفہ کے استقرار سے لے کر موت اور موت کے بعد تجہیز وتکفین اور تقسیم وراثت تک سارے احکام احادیث میں بیان کردئے گئے ہیں۔ غرض انسان کی ضرورت کی تمام ہدایات اور احکام ومسائل کو نبی ﷺ نے صاف صاف بیان کردیاہے۔ جب احادیث نبویہ کے مطالعہ سے قاری کو اس کا علم ہوتاہے تو خودبخود اس کے دل میں نبیﷺ کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے اور بار بار احادیث کا مطالعہ کرنے سے محبت میں اضافہ ہوتاہے۔

9۔ مشن رسالت سے عملی وابستگی:  آپ ﷺ کی نبوت ورسالت کے ساتھ ہی رسالت کا سلسلہ ختم ہوا۔ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے، حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کرنے اور شرک وکفر کے تمام دلائل کا ردوابطال کے لئے اب کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے امتی ہونے کے ناطے امت محمدیہ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ آ پ ﷺ کے مشن کی حفاظت کرے۔ دین کی تبلیغ واشاعت اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عظیم فریضہ انجام دے۔ دین کو قائم اور غالب کرنے کے لئے اپنے جان ومال سے ویسے ہی جہاد کرے جیساکہ نبی ﷺ پوری زندگی کرتے رہے۔ اہل ایمان سے ایمان بالرسالت کا یہی سب سے پہلا عملی مطلوبہ اور تقاضا ہے۔ وفات نبوی کے بعد آج یہی حقیقتاََ دین کی سب سے بڑی نصرت ہے۔ ہم مشن رسالت سے عملی طورپر وابستہ ہوکر دین کی نشرواشاعت میں اپنے قول وقلم اور جان و مال سے جد وجہد کرتے رہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے تمام حاضر صحابہؓ کو دعوت دین کی عام ذمہ داری دی ہے۔ ظاہر ہے جب ہم عملی طور پر آ پ ﷺ کے مشن سے وابستہ ہوں گے تو محبت رسولﷺ میں اضافہ ہوگا۔ اس میدان میں بار بار سیرت کا تذکرہ ہوگا، احادیث کا مطالعہ ہوگا، نبیﷺ کی سنت پر گفتگو ہوگی، اور آپﷺ کی لائی ہوئی شریعت کو قابل عمل ثابت کیا جائے گا۔ غرض جس کی سرگرمیاں دن رات اسی مشن سے متعلق ہوں، اس کے دل میں محبت رسولﷺ بڑھتاہی جائے گا۔ اس میدان میں داعی کو آج بھی بعینہ بہت سے ان ہی مسائل ومراحل سے سابقہ پڑے گا جس کو وہ سیر ت رسولﷺ میں پڑھ اور سن چکاہو گا۔ اس سے نبی ﷺ کی یاد تازہ ہوگی، عملی طور پر رہنمائی ملے گی اور محبت رسولﷺ میں واقعی دوچند اضافہ ہوگا۔

            قرآن وحدیث کی روشنی میں محبت رسولﷺ میں اضافہ کے یہ بعض وسائل بیان کیے گیے ہیں۔ ان درج بالا نکات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عوام الناس سے خطاب کیا جائے، دینی اجتماعات اور خطاب عام کی محفلوں میں اسی تناظر میں گفتگو پیش کی جائے اور دینی رسائل وجرائد اور مجلات میں اس پہلو کو سامنے رکھ کر مضامین تحریر کیے جائیں تو امید ہے کہ امت محمدیہ کے اندر واقعی محبت رسولﷺ پیدا ہوگا، ان کے دلوں میں موجود محبت رسولﷺ میں اضافہ ہوگا اور وہ قرآن وسنت میں مذکور احکام پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

تبصرے بند ہیں۔