لوح و قلم تیرے ہیں

بسم اﷲالرحمن الرحیم

قلم کاروان ،اسلام آباد

مجلس مشاورت : سیدعلی گیلانی حوالہ:ڈاکٹرساجدخاکوانی

پروفیسر آفتاب حیات

کاروائی ہفت روزہ ادبی نشست،منگل25اکتوبر2016

منگل مورخہ25اکتوبر2016ء بعد نماز مغرب قلم کاروان کی ادبی نشست المرکزہوٹل اسلام آبادمیںمنعقد ہوئی۔معروف ادیب دانشوراور کالم نویس جناب سلطان محمودشاہین نے صدارت کی۔تلاوت اور حدیث نبوی ﷺکے بعدڈاکٹرساجدخاکوانی نے گزشتہ نشست کی کاروائی پیش کی۔پروگرام کے مطابق جناب ڈاکٹرعطاء اﷲخان کامضمون’’سورۃ کھف کامطالعہ حالات حاضرہ کی روشنی میں‘‘پیش ہوناطے تھا۔
صدر مجلس کی اجازت سے مضمون پیش کیاگیا،مضمون میں سورہ کھف کی آیات کامطالعہ کرتے ہوئے ان کی روشنی میں حالات حاضرہ کاجائزہ پیش کیاگیاتھا،مضمون کی تیاری میں متعدد کتب سے استفادہ کیاگیاتھاجن کی تفصیل صاحب مقالہ نے آخر میں بتائی۔گفتگوکاآغاز کرتے ہوئے ڈاکٹرساجد خاکوانی نے کہاکہ مضمون میں قرآن مجید کی سورہ کھف کی روشنی میں مستقبل بینی کی گئی ہے ،ڈاکٹرساجد خاکوانی نے کہاکہ مضمون میں قرآن و حدیث کی پیشین گوئیوں کے مطابق حالات کی درست تصویرکشی کی گئی ہے۔انجینئرمجاہد حسین نے کہاکہ امت مسلمہ کا بنیادی مسئلہ بے عملی ہے،جب تک بے عملی ختم نہیں ہوگی اس وقت تک امت مسلہ کے سپوت اس دنیامیں کوئی قابل قدر کارنامہ سرانجام نہیں دے سکیں گے،انجینئر مجاہد حسین نے کہامضمون اگرچہ تفصیلی ہے لیکن سورہ کھف کے بعض بہت اہم پہلوپر تبصرہ ہونے سے رہ گیاہے،انہوں نے بعض امور کی نشاندہی بھی کی۔فاضل مقالہ نگار نے وضاحت پیش کی کہ وقت کی تنگ دامانی آڑے نہ ہوتی تو ان امور کوبھی تحریر میں سمویا جاسکتاتھا،فاضل مقالہ نگار جناب ڈاکٹر عطاء اﷲخان نے کہاکہ سورہ کھف کی اہمیت اس سے بھی واضع ہوتی ہے کہ مولانا ابوالکلام آزادنے سورہ کھف کی ایک تفسیری کتاب بھی تحریرکی ہے۔پیش کیے گئے مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب حبیب الرحمن چترالی نے کہاکہ فی زمانہ آسمانی مذاہب کے مقابلے میں زمینی مذاہب کولایاجارہا ہے ،انہوں نے سیکولرازم،لبرل ازم اور نام نہاد مذہب انسانیت کابھی ذکرکیا،انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایاکہ کس طرح آسمانی تعلیمات کو مستعارلے کر زمینی انسانی ساختہ مذاہب سے جوڑ کرانہیں انسانوں سے منسوب کرکے عقل کی پیداوارقراردیاجارہاہے اور عقل کو ہی خدامانا جارہاہے۔جناب اعجازجعفری نے مضمون کو پسند کیااوراس کے مندرجات سے اتفاق کیا۔
آخرمیں صدر مجلس جناب سلطان محمود شاہین نے کہاکہ مضمون بہت محنت اور عرق ریزی سے لکھاگیاہے اور قرآن مجید کو زمینی حقائق سے جوڑ کر وقت کے تقاضوں کے عین مطابق آفاقی راہنمائی کشید کی گئی ہے۔جناب صدر نے مضمون کے مندرجات کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ آسمانی صحیفوںکی پیشین گوئیوں میں استعارات استعمال کیے جاتے ہیں تب ان استعارات کی تفہیم اور حالات حاضرہ پران کااطلاق ہی رازداری سے پردے ہٹاتاہے۔انہوں نے اپنے اس موقف کے حق میںا ٓسمانی کتب سے استعارات کی متعدد مثالیں بھی پیش کیںاور ان کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان استعارات سے حالات حاضرہ کے فلاں فلاں حقائق مراد لیے گئے ہیں۔صدارتی خطبے کے بعدہی نشست کے اختتام کااعلان کردیاگیا۔

تبصرے بند ہیں۔