لوح و قلم تیرے ہیں

 منگل مورخہ3جنوری 2017ء بعد نماز مغرب قلم کاروان کی ادبی نشست المرکزہوٹل G7اسلام آبادمیں منعقد ہوئی۔ماہر ذہنیات جناب ڈاکٹرفیصل نے صدارت کی۔پروگرام کے مطابق آج کی نشست میں  ڈاکٹرساجد خاکوانی کامضمون’’آمدسال نو‘‘اور ڈاکٹر مرتضی مغل کامضمون’’آرزوہے تجھے دیکھاکروں ‘‘پیش کرناطے تھے۔تلاوت کے بعد جناب اسرائیل الخیری نے مطالعہ حدیث پیش کیااور سابقہ نشست کی کاروائی بھی پڑھ کرسنائی۔آج کاپروگرام فکرفردافورم اور قلم کاروان کی مشترکہ کاوش  کے طورپر منعقدہورہاتھا۔

                صدر مجلس کی اجازت سے دونوں  مضامین پیش کیے گئے،’’آمدسال نو‘‘میں  نئے عیسوی سال کے آغاز کے بارے میں کچھ حقائق درج تھے جب کہ ’’آرزوہے تجھے دیکھاکروں ‘‘میں معرفت حقیقی کاحصول یعنی ذات باری تعالی سے ملاقات کااشتیاق ظاہر کیاگیاتھا۔اسرائیل الخیری نے ڈاکٹر ساجد خاکوانی کے مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ مدت غلامی تو ایک سو سال بنتی ہے تو یہاں  تین سوسالوں  کاذکر کیوں  کیاگیا،ڈاکٹرساجد خاکوانی نے کہا کل امت پر دورغلامی کم و بیش تین سوسال بنتاہے۔حبیب الرحمن چترالی نے کہا کہ عیسوی کیلنڈرکواسلامی کیلنڈرکہنادرست نہیں  کیونکہ اس کا آغاز وفات مسیح علیہ السلام سے ہوتاہے جب کہ قرآن مجید میں  رفع مسیح علیہ السلام کاذکر ہے۔ڈاکٹرآفتاب حیات نے دونوں  مضامین کوپسند کیا۔توقیرحسن سپرانے ڈاکٹرمرتضی مغل سے سوال کیاکہ حدیث کے مطابق تو ستر ماؤں  کے پیارکو اﷲ تعالی کاپیار کہا گیاہے جب کہ مقالہ میں ہزاروں  ماؤں  کا ذکر کیونکر کیاگیا؟؟ڈاکٹرمرتضی مغل نے جواب دیاکہ مختلف احادیث سے مختلف تعدادمعلوم ہوتی ہے اور عربی میں  یہ تعداد مبالغہ کے صیغے کے طورپر استعمال ہوتی ہے۔جناب بنگش صاحب نے بھی دونوں  مقالوں  کو پسند کیااورڈاکٹرساجد خاکوانی کے مضمون کے بارے میں  تبصرہ کرتے ہوئے کہا اس تحریرسے اپنے وقت کے گزرنے کااحساس ہونے لگاہے۔شیخ عبدالرازق عاقل نے کہا کہ ڈاکٹرساجد خاکوانی کے مضمون میں  زندگی کی بے ثباتی کو بہت اجاگر کہاگیا ہے۔جناب عبدالمجید نے ڈاکٹر مرتضی مغل کے مضمون کے بارے میں  کہاکہ مضمون سے انسانی ذہن کی بالیدگی کاواضع پتہ چلتاہے جس سے شعور،تحت الشعوراور لاشعورکی حقیقتوں  کاادراک بھی ہوتاہے۔احمد عزام خاکوانی نے بھی ڈاکٹر مرتضی مغل سے مضمون کے مندرجات کے بارے میں  کچھ وضاحت چاہی جس کی تفصیل بیان کردی گئی۔مضامین کے جملہ پہلؤں  پر کافی دیر گفتگوکے بعد جناب بنگش صاحب نے اپنی مختصر سی نظم سنائی اور شرکاء کے اسرارپر بزرگ شاعرجناب عبدالرازق عاقل نے بھی اپنی ایک پرانی غزل نذر سامعین کی۔

                آخرمیں  ڈاکٹر فیصل نے اپنے صدارتی خطبے میں  دونوں  مضامین کے بارے میں  پسندیدگی کااظہارکیا۔انہوں  نے مضامین پرتبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ انسان لمحہ موجود میں  ہوتاہے جبکہ ماضی کے لمحات اسے پشیمانی میں  ڈال دیتے ہیں  اور مسقبل میں  رہنے والے لوگ ہمیشہ ذہنی دباؤ کاہی شکاررہتے ہیں ،انہوں  نے کہا کہ دونوں  مضامین اور ان پر ہونے والی گفتگوکاماحاصل یہی ہے کہ انسان کو لمحہ موجود میں  ہی رہناچاہیے تاکہ وہ آسودگی اور راحت کاسامان بہم پہنچاسکے۔اس کے بعد اگلی دفعہ کے پروگرام کااعلان کیاگیااور نشست اختتام پزیرہوئی۔

تبصرے بند ہیں۔