ماہ نامہ الاصلاح کریم نگر :ایک تعارف

ضلع کریم نگر ریاست  تلنگانہ کا ایک اہم علمی اور ادبی ضلع ہے، اور شہر کریم نگر بالخصوص اپنی مختلف علمی کاوشوں  اور ادبی خدمات و رجال اور دینی محنتوں  کی وجہ سے معروف ہے۔ سرزمین کریم نگر اپنی گوناگوں  خوبیوں  اور متنوع  خصو صیتوں  کے باعث پوری ریاست میں  ایک ممتاز مقام رکھتی ہے، اردو زبان وادب میں  شہر کریم نگر کا نمایاں  نام ہے، ادباء و شعراء اور اہل قلم کا ایک کارواں  اپنی تمام تر تابانیوں  اور جلوہ سامانیوں  کے ساتھ یہاں  شروع سے خیمہ زن رہا ہے اور آج بھی زبان وقلم، شعر و ادب، اصلاح و عمل کی خدمات میں  مصروف ہے۔ اردو زبان کے طرز و تکلم اور گفتار وبول چال میں اس کی اپنی الگ اور خصوصی شناخت ہے۔ اس خاک سے اڑنے والے ذروں  نے اپنی خوبیوں  اور کمالات کی بنیادپربلندیوں  پرپرواز کی ہے اورافق عالم کو روشن اور منور کیا ہے۔ باکمال اہل علم، بافیض علماء، مستند دینی مدارس، خطباء ومقررین کی ایک کثیر تعداد نے اس کی عظمتوں  کو چار چاند لگائے ہیں۔ سنجید گی ومتانت، علمی گہرائی اور گیرائی اس کو وافر مقدار میں  ودیعت ہوئی ہے۔

 بہت دنوں  سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ یہاں  سے ایک دینی، علمی، اصلاحی اور فکری رسالہ بھی شائع ہو جس سے علمی تشنگی بھی بجھے اورگھر گھر دین کا پیغام پہنچے۔آپ جانتے ہیں  کہ اس وقت مسلمانانِ عالم مختلف قسم کے مسائل اور حالات سے دوچار ہیں، داخلی انتشار اور خارجی یورش ویلغار نے امت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ بے دینی کا ایک سیلاب ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ اہل ِایمان کو بہالے جانے اور دریا برُد کرنے پر ہے، ایمان کی عظمت کو مٹانے،  قرآن وسنت کی تعلیمات سے دور کرنے، اور اسلاف امت کے راستے سے ہٹانے کی پوری کوشش میں  لگا ہوا ہے،فتنوں  اور آزمائشوں  کی مسموم ہوائیں  ہر طرف چل رہی ہیں، ایمان سوز فتنے سرگرم ہیں،  اخلاق وکردا ر کو ختم کرنے والے نت نئے حربے اختیار کئے جارہے ہیں، مادیت کی چکاچوند اور ظاہر پرستی کی دھوم دھام میں  دین اسلام سے دور اور برگشتہ کرنے والی ناپاک کوششیں  جاری ہیں، ان پر خطر حالات مین ایمان ویقین کا تحفظ نہایت ضروری ہے، قرآن وسنت کے راستے پر مضبوطی سے قائم رہنا اور اسلاف ِامت کی تعلیمات سے وابستہ ہوناہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ حالات اور زمانے کی تیز رفتاری کے ساتھ دین اسلام کے فروغ اور تعلیمات نبوی کو عام کرنے کرنے لئے جد وجہد کرنا ہر ایک کافریضہ ہے۔  ا لحمد للہ فکریں  کبھی ضائع نہیں  ہوتیں  اور میدا نِ عمل میں  کی جانے والی کوششیں  کبھی نہ کبھی رنگ ضرور لاتی ہیں۔ چناں  چہ چند افراد کی فکروں  کا حسین شاہ کار اور امیدوں  و آرزؤں  کا گلدستہ بن کر ’’ماہ نامہ الاصلاح ‘‘کا وجود عمل میں  آیا۔ماہ نامہ الاصلاح کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہ شہر کریم نگر اور پورے ضلع کا پہلا اور باضابطہ شائع ہونے والا رسالہ ہے۔ الحمد للہ گزشتہ 21 مہینوں  سے ماہ نامہ الاصلاح پوری پابندی کے ساتھ وقت پر نت نئے مضامین اور اہم ترین عنوانات اور قیمتی و ضروری مقالات کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔مئی 2015ء میں  ماہ نامہ الاصلاح کا اجراء عمل میں  آیا۔ اس کی سرپرستی ریاست کے مایہ ناز قلم کار و مصنف اور کالم نگارمولانا سید احمد ومیض ندوی صاحب( استاذ حدیث وصدر شعبہ دعوۃ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد،خلیفہ حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمدنقشبندی مدظلہ) فرمارہے ہیں، جن کو ہر اردو داں  جانتا ہے اور ان کے قیمتی اصلاحی مضامین جو ’’روزنامہ منصف‘‘ میں  شائع ہوتے ہیں ان سے مستفید ہوتا ہے، اسی طرح شہر کے مقبول اور ہردل عزیز عالم حضر ت مولانا عمر فاروق صاحب کی زیر نگرانی یہ رسالہ نکل رہا ہے۔ علم دوست اور باذوق حضرات نے اس رسالہ کی بھرپور پذیرائی فرمائی، قدر کی نگاہوں  سے دیکھا اور حوصلہ افزائی کے ساتھ اس کو قبول فرمایا،اس کے معیار ِ طباعت اور انتخاب ِ مضامین کی بہت تحسین فرمائی۔ریاست کے ممتاز علمائے کرام اور قلم کار حضرات کی خدمت میں  بھی الاصلاح پیش کیا گیا، تمام نے ہی دعاؤں  سے نوازا اور نیک تمناؤں  کا اظہار فرمایا۔

 آپ حضرات بخوبی واقف ہیں  کہ اس وقت اردو زبان میں  ملک بھر سے بے شمار دینی رسائل وجرائد شائع ہوتے ہیں ۔ ۔ ’’ہر گلے را رنگ وبوئے دیگر است ‘‘کے مصداق ہر ایک کا انداز اور طرز جدا اور اسلوب مختلف ہوتا ہے۔ اور پھر یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ اس وقت بے دینی اور دین کے نام پر ہوا پرستی اور فتنہ انگیزی کا خطرناک طوفان ایمان کی دیواروں  کو کھوکھلا کرنے کی ہر ممکن کوشش میں  لگا ہوا ہے، ایسے میں  حفاظت و صیانت کی جتنی بھی راہوں  کو ہموار کیا جائے اور اس ایمان لیوا طوفان سے بچانے کے لئے جنتے بھی اصلاحی کوششوں  اور فکروں  کو مختلف انداز مین اختیار کیا جائے کم ہے، کیا پتہ کس رسالہ کی کون سی تحریر کسی کے مردہ ضمیر کو زندہ اور مضمحل ایمان و یقین کو پختہ بنادے!! !ہمارا کام امت کو بہر صور ت صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنا ہے، اس کے لئے جنتے زیادہ اور مؤثر آلات و اسباب کو استعمال کیا جائے کم ہے، سچے جذبے اور شوق  فراواں  کے ساتھ لکھی ہوئیں  تحریری کبھی رائیگاں  نہیں  جاتی،  درد و کڑھن کے ساتھ جوکام کیا جاتا ہے اس میں نصرت الہی شامل حال ہوتی ہے،جس طرح چراغ سے چراغ جلتے ہیں  اسی طرح فکروں  اور کوششوں سے اصلاح و انقلاب کی بنیادیں  پڑتی ہیں،  اب یہ ہے کہ جس کی قسمت میں  جس سے فیض یاب ہونا ہوتا ہے وہ اسی سے ہوگا،لیکن محض اس بنیادپر کہ پہلے سے بہت سارے رسائل اور جرائد کے ڈھیر لگے ہوئے اس میں  اس کا کیا فائدہ ہوگا ؟اگر یہ سوچ کر قدم پیچھے ہٹا یا جائے تو پھر ہر میدان میں  بقدر ضرورت بلکہ بعض اوقات بے ضرورت چیزیں  بہت سی نظر آئیں  گی تو کیا ان تما م سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے گی؟ہر گز نہیں  بلکہ دین کے بارے میں  ہرفکر مند انسان یہ سوچے گا کہ مجھے اپنے امکان بھر کام کرنا ہے، باقی سب پرور دگار عالم کے ہاتھ ہے جو خیر کے راستے کھولنے اور امکانات کو حقائق میں  تبدیل کرنے اور خاموش فضاؤں  میں  صدائے انقلاب پیدا کرنے اور ناکاروں  کو کارآمد بناکر کام لینے،ذروں  کو آفتاب بنانے پر قادر ہے۔

     ماہ نامہ الاصلاح کی بنیاد کچھ خاص پس منظر میں  ڈالی گئی، بہت سے فکروں  کا یہ نچوڑ اور بہت سے ذہنوں  کا یہ عکاس ہے۔ رسالوں  اور ماہ ناموں  کے اس بہتات کے دور میں جو چیز اس رسالہ کو ممتاز کرتی ہے وہ اس کا بیک وقت اردو اور انگریزی دو زبانوں  پر مشتمل ہونا ہے۔اردو ہماری مادری زبان ہے اور اس میں  ہمار ا دین کا قیمتی اثاثہ اور بیش بہا سرمایہ ہے، اس سے کسی بھی طرح بے اعتنائی نہیں  برتی جاسکتی، اور دوسری طرف عالمی سطح پر انگریزی زبان نے اپنا غیر معمولی تسلط حاصل کرلیاہے، اور اس نے ہماری بول چال اورگفتگو میں  اپنا اثرورسوخ قائم کرلیا ہے، جس کے نتیجہ میں  ایک بڑا طبقہ انگریزی زبان کے استعمال میں چار وناچار لگا ہوا ہے۔ ہمارا مقصود چوں  کہ اس رسالہ سے معاشرہ کے ہر طبقہ تک دین کی عام فہم تعلیمات کو پہنچانا اور مختلف شعبوں  میں  دینی رہبری کرنا ہے اور مقدور بھرکوشش بہ توفیق الہی اسلام کی تعلیمات کو، نبی کریم ﷺ کی سیرت وکردار کو،  اسلاف امت کے حالات کو اورموجودہ ماحول اور زمانہ میں  آسان انداز سے دین کی ترجمانی کرنا ہے اس لئے اس میں  دو ززبانوں  کو شامل کیا گیا ہے۔ اور انگریزی میں  ابتداء اس بات کا لحاظ کیا گیا کہ رومن انگریزی استعمال کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس سے استفادہ کرسکے، ورنہ اگر شروع ہی میں  اصل زبان استعمال کی جاتی تو پھر اس کا دائرہ بھی محدود ہوجاتا، جن کو مہارت ہوتی وہی افراد اسے فیض یاب ہوپاتے۔ اور باقی لوگ’’زبان  یار من ترکی وترکی من نمی دانم ‘‘والے معاملہ کا شکار ہوجاتے۔ اس رسالہ کی ادارت کی ذمہ داری اس راقم پر ہے او رنائب مدیر کے فرائض بحسن وخوبی محترم مولانا خواجہ فرقان صاحب قاسمی انجام دے رہے ہیں،  اور دیگر رفقائے کار کے تعاون اور مشاورت کے ذریعہ کے ماہ نامہ الاصلاح کی اشاعت اور خوب سے خوب بنانے اور قارئین کے لئے مفیدشکل میں  پیش کرنے کا سلسلہ جار ی ہے۔ اللہ تعالی اس کو دیر تک جاری رکھے اور اس کے فیض کو دوردور تک پہنچائے۔ آمین

 ہم نے اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ کرکے اس عظیم کام کا بیڑا اٹھا یاہے، یقینا وہی مسبب الاسباب اور خالق و مالک ہے، حقیقی مددگار وناصر بھی وہی ہے،خیر کو وجود میں  لانے والا اور انسانوں  سے نفع کے کام کرانے والا بھی وہی ہے، اسی سے ہم ملتجی ہیں  کہ وہ ہمارے اس اقدم کو قبول فرمائے، ہماری معمولی کوششوں  کو ذریعہ بناکر اس ماہ نامہ کو واقعی اسم بامسمی بنادے اور اصلاح کی راہوں  کو ہر ایک کے لئے آسان کردے۔

تبصرے بند ہیں۔