لہو لہان روہنگیا: مسئلہ پوری امت کا  ہے!

ڈاکٹرعابد الرحمن

جس روز ہم عید الاضحی کی خوشی میں بڑے اہتمام اور سلیقے سے سنت ابراہیمی ؑ کی ادائیگی میں جانور ذبح کر رہے تھے اس وقت برما میں ہمارے دینی بھائی ہمارے قربانی کے جانوروں کے بر خلاف انتہائی اذیت ناک صورت میں ذبح ہو رہے تھے ان لوگوں کے ہاتھوں جو امن کے پرچارک اور صبر و رحم کے پیامبر بنے پھرتے ہیں۔  ہم نے اپنے جانوروں کو تیز دھار دار چاقو سے ذبح کیا تاکہ انہیں تکلیف کم سے کم ہو اس کے بر خلاف سوشل میڈیا میں آئی ویڈیوز کے مطابق برما کے مسلمانوں کے ہاتھ پیر باندھ کر پہلے انہیں خوب اذیت ناک ٹارچر سے گزارا گیا اس کے بعدکلہاڑیوں اور بر چھیوں سے لکڑیوں کی طرح ان کے ہاتھ پیر کے ٹکڑے کئے گئے اور پھر جانور کی طرح ان کے گلے کاٹے گئے۔ معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔

ہم جب لذت کام و دہن کی خاطر قربانی کے گوشت کو مختلف طریقوں سے بھون و پکا رہے تھے اس وقت برما کے مسلمان زندہ آگ میں بھونے جارہے تھے ،ظالموں نے آگ دہکا رکھی تھی اور کمزور لاچار اور رسیوں میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کو لاتوں مکوں لکڑیوں اور بر چھیوں سے مار مار کر اس میں دھکیل رہے تھے۔ جب ہم قربانی کے جانوروں اور گوشت کے باقیات پھینک رہے تھے اس وقت برما میں ہمارے دینی بھائی بہن زندہ سمندر میں دھکیلے جا رہے تھے اور وہ بھی انتہائی ایذا رسانی کے ساتھ۔  ان کی کٹی پھٹی لاشیں ٹھکانیں لگائی جارہی تھیں۔  برما کے مسلمانوں کے ساتھ یہ سفاکانہ سلوک صرف کسی دہشت گرد یا قوم پرست یا متعصب گروہ کا ہی نہیں ہے بلکہ اس میں باقائدہ سرکاری فوج اور پولس کے شامل ہونے کی بھی خبریں ہیں۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کے گاؤں کے گاؤں کو چاروں طرف سے آگ لگا دی اور آگ سے بچنے کے بھاگنے والوں پر فائرنگ کی، ایسی بھی خبر ہے کہ ہماری بے شمار ماؤں بہنوں کو اجتماعی عصمت دری کی دہشت گردی سے گزار کر یا تو سفاکی سے قتل کردیا گیا یا آپس میں بانٹ لیا گیا۔ برما کی سرکار اور قوم پرست گروہ کی اس دہشت گردی کی وجہ سے ہزاروں مسلمان مردعورتیں اور بچے جام شہادت نوش کر چکے اور لاکھوں مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اور یہ سلسلہ صرف عید کے دن ہی کا نہیں بلکہ اس کے سات آٹھ دن پہلے سے شروع تھاجو شاید اب بھی جاری ہے۔  یعنی اس وقت سے شروع ہو گیا تھا جب ہم عید کی تیاری کر رہے تھے لیکن اسوقت برما کے مسلمان اللہ سے اور اللہ اور اس کے رسول رحمت للعالمین کی امت سے مدد کی گہار لگا رہے گڑ گڑا رہے تھے بلک رہے تھے۔

 برما کی جو ویڈیوز اورتصاویر سو شل میڈیا پر آ رہی ہیں وہ ناقابل دید اور ناقابل بیان اور ناقابل برداشت ہیں ان سے سینہ چھلنی دل بوجھل اور دماغ ماؤف سا ہوا جا رہا ہے لیکن افسوس صدافسوس ! اجتماعی طور پر امت مسلمہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ،امت نے پوری دنیا میں بہت جوش و خروش کے ساتھ عید منائی ہزاروں لاکھوں جانور قربان کئے گئے اور خاص طور سے عرب سے اونٹوں کی قربانی کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر جاری کی گئی لیکن انسانوں اور مسلمانوں کی ان اذیت ناک قربانیوں کا کسی کو کوئی ملال نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی تو وہ ہماری روز مرہ میں حائل نہیں ہوسکا۔ ہندوستان اور پاکستان کی عوام اس پر رورہی ہے ،لیکن عوام کیا کر سکتی ہے سوائے دعا بددعا اور لعن طعن اور احتجاج کے۔ وطن عزیز میں تو اس کی بھی گنجائش بہت کم ہے لیکن شاید مسلم ممالک میں عوامی احتجاج کی رپورٹس ہیں خاص طور سے بنگلہ دیش میں لیکن عرب ممالک سے ایسی کوئی رپورٹ ابھی تک نظر سے نہیں گزری۔ وہاں کے معاشی طور پر مضبوط و مستحکم حکمرانوں نے تو کچھ کہا بھی نہیں سوائے ہلکی پھلکی مذمت کے تو کیا وہاں کی عوام بھی اپنے حکمرانوں ہی کی طرح بے حس ہو گئی اور وہ بھی اس قدر کہ اس دہشت گردی کے بہانے اپنے حکمرانوں کی چپی پر بھی احتجاج نہیں کر سکتی ؟ کیا مسلمانوں کی وہ غیرت بالکل ملیا میٹ ہو گئی جس نے ایک بچی کے خط پر حجاج بن یوسف جیسے ظالم گورنر کو موم کی طرح پگھلا دیا تھا۔  شاید غیرت کی اس موت کا علم برما کی فوج اور وہاں کے دہشت گردوں کو بھی ہے اسی لئے انہوں نے یہ ساری دہشت گردی بہت دیدہ دلیری کے ساتھ کی یہاں تک کہ ان کے ویڈیوز دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ویڈیو گرافی بھی فوج نے ہی کی یا کروائی اور اسی نے اسے سوشل میڈیا پر بھی ڈالا ہے کہ انہیں کہیں سے کسی سخت مذمت یا کسی کم سے کم مزاحمت کا بھی اندیشہ نہیں بلکہ انہوں نے ایسا کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کی غیرت کو للکا را اور سارے اسلام دشمنوں پر واضح کردیا کہ اب وہ مر چکی ہے۔

برما کی اس حالت زار پر مجھے غزہ پر اسرائیلی جارحیت یاد آرہی ہے اور یہ بھی یاد آرہا ہے کہ سوشل میڈیا پر اسوقت مسلم حکمرانوں کے لئے چوڑیاں اور لپ اسٹک پیش کی گئی تھی۔ یہ بھی وہی حالت ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے سعودی عرب نے مختلف عرب ممالک کی افواج پر مشتمل عرب اتحادی فوج تشکیل دی اور پاکستان کے سابق فوجی سربراہ کو اس کی قیادت سونپی ،لوگوں نے سوچا کہ یہ اتحاد دہشت گردی اور مسلمانوں کے یابلا امتیاز مذہب قوم لسان اور علاقہ انسانوں کے کسی بھی گروہ پر ہونے والے ظلم کے خلاف بنا ہے لیکن برما کی فوج اور وہاں کے بدھشٹ دہشت گردوں نے دنیا کا یہ بھرم توڑ دیا کہ نہیں یہ فوجی اتحاد مسلمانوں کی حمایت میں نہیں بلکہ ان کے خلاف بنا ہے تاکہ استعماری قوتوں اور اسلام دشمنوں کے مفادات کی حفاظت کی جائے۔  ابھی کچھ دن پہلے ان لوگوں نے قطر پر چو طرفہ پابندی عائد کر دی اس کے سفراء اورعوام کو اپنے یہاں سے نکال باہر کیا تھا لیکن صاحب برما کے متعلق انہوں نے فرداً فرداً یا تنظیمی سطح پر ایسا کچھ نہیں کیا تو پھر ان کے لئے چوڑیاں ہی موزوں ہیں کہ یہ بھی عورتوں ہی کی خصلت والے ہیں کہ جو اپنوں اپنوں میں ہی لڑتی ہیں۔

 اس معاملہ میں برما پر حملہ کرنا حل نہیں ہو سکتا جیسا کہ کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں یا ترکی اور ایران کے متعلق جوخبریں آرہی ہیں، برما کوئی یکاو تنہا ملک نہیں ہے بلکہ اس کے بھی دوست ،حمایتی اور اسٹریجک پارٹنرس ہیں۔  ایسی بھی خبریں ہیں کہ چین اسکا ایک اہم پارٹنر ہے جس نے وہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے ،تو وہ کیسے اپنے پارٹنر پر جنگ مسلط ہو نے دے گا۔ اس ضمن میں برما کو مسلمانوں سے زیادہ شدید تنقید کا سامنا امریکہ و برطانیہ کی طرف سے ہے ،لیکن کیا امریکہ و برطانیہ مسلمانوں کے ہمدرد ہیں ؟ بالکل نہیں ان کا سارا شور شرابہ مسلمانوں کے لئے نہیں ہے بلکہ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ ان کی دھما چوکڑی بھی اس لئے ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ذریعہ امن فوج کے بہانے وہاں ڈیرا ڈالیں تاکہ برما کے قدرتی وسائل بھی لوٹ سکیں اور چین کی ناکہ بندی بھی کر سکیں۔

 بہرحال مسلم مملکتوں کے ذریعہ عسکری کوششیں اس مسئلہ میں سلجھاؤ کی بجائے الجھاؤ پیدا کر سکتی ہیں ،لیکن ہمت طاقت اور اللہ کی امداد ہو تو نوک شمشیر ہمیشہ ظلم پر غالب ہو کر رہتی ہے مگر صاحب ہمارے پاس نہ ہمت ہے نہ جرت ہے اور نہ ہی ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ہمیں اللہ کی مدد آئے۔ اس مسئلہ کو حل کر نے کا ایک موثر ہتھیار سفارتی کوششوں کی صورت میں دنیا بھر کی تمام مسلم مملکتوں کے پاس بہر حال ہے جس کے ذریعہ برما اور اس کے حواریوں کو جھکا یا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی جرت و ہمت ہی کا متقاضی ہے اس ضمن میں بھی ہم کہاں ہیں یہ مسلم مملکتوں کے ذریعہ اس معاملہ کی رسمی مذمت سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ترکی اور ایران نے دھماکے دار مذمت کی ہے لیکن اس کی بھی عملی صورت ابھی تک نظر نہیں آئی ،بہر حا ل برما کے مسلمانوں کا حا بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ فلسطین کے مسلمانوں کا حال ہے۔ اور یہاں بھی امت مسلمہ اور ہمارے حکمرانوں نے فلسطین ہی کی طرح عدم توجہی کا مظاہرہ کیا۔

 یہ معمالہ بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی خاص توجہ اور حل طلب تھا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ بر صغیر کی انگریزوں سے آزادی کے وقت برما کے مسلمانوں نے بھی محمد علی جناح کے ساتھ پاکستان میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی تھی اور اس کی کوشش بھی کی تھی لیکن جناح مرحوم نے اسے برما کے داخلی معاملات میں مداخلت کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔ آزادی کے بعد انہیں برما کی شہریت تو حاصل رہی لیکن بنگلہ دیشی کہہ کر بدھشٹ قوم پرستوں اور افواج کے ذریعہ بزور قوت ان کو بنگلہ دیش کی طرف ہانکا بھی جاتا رہا۔ 1982 میں تو حکومت نے ایک قانون کے ذریعہ ان لوگوں کی شہریت ہی چھین لی یوں یہ فلسطینیوں کی طرح یہ لوگ بھی اپنی ہی زمین اور اپنے ملک میں اجنبی ہوگئے غیر قانونی قرار پائے جس کے بعد ان پر سرکاری اور غیر سرکاری مظالم کا نا تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے ،لیکن اب اس کی خاص بات یہ ہوگئی ہے کہ برما کے قوم پرست انتہا پسند بدھشٹ پرچارک اشن وراتھو نے اسے ر وہنگیا مخالفت سے آگے بڑھا کر بین الاقوامی سطح پر مسلم مخالف کردیا ہے اور نہ صرف بدھشٹ بلکہ دوسرے مذاہب کو بھی مسلمانوں سے محتاط رہنے کی تلقین کرتے ہوئے گویا اس مسلم مخالف تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ یعنی اب یہ صرف روہنگیوں کا ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اور امت نے متحد ہو کر اسے حل کر نے کی ہر ممکن کوشش کر نی چاہئے۔

تبصرے بند ہیں۔