لے کے نکلے ہو دور بین کہاں

افتخار راغبؔ

لے کے نکلے ہو دور بین کہاں

اُن کے جیسا کوئی حسین کہاں

میرے دل سا کہاں مکان کوئی

تیرے جیسا کوئی مکین کہاں

بن گیا ہوں یقین کا پُتلا

ہاں مگر آپ کو یقین کہاں

جتنی اچھی غزل سنا لو تم

داد دیں گے مخالفین کہاں

شہرِ خوباں میں بھی ترے جیسا

پیکرِ حسن اور ذہین کہاں

دل مرا قافیہ، ردیف ہو تم

اس سے اچھی کوئی زمین کہاں

مارِ دنیا کا خوف تھا ہردم

یاد تھی مجھ کو آستین کہاں

ایسی محفل کی بات کیا راغبؔ

اتنے اچھے ہیں سامعین کہاں

تبصرے بند ہیں۔