ماضی کے دریچوں میں الجھتے نہیں دانا 

حبیب بدر ندوی

ماضی کے دریچوں میں الجھتے نہیں دانا
گزرے ہوے لمحوں میں بھٹکتے نہیں دانا

دنیا میں مصیبت کا ایک موج تسلسل ہے
اور موج تسلسل میں بہتے  نہیں  دانا

جو کرنا ہے اب کر لو ماضی کا غم نہ کرو
ماضی کے فریبوں سے بہکتے نہیں دانا

کم ظرف  ہوتے ہیں جومحسن کو ستاتے ہیں
احسان جتانے میں کبھی پڑتے نہیں دانا

دستور ازل سے ہے دل لے کے دغا دینا
دل کو کبھی رونے  دیتے نہیں دانا

جذبات سے کھیلنا ہی کم ظرف کا پیشہ ہے
جذبات کو مرجھانے کبھی دیتے نہیں  دانا

الزام سے ہو کر ہی مخلص کو گزرنا ہے
اخلاص کے جامہ سے نکلتے نہیں دانا

تبصرے بند ہیں۔