مانا جیا کیے ہیں بڑی کمتری سے ہم

ادریس آزاد

 مانا جیا کیے ہیں بڑی کمتری سے ہم
بہتر ہزار سال کی خواجہ گری سے ہم

جھولی میں، دل میں، گھر میں کوئی جا بچی نہیں
تنگ آگئے ہیں آپ کی دریا دلی سے ہم

مالک! ہمیں یہ جبرِ مسلسل نہیں پسند
کرتے ہیں احتجاج بڑی عاجزی سے ہم

ورنہ تجھے کبھی نہ لگاتے کسی کے ساتھ
واقف نہیں تھے دل تری دیوانگی سے ہم

آپ آئے ہائے ہائے، یہ عزت ! زہے نصیب
مر ہی نہ جائیں آج کہیں اس خوشی سے ہم

اے دل ! حریف ِ جاں! تری دعوت کی خیر ہو
اپنی شکست مان رہے ہیں ابھی سے ہم

اک دوسرے کے ساتھ میں چلنا محال ہے
کچھ ریتلے سے آپ ہیں کچھ دلدلی سے ہم

چپکے سے چاندنی میں نکلتی ہے نصف شب
دریا پہ مل کے آئے ہیں جس جل پری سے ہم

رشتہ کوئی قریب کا ممکن ہے کس طرح
جب مستقل سے آپ ہیں اور عارضی سے ہم

کرتے ہری ہری رہے اے سرزمین ِ دل
اپنے بدن کی شاخ کو تیری نمی سے ہم

تبصرے بند ہیں۔