ادریس آزاد
مانا جیا کیے ہیں بڑی کمتری سے ہم
بہتر ہزار سال کی خواجہ گری سے ہم
…
جھولی میں، دل میں، گھر میں کوئی جا بچی نہیں
تنگ آگئے ہیں آپ کی دریا دلی سے ہم
…
مالک! ہمیں یہ جبرِ مسلسل نہیں پسند
کرتے ہیں احتجاج بڑی عاجزی سے ہم
…
ورنہ تجھے کبھی نہ لگاتے کسی کے ساتھ
واقف نہیں تھے دل تری دیوانگی سے ہم
…
آپ آئے ہائے ہائے، یہ عزت ! زہے نصیب
مر ہی نہ جائیں آج کہیں اس خوشی سے ہم
…
اے دل ! حریف ِ جاں! تری دعوت کی خیر ہو
اپنی شکست مان رہے ہیں ابھی سے ہم
…
اک دوسرے کے ساتھ میں چلنا محال ہے
کچھ ریتلے سے آپ ہیں کچھ دلدلی سے ہم
…
چپکے سے چاندنی میں نکلتی ہے نصف شب
دریا پہ مل کے آئے ہیں جس جل پری سے ہم
…
رشتہ کوئی قریب کا ممکن ہے کس طرح
جب مستقل سے آپ ہیں اور عارضی سے ہم
…
کرتے ہری ہری رہے اے سرزمین ِ دل
اپنے بدن کی شاخ کو تیری نمی سے ہم
تبصرے بند ہیں۔