نیپال میں!

محمد عرفان ندیم

نیپال سے میری دلچسپی کا آغاز 2013 کے شروع میں ہوا، میں ان دنوں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کا اسٹوڈنٹ تھا، کلاسز شروع ہوئیں تو کلاس میں کچھ غیر ملکی بھی نظر آئے، میرے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی غیر ملکی اسٹوڈنٹ صحافت سیکھنے کے لئے آسکتے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ پاکستان سارک تنظیم کے تحت ہر سال دو نیپالی اسٹوڈنٹس کو اسکالرشپ کی آفر کرتا ہے اور اس سال نیپال سے کسابی جوشی اور لکشمی لامہ منتخب ہو کر آئی تھیں۔ یونیورسٹی میں ہمارا ایک گروپ تھا اور یہ دونوں اس گروپ کا حصہ تھیں۔ یہ بدھ مذہب سے تعلق رکھتی تھیں اور ان دنوں میانمار میں بدھسٹ کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا آغاز ہو چکا تھا، اس سلسلے میں ہماری خوب بحثیں ہوتی اور بات اسلام اور بدھ مت سے ہوتی ہوئی مہاتما بدھ کے نیپال تک پہنچ جاتی۔ کسابی جوشی نے اس وقت مجھے نیپال کے مندروں، گوتم بدھ کی لائف اوراس کی تعلیمات سے متعارف کروانے کی کوشش کی۔

 2014میں ڈگری مکمل ہوئی تو کسابی اور لکشمی لامہ واپس چلی گئیں اور اس کے بعد فیس بک پر کبھی کبھار رابطہ ہوجاتا تھا۔ میں نے نیپال آنے سے پہلے کسابی کو میسج کیا تواس کا کہنا تھا وہ کھٹمنڈو سے بہت دور ایک گاؤں میں رہتی ہے، شادی بھی ہو چکی اور کچھ نجی مصروفیات بھی ہیں اس لیے میرا کھٹمنڈو آنا مشکل ہے۔ میں نے نیپال پہنچتے ہی کسابی کودوبارہ ٹیکسٹ کر دیا تھا لیکن شاید دو ر گاؤں میں نیٹ کی سہولت موجود نہیں اور تاحال وہ میسج نہیں دیکھ پائی، یہ نیپال سے دلچسپی کی شروعات تھیں۔ اس کے علاوہ ماؤنٹ ایورسٹ اور گوتم بدھ بھی نیپال سے دلچسپی کا باعث تھے۔نیپال ساؤ تھ ایشا کااہم ملک اور سارک تنظیم کا رکن ہے، نیپال کا لفظ نیواری زبان کے لفظ نیپا سے نکلا ہے، نیواری ایک قوم تھی جو وادی کھٹمنڈو میں آباد تھی۔

 نیپال کو انتظامی لحاظ سے سات ریاستوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ ریاستیں مزید 75اضلاع میں تقسیم ہیں۔ نیپال کا دارالحکومت کھٹمنڈو ہے اور یہ نیپال کا سب سے بڑا شہر ہے، اس کی آبادی تقریبا چالیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ملک چاروں طرف سے انڈیا اور چین کے درمیان گھر ا ہوا ہے،رقبے کے لحاظ سے یہ دنیا کا پچانوے نمبر پر آنے والا ملک اور آبادی کے لحاظ سے 48نمبر پر آتا ہے۔ کو ہ ہمالیہ کا زیادہ تر علاقہ نیپال میں ہی واقع ہے۔ دنیا کی سب سے اونچی دس چوٹیوں میں سے آٹھ نیپال میں ہیں جن میں دنیا کی بلند ترین چوٹی مائنٹ ایورسٹ بھی شامل ہے۔ نیپال میں 2007 تک با دشاہی نظام تھا لیکن اس کے بعد بادشاہت کو ختم کر کے پارلیمنٹری نظام نافذ کر دیا گیا۔ نیپال کی آبادی میں 81فیصد ہندو، 9فیصد بدھ، 4.4فیصد مسلمان، 3فیصد کرتن اور 2فیصد دوسرے مذاہب شامل ہیں۔ نیپال کو اللہ نے قدرتی حسن سے نوازا ہے، ہمالیہ کے پہاڑ ہیں، سبزہ ہے، بادل اور بارش ہے، فضا میں گوتم بدھ کی سانسوں کی مہک ہے اور پہاڑوں اور گہری وادیوں میں مندروں کی گھنٹیوں کی آوازیں ہیں، صرف ایک ہفتہ قیام کے بعد میں نیپال کی خوبصورتی کا قائل ہو گیا ہوں۔ سوئزرلینڈ کو دنیا کی جنت کہا جاتا ہے لیکن میں تاحال وہاں نہیں جا سکا اس لیے میں نیپال کی خوبصورتی سے متاثر ہو گیا ہوں۔

 ہم کھٹمنڈو سے تیس کلومیٹر دو ر دھلی خیل کے علاقے میں ٹھہرے ہوئے ہیں، یہ رہائشی علاقہ ہے لیکن یہ رہائشیں پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں۔ ہمارا ہوٹل پہاڑی کی ڈھلوان پر قائم ہے اورہمارے چاروں طرف پہاڑ ہیں، پہاڑوں نے سبزے کی چادر اوڑھ رکھی ہے،لمبے اور گھنے درخت ہیں، ڈھلوانیں ہیں، پہاڑوں کے بیچ خطرناک سانپ کی طرح خم کھاتے راستے ہیں اور ان راستوں پر چلتی نیپالی دوشیزائیں ہیں۔ بادل ناکام عاشق کی طرح کسی بھی وقت آنسو بہانا شروع کر دیتا ہے اور جب سے ہم آئے ہیں یہ مسلسل آنسو بہارہا ہے۔یہاں کے بادل اور ناکام عاشق میں گہری مماثلت ہے دونوں کسی بھی وقت ذرا سی آہٹ سے لرز جاتے ہیں اور پھر ٹوٹ کر برسنے لگتے ہیں۔ میں کمرے کی بالکونی میں بیٹھ کر کالم لکھ رہا ہوں، میرے سامنے پہاڑ ہیں، پہاڑوں پر بنے گھر ہیں اور ان گھروں میں ٹہلتا ہمالیہ کا حسن ہے، دور ہمالیہ کے پہاڑوں پر جمی برف ہے اور برف کے اندر سے گھونگھٹ نکال کر ہنستی مسکراتی اور پہلی رات کی دلہن کی طرح شرماتی چوٹیاں ہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں گہری وادیاں ہیں، وادیوں میں بکھرے ہوئے مکان ہیں، مکانوں سے اٹھتا ہوا دھواں ہے، دھویں میں اٹکھیلیاں کرتے ہوئے بادل ہیں، دور کہیں مندر کی گھنٹی بجتی ہے اور محبت کی دیویاں بیدار ہو کر ساری وادی میں محبت کا رس گھول دیتی ہیں۔ موسم میں ایک رومانس ہے اور یہ رومانس آپ کو اپنے سحر میں جھکڑ کر بے خود اور آوارہ کر دیتا ہے۔

ہم پاکستان سے تقریبا پندرہ لوگ ایک ورکشاپ کے سلسلے میں نیپال آئے ہوئے ہیں، ہم تیس جون کو سیالکوٹ ایئر پورٹ سے براستہ دبئی رات دس بجے کھٹمنڈو کے تری بھون ایئر پورٹ پر اترے اور پندرہ جولائی کو ہماری واپسی ہو گی۔یہ ورکشاپ ’’مدرسہ ڈسکورس‘‘ پروجیکٹ کے تحت ہو رہی ہے، مدرسہ ڈسکورس کیا ہے اس کا تعارف میں پہلے اپنے کالمز میں کر وا چکا ہوں۔ مختصر ا یہ کہ مدرسہ ڈسکور س ڈاکٹر ابراہیم موسی کا آئیڈیا تھا جسے عملی جامہ ڈاکٹر ماہان مرزا نے پہنچایا۔ ڈاکٹر ابراہیم موسی کا تعلق جنوبی افریقہ جبکہ ماہان مرزا کا تعلق پاکستان سے ہے، یہ دونوں حضرات امریکہ کی یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے منسلک ہیں، یہ کیتھولک یونیورسٹی ہے، ڈاکٹر ابراہیم موسی دارالعلوم دیوبند اور ندوہ کے فاضل ہیں اور مغرب میں مدارس کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں، کچھ عرصہ قبل دینی مدارس کے حوالے سے کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ یہاں ان کو کچھ اسکالرشپس کی آفر ہوئی تو انہوں نے پاکستان اور انڈیا کے دینی مدارس کے فاضل جو عصری تعلیم میں بھی مہارت رکھتے ہیں انہیں ایک آن لائن کورس شروع کروایا جس میں سائنس، مذہب اور جدید علم الکلام کے حوالے سے مباحث شامل ہیں، سمسٹر کے آخر میں پندرہ دن کی ورکشاپ ہوتی ہے، پاک انڈیا تصادم کی وجہ سے دونوں ملکوں کے اسٹوڈنٹ کسی ایک ملک میں اکھٹے نہیں ہو سکتے اس لیے یہ ورکشاپ نیپا ل میں رکھی گئی ہے۔ صبح نو بجے سے ساڑے بارہ بجے تک لیکچرز ہوتے ہیں اوردو سے شام پانچ تک ڈسکشن اور سوالات کا سیشن ہوتا ہے۔ پاکستان میں مولانا عما ر خان ناصرا ور انڈیا میں ڈاکٹر وارث مظہری لیڈ فیکلٹی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

 اگرچہ پاکستان اور انڈیا میں اس پروجیکٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن میرے خیال میں ہمیں دوسروں کے نقطہ نظر کوبھی سمجھنا چائیے۔ میں ایک ڈھیٹ قسم کا روایت اور اکابر پرست ہوں، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں ان حضرات کی نیت میں کوئی شک نہیں، یہ صدق دل سے اسلام کی خدمت کر رہے ہیں، یہ جو سوالات اور مباحث اٹھا رہے ہیں اس کی وجہ ان کا وہ پس منظر اور ماحول ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں، یہ مذہب، سائنس اور علم الکلام کے حوالے سے اس طوفان اور ہلچل کو دیکھ رہے ہیں جس کا سیلاب ہمارے مشرقی معاشروں میں پچاس سال بعد آئے گا۔ہم یہاں کس طرح کی مباحث ڈسکس کر رہے ہیں اپنے اگلے کالمز میں وہ تصویر دکھانے کی کوشش کروں گا۔

تبصرے بند ہیں۔