مانگے سب کی خیر پھر کیوں بیر

ڈاکٹر مظفر حسین غزال

یا رب تمام اہل ایمان کی جان ومال، عزت و آبرو کی حفاظت فرما۔ غلطیوں ، کوتاہیوں سے در گزر فرما، گناہوں کو معاف فرما، جو پریشان حال ہیں ان کی پریشانی کو دور فرما۔ جو مقروض ہیں انہیں قرض سے نجات دلا۔ رزق میں کشادگی کاروبار میں ترقی عطا فرما۔ جو بیمار ہیں انہیں صحت کاملہ عطا فرما، دنیا وآخرت میں کامیابی نصیب فرما۔ خیر کا عافیت کا معاملہ فرما۔ یہ وہ جملے ہیں جو بلا تفریق مسلک مساجد کے ائمہ، علماء اور مسلمانوں کی دعاؤں کا حصہ ہوتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ جس میں اللہ سے اس کی تعریف بیان کرنے کے بعد درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر انعام فرمایا نہ ان کا جن پر غضب کیا گیا اور نہ ان کا جو گمراہ ہوئے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ دعا میں سب کی خیر مانگی جاتی ہے اور با ادب کھڑے ہو کر نگاہیں نیچی کرکے خدا سے کہتے ہیں ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ دعا میں سب سے مراد کسی خاص مسلک، طبقہ یا گروہ کے لوگ ہیں بھاجپا کے نعرے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کی طرح جس کے سب میں شاید مسلمان شامل نہیں ہیں، تو پھر قرآن کریم میں جمع کا صیغہ کیوں استعمال ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ قرآن کریم مسلکی گروہ بندی کی نفی کرتا ہے۔ ایک دوسرے مقام پر قرآن کہتا ہے کہ کچھ ہیں جو لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ ان کا استحصال کر سکیں، تفرقہ میں نہ پڑو، متحد ہوکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلکی گروہ لوگوں کے استحصال کی غرض سے وجود میں آتے ہیں۔ یہ بھلے ہی اللہ اور اس کے رسول کے راستہ پر چلنے کے نام پر ہی کیوں نہ بنے ہوں لیکن اصل میں یہ اللہ اور اس کے رسول سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا پورا زور اصل دین کے بجائے فروع دین پر ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت و افادیت کچھ اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ فروع دین کے اصل ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ دین کو لے کر شک شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ آپسی اتحاد اور اعتماد کم ہو جاتا ہے۔ اپنے محلہ کے پڑھے لکھے دین دار شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے تنخواہ دار امام میں زیادہ بھروسہ دکھایا جاتا ہے۔ مقامی سخص میں فرشتوں کی صفات دیکھی جاتی ہیں جبکہ تنخواہ دار امام کے گھر، خاندان، کردار، رہن سہن اور تعلیم وتعلم تک کا کوئی علم نہیں ہوتا۔تاریخ میں نماز پڑھانے کے لئے تنخواہ پر امام مقرر کئے جانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جب سے انجان لوگوں کو امام مقرر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تبھی سے یہودی، عسائی یا غیر مسلم کے ذریعہ امامت کئے جانے کی شکایتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ ایام رمضان میں مدارس کے نام پر کئی غیر مسلم چندہ وصولتے ہوئے بھی پکڑے گئے ہیں۔

تنخواہ دار ائمہ کی وجہ سے مسلمانوں میں قرآن و حدیث پڑھنے، سمجھنے اور سمجھانے کا چلن کم ہو گیا۔ زمانہ تک یہ روایت تھی کہ بچہ جب پڑھنے کی عمر کو پہنچتا تو علاقے کے نامور عالم دین سے بسم اللہ کرائی جاتی۔ اس کے بعد باضابطہ پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوتا۔ ابتداء میں قرآن پڑھایا جاتا، قرآن کے ساتھ بچے عربی، فارسی کی ابتدائی ایک دو کتابیں بھی پڑھ لیتے تھے۔ اس سے ان میں قرآن کو سمجھنے کی شد بد پیدا ہو جاتی تھی۔ قرآن کو ثواب کی نیت سے پڑھا جاتا ہے۔ بلا شبہ اسے پڑھنے کا ثواب ہے لیکن قرآن کیونکہ کتاب ہدایت ہے اسے سمجھ کر نہ پڑھنے سے نہ صرف قرآن کے فیوض وبرکات حاصل نہیں ہو پاتے بلکہ یہ ہماری زندگی پر اثر انداز بھی نہیں ہو پاتا۔ پہلے بچے نماز پڑھنا سیکھتے اور مسجد میں اذان پڑھنے پر ان کی ہمت افزائی کی جاتی تھی۔ آج اکثر مساجد کی اذان چیخنے اور بلا ضرورت لفظوں کو کھینچنے کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آتی۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جو خوش آواز، اچھے انداز میں اذان پڑھ سکیں۔ حد تو یہ ہے کہ تکبیر پڑھنے میں کئی بڑے لوگوں کی زبان لڑ کھڑا جاتی ہے۔ خیرامت ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی یہ صورتحال قابل غور ہے۔

مکمل دین کے بجائے اس کے کسی ایک پہلو یا ستون کو ہی دین کے طور پر پیش کرنا اور فروعی مسائل پر طویل بحثیں مسلمانوں کی تنزلی کو ظاہر کرتی ہیں۔ مثلاً داڑھی کتنی بڑی ہو، کرتا کتنا لمبا، پاجامہ کتنا اونچا، مونچھیں چھوٹی ہوں یا نہ ہوں، وجوع، غسل کی سنت و فرض پر بحث، کس عمل کا ثواب سو شہیدوں کے برابر، کس کا دس حج کے اور کس کا دس قرآن مکمل کرنے کے برابر وغیرہ۔ جمعہ کے خطبہ کی اذان امام کے سامنے کھڑے ہو کر پڑھی جائے یا مسجد کے باہری حصہ میں، تکبیر کے ساتھ ہی نماز کے لئے کھڑا ہوا جائے یا نبیؐ کا نام آنے پر۔ جماعت سے پہلے صلوۃ وسلام پڑھا جائے یا نہیں، رزق پر فاتحہ پڑھنا، صوفیاء کرام، بزگان دین کے مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن پر جتنی بات کی جائے اتنی ہی دوری بڑھتی ہے۔ اسپین سے مسلمانوں کا خاتمہ، روس کی مسلم ریاستوں پر کمیونزم کا غلبہ، نام نہاد اسلامی ممالک میں مسلمانوں کا آپس میں دست و گریبان ہونا اور قتل وغارت گری انہیں فروعی اختلافات کا نتیجہ ہیں۔

بھارت کی بات کریں تو یہاں مسلکی اختلافات کو بڑھانے اور مسلمانوں کے درمیان عدم اتحاد کی فضا قائم رکھنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ پہلے ایک دوسرے کو نظریاتی بنیاد پر کافر قرار دینے کا دور چلا پھر ان کے رد میں مضامین، کتابیں لکھی گئیں، مناظرے ہوئے۔ مولانا احمد رضا خان کے وارث جناب مولانا توقیر رضا خان کے دارالعلوم دیوبند جانے سے اتحاد کی فضا ہموار ہونے کی امید بندھی تھی لیکن دارالعلوم دیوبند کے حالیہ فتویٰ سے شیعہ، سنی تنازعہ کو ہوا ملی ہے۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ اہل سنت کو شیعہ حضرات کے یہاں چاہے روزہ افطار ہو یا شادی بیاہ کھانا کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ قرآن اہل کتاب کے یہاں کھانے کو حلال قرار دیتاہے۔ شیعہ تو پھر بھی قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔ شیعہ، سنی کے درمیان عدم اعتماد اور نفرت کی وجہ سے لکھنؤ لمبے عرصے تک سال در سال فساد سے جوجھتا رہا۔ سعودی عرب کے حلیف ممالک شیعہ سنی نفرت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔موجودہ حالات اس کی قطعی اجازت نہیں دیتے کہ مسلکی اختلافات کو ہوا دی جائے۔ مسلم سماج کسی بھی طرح کے آپسی انتشار کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہے۔ اس وقت آپسی اختلافات کو بھلا کر متحد ہونے کی ضرورت ہے، چاہے یہ اتفاق کامن منیمم پروگرام کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو۔

غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی بنیاد میں امن، برابری، اجتماعیت، اتحاد اور جوابدہی موجود ہے۔ یہ وہ اصول ہیں جن سے ایک ذمہ دار سماج وجود میں آتا ہے۔ ان کو نافذ کرنے کے لئے اصول وضوابط وضع کئے گئے ہیں۔ اسلام کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہے جو سماجی سروکار سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ تہوار اللہ کے شکر یعنی عبادت سے شروع ہوتے ہیں۔ تاکہ خوشی میں بھی وہ کوئی حد پار نہ کرے اور اسے اپنے رب کا خیال رہے۔ تہوار منانے اور نماز پر سکون طریقہ سے ادا کرنے کا حکم ہے۔کسی طرح کے شور شرابے یا ہنگامے کی اجازت نہیں ہے۔یہاں تک کہ دن کی دو نمازوں میں قرآن آہستہ پڑھا جاتا ہے تاکہ دن کے کاموں میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے اور زکوۃ کے لئے اجتماعی نظام کی ضرورت ہے۔اس وقت رمضان المبارک کے آخری ایام چل رہے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں صبر، استقامت، نفس اور غصہ پر قابو پانے کی تربیت ہوتی ہے۔اس مہینہ میں زندگی کا محاسبہ اور آئندہ سابقہ غلطیوں کو نہ دوہرانے کا عزم کیا جاتا ہے۔ بھوک پیاس اور محرومی میں زندگی گزارنے والوں کی مجبوریوں کا احساس ہوتا ہے۔ ان سے محبت پیدا ہوتی ہے اور ان کی مدد کے لئے ہاتھ بڑھتا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں محدود نہ رہ کر سرکولیشن میں آجاتی ہے جس کا عام لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ برابری، اتحاد، امن اور اجتماعیت عبادت کا لازمی جزو ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس دین کی بنیاد برابری، اتحاد، امن اور اجتماعیت پر قائم ہے اس کے ماننے والوں میں نابرابری، مسلکی انتشار، نفرت اور اپنی الگ پہچان بنانے پر اسرار کیوں؟ رمضان کے مبارک مہینہ میں کیا تزکیہ نفس کے ساتھ اس کا احتساب نہیں ہونا چاہئے؟

حرم ایک بھی اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک 

سب کی خیر کی دعا مانگنے والے اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر اگر اس رمضان میں اتحاد بین المسلمین کے بارے میں ملی مفاد کی خاطر سوچنا شروع کر دیں تو یہ اس مبارک مہینہ کا حاصل ہوگا۔ مسلکی عصبیت کم ہوگی تو عزت بھی بڑھے گی اور ترقی بھی ملے گی۔ اتحاد میں خود ایسی طاقت ہوتی ہے جسے محسوس کیا جاتا ہے نظرانداز نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔