اداس لمحوں سے دل لگانا ہمیں نہ آیا
ذیشان الہی
اداس لمحوں سے دل لگانا ہمیں نہ آیا
کوئی بھی غم معتبر بنانا ہمیں نہ آیا
…
ہمیں نہ آیا کسی کی زلفوں کو شام کہنا
کسی کے چہرے کو گُل بتانا ہمیں نہ آیا
…
کسی سے اک عمر کی رفاقت کا عہد کر کے
اکیلا رستے میں چھوڑ جانا ہمیں نہ آیا
…
یہ شب کسی دلربا کی یادوں سے مہکی شب یہ
یہ شب لبِ آب جو بتانا ہمیں نہ آیا
…
یہ ہم جو یادوں کا دکھ مسلسل اٹھا رہے ہیں
بھلانے والوں کو بھول جانا ہمیں نہ آیا
…
زمانہ آسودہ حال ہم کو سمجھ رہا ہے
وہ یوں کہ حالِ زبوں دکھانا ہمیں نہ آیا
…
یہ سچ ہے اپنا ہی باغ اجڑتے ہوئے جو دیکھا
پرائے باغوں میں گل کھلانا ہمیں نہ آیا
…
کچھ اس لئے بھی تمام عالم سے کٹ گئے ہم
فریب کھا کر فریب کھانا ہمیں نہ آیا
…
سیاہ شب میں دیا میسر نہ جب کوئی ہو
جنون و وحشت میں گھر جلانا ہمیں نہ آیا
…
لہو میں اپنے ہیں تر بتر اس لئے بھی شاید
کہ خونِ ناحق کبھی بہانا ہمیں نہ آیا
…
حرم سراؤں میں کچّی عمروں کی خادمائیں
کسی سے دکھ ان کا کہہ سنانا ہمیں نہ آیا
…
ہمارے سر آ گیا جو الزامِ بے وفائی
ہر ایک غم کو ترا بتانا ہمیں نہ آیا
…
کسی کا ذیشان ذکر شعروں میں کر کے اپنے
غزل کسی اور کو سنانا ہمیں نہ آیا
تبصرے بند ہیں۔