کیا ہمارے یہاں بھی  ’اُخوَّت‘  جیسے ادارے ہیں؟

عالم نقوی

اُن غریبوں کو جو کسی بھی قیمت پر  بھیک نہیں مانگنا چاہتے، کیا ہمارے یہاں بھی بلا سودی قرض حسنہ فراہم کرنے کرنے والا کوئی اخوت جیسا ادارہ یا ادارے  ہیں ؟ اگر ہیں تو برائے مہربانی ہمیں ان کی تفصیلات فراہم کرائی جائیں۔

’’اخوت ‘‘پڑوسی ملک پاکستان  میں واقع مغربی پنجاب کے  مشہور شہر لاہورمیں سترہ برس قبل ۲۰۰۱ میں صرف دو لاکھ روپئے سے شروع ہونے والا ایک ادارہ ہے جس نے چند مفلوک الحال لیکن شریف ا لنفس خاندانوں کو  چھوٹے موٹے کاروبار یا دھندے کے لیے بلا سودی قرض  فراہم کر کے  اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے لائق اور معاشی طور پر خود کفیل بنا دیا تھا  آج بارہ ارب روپئے کا مالک ہے جس کی خدمات چھبیس لاکھ خاندانوں تک وسیع ہیں جنہیں اکسٹھ ارب روپئے کے بلا سودی قرضے دیے جا چکے ہیں۔ امسال بھی چند روز قبل اخوت نے بیس ہزار نئے خاندانوں کو اپنا کام شروع کرنے  کے لیے قرض حسنہ دیا ہے۔

 جاوید چودھری نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ ان سترہ برسوں میں اخوت کے فراہم کردہ بلاسودی قرض کی مدد سے ساڑھے سات لاکھ گھرانے پچاس ارب سے زائد دولت کما چکے ہیں۔ پاکستان کے ڈھائی سو شہروں میں اُخوت کی ساڑھے تین سو شاخیں ہیں۔ یہ ادارہ غریبوں کو دس سے پچیس ہزار روپئے قرض دیتا ہے اور لوگ اس معمولی لیکن بلاسودی رقم کی برکت سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اخوت نے قرض حسنہ کے ساتھ ایک کلاتھ بینک بھی قائم کر لیا ہے جس میں لوگ ہنسی خوشی اپنے وہ کپڑے جمع کرا دیتے ہیں جو ان کی ضرورت سے زائد ہوتے ہیں جو بعد میں ضرورت مندوں کے درمیان تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ اخوت  آج دنیا میں قرض حسنہ کا سب سے بڑا ادارہ  ہونے کا اعزاز حاصل کر  چکا ہے۔

جاوید چودھری نے لکھا ہے کہ اوکسفورڈ، کیمبرج (برطانیہ ) اور ہار ورڈ (امریکہ ) میں اس ادارے کی دھوم ہے۔ لوگ محو حیرت ہیں کہ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا ؟ اتنا بڑا قرض حسنہ فنڈ ! ۹۹ فیصد سے زائد قرض کی رقم کی واپسی (ریکوری) !

اخوت کا اگلا قدم ایک ایسے تعلیمی ادارے کا قیام ہے جہاں علم کو کاروبار نہ سمجھا جائے۔ جس میں وہ بچے بھی پڑھ سکیں جن کی ماؤں کے پاس اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر بیچنے کے لیے زیور تک نہیں ہیں۔ اس یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک ایک اینٹ بیچنے کا عمل شروع ہوا ۔ ایک اینٹ کی قیمت ایک ہزار روپئے رکھی گئی ہے۔ یعنی اگر پانچ لاکھ اینٹیں بک جائیں تو پانچ کروڑ روپئے جمع ہو جائیں گے ! سر دست چار لاکھ اینٹیں فروخت ہو چکی ہیں۔ صرف ایک لاکھ اینٹیں بچی ہیں امید ہے امسال ماہ رمضان المبارک کے ختم ہوتے ہوتے وہ بھی فروخت ہو جائیں گی۔ اور پھر ایک ایسی درسگاہ کے قیام کے خواب کی تکمیل ہوگی جس میں غریبوں کے لیے اعلیٰ تعلیم بالکل مفت ہو۔ انشااللہ۔

جاوید چودھری نے لکھا ہے کہ مولانا روم ؒ نے کہا تھا کہ میں ساری زندگی ایسے شخص کو ڈھونڈتا رہا جو اللہ کی راہ میں دینے کے بعد غریب ہو گیا ہو لیکن مجھے وہ نہیں ملا۔ مل ہی نہیں سکتا۔

جاوید چودھری نے اخوت کے قیام کی داستان سناتے ہوئے لکھا ہے کہ اپنی سینے حساس دل رکھنے والے  کچھ درد مند  لوگ جو غریبوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے، ٹوٹے پھوٹے درو دیوار، ٹیڑھی میڑھی گلیوں اور گندگی سے اَٹی ہوئی  نالیوںوالی ایک خستہ حال کچی بستی (ممبئی کی زبان میں  جھوپڑ پٹی ) کے ایک گھر میں جمع ہوئے جس کے صحن میں بیری کا ایک درخت تھا اور اس درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی چند عورتوں نے کہا کہ’’ ہم غریب ہیں لیکن غربت کے ہاتھوں ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ہم بھکاری نہیں۔ ہم بھیک نہیں مانگنا چاہتے۔ ہم کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔۔ ہمیں کچھ نہیں چاہیے بس دس بیس ہزار روپئے قرض پر ہی مل جائیں تو ہم خود یا ہمارے شوہر، بھائی یا بچے اپنا کاروبار شروع کر سکتے ہیں، میرا خاوند سبزی بیچ سکتا ہے۔ پھل کی ریڑھی لگا سکتا ہے۔ دہی بھلے کا ٹھیلا لگا سکتا ہے۔ موٹر سائکل کی مرمت اور پنکچر بنانے کا کام جانتا ہے۔ الکٹریشین، پلمبر، جوتوں کی مرمت، پلاسٹک کے کھلونے اور سلائی کی مشین کی مرمت وغیرہ وغیرہ۔۔ ان عورتوں نے ہمیں بیسیوں ایسے چھوٹے موٹے دھندے گنوا دیے جو  دس، بیس یا تیس ہزار روپئے سے شروع کیے جا سکتے ہیں۔

وہ دو اَفراد، جنہوں نے عورتوں کی یہ بپتا سنی تھی، نہایت شرمندگی کے ساتھ یہ سوچ رہے تھے کہ کیا ہم اتنی معمولی رقم بھی انہیں عزت سے روٹی کمانے کے لیے فراہم نہیں کر سکتے ؟ واپس آکر ان دونوں نے اپنے کچھ اور دوستوں کو جمع کر کے  انہیں یہ روداد سنائی جو وہ دیکھ اور سن کر آئے تھے۔ اور کچھ ہی دیر میں دو لاکھ روپئے جمع ہو چکے تھے !۔ انہوں نے واپس جاکر معمولی لکھا پڑھی کے ساتھ اُن تمام عورتوں کو دوبارہ جمع کر کے اُنہیں اُن کی مطلوبہ رقم بطورِقرض ِحسنہ پیش کردی۔ ان سب کے شوہروں، بھائیوں اور بچوں نے اپنے اپنے کاروبار شروع کیے اور ان کی زندگی بدلنے لگی۔۔ غربت اتنی بھی لا دوا نہیں۔۔ دکھ اتنے بھی بھاری نہیں۔۔ !

یہ تھا ’اخوت ‘ کا آغاز ! مواخات مدینہ کی روشن روایات کا اگلا قدم۔ کچھ لوگوں نے کچھ لوگوں کو اپنا بنایا اور کہا کہ تمہارے دکھ اب ہمارے ہیں اور ہماری خوشیوں میں اب تم بھی شریک ہو۔ ‘‘

اگر ہمارے یہاں بھی اخوت جیسے ادارے ہیں تو ان کی تفصیل، کارگزاری  اورنتائج بھی  لوگوں کے سامنے آنے چاہیئں ! ہمارا کالم ان کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔