ماں اک عظیم نعمت ِ پروردگار ہے!

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی

    دنیا میں مختلف تاریخوں میں ’’یوم ِ ماں ‘‘ منایا جاتا ہے ۔ہمارے ملک ہندوستان سمیت اکثر ممالک میں مئی کے دوسرے اتوار کو ہر سال ’’یوم ِ ماں ‘‘ mother’s dayمنانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس لحاظ سے 14مئی 2017ء اتوار کا دن عالمی ’’یوم ِماں ‘‘ ہوگا۔جس طرح دیگر ایام منانے کا روا ج مغرب میں اور اہل ِ مغرب میں پایا جاتا ہے اسی طرح یہ دن بھی اہل مغرب کا ایجاد کردہ ہے تاکہ اس ایک دن میں ماں کی تعظیم وتکریم کرکے اس کی قدر ومنزلت کے احساس کوتازہ کیا جاسکے ۔دنیا کو اپنی صنعت و حرفت اور نت نئی اختراع وایجاد سے چکاچوند کرنے والے اپنی زندگی کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور آسمان کی بلندی سے باتیں کرنے کے دعوے دار خود اپنے گھریلو نظام ِ زندگی کے حقیقی لطف وسکون سے محروم ہیں ،اس لئے دل کی تسکین اور وقتی احساس کے لئے ان لوگوں نے ہر کسی کے لئے ایک دن متعین کردیا اور بس اس دن میں ان کو یاد کیاجاتا ہے ،خراج ِ عقیدت پیش کیاجاتا ہے اور پھر دوسرے ہی دن سے ان کی تمام حقیقتوں اور عظمتوں کو فراموش کرکے دنیا کے ہنگاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔

 انسانی رشتوں میں سب سے مقدس اور محترم رشتہ ماں کا ہے ،اور یہ حقیقت ہے کہ والدین اور بالخصوص ماں کے مقام ومرتبہ کو جتنا اسلام نے اجاگر کیا ہے کسی اور مذہب نے نہیں کیا،اسلام میں دونوں ماں اور باپ کی اہمیت وعظمت کو خوب بیان کیا گیا مگر ہم اس وقت صرف ماں کا تذکرہ کریں گے۔ماں پر جتنا لکھا گیا ،کہاگیااتنا کسی اور رشتہ پر نہیں لکھا اور کہاگیا ہے ۔آیات واحادیث ،قصص وواقعات ،نظم ونثر ہر ایک میں ماں کی اہمیت وعظمت کو بیان کیا گیا۔اس کائنات میں اللہ کی سب سے عظیم نعمت ماں ہے ،ماں سے جہانِ رنگ وبو میں رونق اور دلکشی ہے ،زندگی میں لطف وبہار ماں کے وجود سے ہے ،ماں کے ذریعہ خوشیوں کی دنیا آباد ہے۔ماں محبت ،شفقت ،پیار والفت کی پیکر ِ بے مثال ہے ،ماں کے لب پر دعاؤں اور دل میں تمناؤں کا سیل ِ رواں ہوتا ہے ،خلوص ووفا کا مجسم اور ایثار وقربانی کا پیکر ہوتی ہے ۔ماں شجرسایہ دار ہے جہاں اولادکو سکون وراحت کی بیش بہا دولت نصیب ہوتی ہے۔ماں بے لوث اور بے غرض محبت کانام ہے ۔غرض یہ کہ ماں کی تعریف وتوصیف اور اس کے خوبیوں اورکمالات کو بیان کرنے میں زبان وقلم قاصر ہے۔توآئیے اس ضمن میں اسلام نے ماں کو کیا مقام ومرتبہ دیا ہے اور اس کی کیاشان ِ عظمت واہمیت بیان کی اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور وقتی تعظیم کے بجائے دائمی عزت واحترام کرنے والے حقوق سے آگہی حاصل کرتے ہیں ۔اگرچہ اسلامی تعلیمات میں اکثر مقامات پر ماں اور باپ دونوں کو شامل کرکے ہی مقام ومرتبہ کو بیان کیا گیا ہے لیکن بہت سی جگہوں پر تنہا ماں کے مقام ومرتبہ کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔

ماں کا مقام :

 ماں کے بلند وبالا مقام کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اولاد جب بھی رحمت کی نظر سے ماں باپ کو دیکھے تو ہر نظر کے عوض اللہ تعالی حج مقبول کا ثواب لکھ دیتے ہیں ،حضرات صحابہ نے عرض کیا: اگرچہ روزانہ سو مرتبہ نظرکرے؟آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں ۔اللہ تعالی بہت بڑا ہے وہ بہت زیادہ پاک ہے۔( شعب الایمان :7357)

ماں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم:

  قرآن کریم میں ماں کے مقام ومرتبہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا ،امایبلغن عند ک الکبر احدھما اوکلاھما فلا تقل لھما اف ولاتنھر ھما وقل لھما قولا کریما واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ وقل رب ارحمھما کماربینی صغیرا۔( نبی اسرائیل:23۔24)’’اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو،اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اُف تک نہ کہو،اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو۔اور ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آپ کو انکساری سے جھکاؤ،اور یہ دعا کروکہ ’’یارب!جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے پالاہے ،آپ بھی ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کیجیے۔‘‘ایک جگہ قرآ ن کریم میں فرمایاگیا:ووصیناالانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن وفصلہ فی عامین ان شکرلی ولوالدیک الی المصیر۔(لقمان:14)’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے بارے میں یہ تاکید کی ہے ___(کیوں کہ)اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری برداشت کرکے پیٹ میں رکھا،اور دوسال تک میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے____کہ تم میرا شکر اداکرو،اور اپنے ماں باپ کا۔میرے پاس ہی ( تمہیں ) لوٹ کر آنا ہے۔‘‘اور بھی بہت سی آیات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو بیان کیا گیا ہے۔

 نبی کریم ﷺ کے پاس ایک صاحب آئے اور انہوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے اوپر سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:’’امک ‘‘یعنی تیر ی ماں کا،قال ثم من ؟پھر پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ !اس کے بعد کس کا حق ہے؟قال : ’’ثم امک‘‘آپ ﷺنے فرمایا:تیری ماں کا ،قال ثم من ؟پھر انہوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ!اس کے بعد کس کا ہے؟قال :’’ثم امک‘‘آپ ﷺ نے پھر فرمایا:تیری ماں کا،قال : ثم من ؟پھر انہوں نے پوچھا کہ ا س کے بعد کس کا حق ہے؟قال : ’’ثم اباک ‘‘آپ ﷺ نے فرمایا :تیرے باپ کا۔( بخاری:5541)اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ ماں کے حق کو مقدم کرکے بیان فرمایااور چوتھی مرتبہ پوچھنے پر با پ کا حق بیان فرمایا۔کیوں کہ ماں اولاد کے لئے تین مرتبہ خاص طور پر مشقت اور تکلیف برداشت کرتی ہے ۔حمل کی،پیدائش کی اور دودھ پلانے کی ان تین مشقتوں کو ماں برداشت کرتی ہے۔حضرت کعب بن علقمہ سے روایت ہے کہ حضرت موسی ؑ نے عرض کیا کہ : اے رب! مجھے کوئی نصیحت فرمائیں ۔فرمایا:اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کر،کیوں کہ اس نے تجھے مشقت در مشقت میں اٹھایا۔انہوں نے فرمایا: پھر کون؟فرمایا: پھر اپنے باپ کے ساتھ۔( کتاب البروالصلۃ :72بیروت)

ماں کی خدمت کا حق ادا نہیں ہوگا!

اولاد چاہے جتنی بھی خدمت ماں کی کرلے لیکن پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کرسکتی ۔علامہ ابن جوزی ؒ نے اس سلسلہ میں بعض حکایات نقل کی ہیں ،جن میں دویہاں نقل کی جاتی ہیں :حضرت عمر ؓ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ جس نے اپنی ماں کو اٹھایا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا کہ:میں نے اپنی ماں کو اٹھارہاہوں اور یہ بھی مجھے اٹھایاکرتی تھی اور مجھے خالص دودھ پلایاکرتی تھی ۔حضرت عمر ؓ نے سن کر فرمایا:کبھی تم اس کی دردزہ کے دردوں میں سے ایک درد کا حق بھی ادانہیں کرسکتے۔اسی طرح ایک واقعہ یہ ہے کہ : عبد اللہ بن عبید اللہ بن عمیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عبید اللہ بن عمیر سے کہا میں نے اپنی ماں کو اپنی گردن پر خراسان سے اٹھایااور اس کو حج کے لئے لایا اور حج کروایا ہے ،کیامیں نے اپنی ماں کا بدلہ اتاردیا ہے ؟تو فرمایا: نہیں دردزہ کی ایک تکلیف کا بھی تونے حق ادا نہیں کیا ۔( کتاب البر والصلۃ:40)

ماں کی خدمت جہاد سے افضل ہے:

 ماں کی خدمت کرنا یہ سب سے بڑی سعادت ہے ،اسلام نے ماں کی موجودگی کو نعمت قراردیتے ہوئے اولاد کو سب سے پہلے ماں کی خدمت کرنے کا حکم دیا ۔چناں چہ ایک مرتبہ حضرت جاہمہ سلمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جہاد میں شریک ہونے کے لئے اجازت لینے آئے ،توآپ ﷺ نے پوچھا:کیا تیری والدہ ہے؟عرض کیا: جی ،فرمایا: پس اسی کی خدمت میں رہ ،کیوں کہ اس کے قدموں کے پاس جنت ہے۔( نسائی:3069)

ماں کی نافرمانی سوئے خاتمہ کا سبب ہوسکتی ہے؟

 ماں کی نافرمانی کس قدر سنگین نتائج اور خطرناک وبال کا ذریعہ ہوسکتی ہے اس کو اس واقعہ میں ملاحظہ فرمائیں :حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺکی خدمت میں آیا،اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ !یہاں ایک جوان ہے جو موت کی کشمکش میں مبتلا ہے اس کو کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے لیکن کلمہ اس کی زبان پر جاری نہیں ہوتا۔آپ ﷺ نے پوچھا : کیا اس نے زندگی میں یہ کلمہ نہیں پڑھا تھا؟کہا گیاپڑھاتھا ،پھر آپ ﷺ خود اٹھ کھڑ ے ہوئے اور اس جوان کے پاس پہنچے اور اس سے پوچھا کہ کیا تو کلمہ لاالہ الا اللہ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا؟اس نے کہاکہ کیسے رکھ سکتا ہوں کیوں کہ میں اپنی والدہ کا نافرمان ہوں ۔فرمایا کیا وہ زندہ ہے ،عرض کیا جی ہاں ۔آپ ﷺ نے ماں کو بلابھیجاپھر آپ ﷺ نے اس کی ماں سے پوچھا کہ تیراکیا خیال ہے کہ اگر آگ جلائی جائے اور تجھے کہا جائے کہ تونہیں مانتی تو ہم اس کو آگ میں ڈال دیں گے،تو اس نے کہا :پھر میں مان لوں گی ،تو آپﷺ نے فرمایا کہ توہماری موجودگی میں کہہ کہ میں ا س سے راضی ہوگئی تو وہ عورت اپنے بیٹے سے راضی ہوگئی اور نبی کریم ﷺ نے اس نوجوان کو کلمہ کی تلقین فرمائی اور اس کی زبان سے کلمہ جاری ہوگیا۔( شعب الایمان:7392)

 مغربی معاشرہ میں ماں کی زبوں حالی:

 بہت اختصار کے ساتھ ماں کی عظمت واہمیت سے متعلق چند آیات واحادیث نقل کی گئیں ہیں ۔اسلام نے جو ماں کو مقام دیا ہے اس کو ذکر کیا گیا ہے ۔اب آئیے ایک نظر اس معاشرہ کی طرف بھی ڈالتے ہیں جو ماں کے ساتھ اظہار ِ ہمدردی کے لئے دن تو مناتے ہیں لیکن زندگی میں ماں کو اس کا حقیقی مقام دینے لئے تیار نہیں ہے ،بلکہ وقتی اور عارضی طور پر اور دنیا کو دکھانے کے لئے جھوٹی محبت کا راگ الاپتے ہیں ۔چناں چہ ایک بہت ہی عبر ت آموز واقعہ جہاں دیدہ عالم دین وبزرگ مولانا ذوالفقار احمد صاحب بیان کرتے ہیں ،انہی کے الفاظ میں اس واقعہ کو ملاحظہ کیجیے :’’امریکہ کی ایک ریاست میں ایک ماں نے اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ کیا ۔وہ مقدمہ اخبارات کی زینت بھی بنا اور ٹی وی میں بھی اس کی تفصیل آئی ۔ماں نے مقدمہ یہ کیا کہ میرے بیٹے نے گھر میں کتا پالا ہوا ہے اور یہ روزانہ تین چار گھنٹے اس کتے کے ساتھ گزارتا ہے ،یہ اسے نہلاتا ہے ،اس کی ضروریات پوری کرتا ہے ،اس کو اپنے ساتھ ٹہلنے کے لئے بھی لے جاتا ہے ،وہ اپنے کتے کو روزانہ سیر بھی کرواتا ہے،اور کھلاتا پلاتا بھی ہے ۔میں اسی گھر کے دوسرے کمرے میں رہتی ہوں لیکن یہ میرے کمرے پانچ منٹ کے لئے بھی نہیں آتا ۔اس لئے عدالت کو چاہیے کہ وہ میرے بیٹے کو پابند کرے کہ وہ روزانہ ایک مرتبہ میرے کمرے میں آیا کرے۔جب دونوں کے وکیل جج کے سامنے پیش ہوئے تو جج نے مقدمہ کی سماعت کے بعد فیصلہ دیا کہ عدالت آپ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں پانچ منٹ کے لئے بھی آنے پر مجبور نہیں کرسکتی کیوں کہ مقامی قانون ہے کہ بچہ جب ۱۸ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو چاہے تو کچھ وقت دے یا بالکل علیحدگی اختیار کرلے۔رہی بات کتے کی تو کتے کے اس کے اوپر حقوق ہیں ،جن کو اداکرنا اس کی ذمہ داری ہے ۔البتہ اگر ماں کو تکلیف ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرے ،وہ اسے بوڑھوں کے گھر میں لے جائیں گے اور وہاں جاکر اس کی خبر گیری کریں گے۔‘‘

آخری بات:

 اسلام نے ماں کو بہت اونچا مقام ومرتبہ عطا کیا ہے ،ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ہمارے نبی ﷺ نے کس احترام وتقدس کو ماں کے لئے بیان کیا ہے۔اسلام نے انسانوں کو حقیقی تعلیمات کا لبادہ عطاکیا ،وقتی اور نمائشی زندگی کے بجائے دائمی وسچی طرزِ زندگی گزارنے کے اصول وآداب دئیے۔ماں جیسی عظیم ہستی کی تعظیم اور اس کی توقیر کے لئے صرف ایک دن کافی نہیں ہے بلکہ اگر ہم اپنی زندگیاں بھی لگادیں گے تب بھی ماں کا حق ادانہیں کرسکتے،ماں کی عظمت کے لئے ایک دن نہیں بلکہ پورا سال بھی ناکافی ہے اور پوری زندگی بھی اگر اس کی عظمت کو بیان کرنے اور اس کے ساتھ اچھابرتاؤ کرنے میں گزاردی جائی پھر بھی ادھوری ہی ہے ۔اس لئے ضرورت ہے کہ ماں کو اس کا صحیح مقام دیا جائے ،اسلام اور پیغمبر اسلام نے جن رفعتوں سے نوازا اور جو بلندیاں عطا کی اس کا ادراک کرتے ہوئے ماں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور اس کے حقوق کو اداکرنے کی فکر وکوشش کی جائے ۔

ماں خوش ہے تو رب خوش ہے ،ماں راضی ہے تو مالک راضی ہے ،ماں سے گھر میں اجالا ہے اور ماں ہی سے زندگیاں روشن ومنور ہیں ۔ قربِ قیامت رونماں ہونے والی بہت سی نشانیوں کو نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا ۔جن میں ایک نشانی یہ بھی ہے :اطاع الرجل زوجتہ وعق امہ ادنی صدیقہ واقصی اباہ۔( ترمذی:2141)کہ آدمی اپنی بیوی کی اطاعت کرے گا اور ماں کی نافرمانی کرے گا،دوست کو قریب کرے گا اور باپ کو دور کرے گا۔آنے والے خطرناک دور کی نبی کریمﷺ نے پیشن گوئی فرمادی ہے ،لہذا ہمیں بچنا چاہیے کہ کہیں ہم ماں کے ساتھ نافرمانی والامعاملہ کرکے علاماتِ قیامت کا حصہ تو نہیں بن رہے ہیں ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔