ماہر تعلیم: آفتاب عالم علیگ

خواجہ احمد حسین

درس و تدریس اور استاد کی اہمیت کا اس سے بہتر ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ شیخ سعدیؒ کو ایک معمولی سوال کا جواب بھنگی نے بتایا جس کا احسان شیخ سعدی ؒ زندگی بھر ڈھوتے رہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد نے بھی استاد کی اہمیت کا ذکر صحابہ سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس سے علم حاصل کرو اس کی عزت کرو۔ مذہب اسلام نے بھی نہ صرف علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے بلکہ اسے حاصل کرنا فرض قرار دیا۔ حضور ﷺبھی حصولِ علم کےلئے چین ملک کا ذکر کرکے ہمیں دعوت فکر دے ڈالا۔ ہمارے ملک ہندستان میں لگ بھگ 800 برسوں تک مسلمان بادشاہوں نے حکومت کی۔ اپنے دورِ حکومت میں انہوں نے عالیشان قلعے، محل، مسجدیں اور مقبرے تو بنوائے مگر درس گاہ قائم کرنے کے معاملے میں بخیل ثابت ہوئے۔ وجہ چاہے جو بھی رہی ہو؟ تعلیم سے غفلت برتنے کی سزا نہ صرف ان کو ملی بلکہ دوسری قوموں کے مقابلے رو بہ زوال ہوئے۔ بقول سر سید احمد خان:

 ”یہ علوم جدیدہ سے الگ رہنے کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو دیگر اقوام کا شکار بنا دیا ہے۔ ”ہم گر رہے ہیں “ وہ ترقی کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ نہ صرف انہوں نے ہماری دنیا پر قبضہ کر لیا ہے بلکہ اپنے علوم کے ذریعہ ہم کو ہماری دنیا سے متنفر کرنے کی طاقت کے مالک ہو گئے ہیں۔ “

 آزادی سے قبل سر سید احمد خان اور آزادی کے بعد مولانا آزاد اور وہ تمام مفکران ملت کا ہمیں احسان مند ہونا چاہئے جنہوں نے ملک کے کونے کونے میں مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لئے دینی اور عصری تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اسکول، مدرسے اور کالج قائم کئے۔ درس گاہوں کی چمک دمک اور تعلیمی معیار کا دارومدار فعال اور دیانت دار پرنسپل / ہیڈ ماسٹر پر منحصر ہے۔

 آیئے آپ کو مغربی بنگال کے ایک نامور اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے تعارف کرائیں۔ آپ ہیں مغربی بنگال اردو میڈیم ایسو سی ایشن کے صدر اور شب پور ہوڑہ، پی ایم بستی ہوڑہ ہائی اسکول (ایچ ایس) کے ہیڈ ماسٹر آفتاب عالم (علیگ)۔ آپ کی پیدائش اور تعلیم و تربیت شب پور ہوڑہ کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی۔ آپ کے والد بزرگ مرحوم الحاج محمد طحہٰ اپنے زمانے کے معروف ملی و سماجی خدمت گار تھے۔ علم کے اس شیدائی نے اپنے لائق و فائق صاحبزادے کو ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ روانہ کر دیا۔ انہوں نے بھی والدین کی خواہش کا پورا خیال رکھا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ گھریلو ذمہ داریوں نے گھر واپس آنے پر مجبور کر دیا۔ اگر وہ علی گڑھ کے ہی ہو کر رہ جاتے تو شاید آج وہ اس یونیورسٹی کے پروفیسر ہوتے۔ مگر مولیٰ کو تو ان سے کچھ اور ہی کام لینا تھا۔ بغیر کسی سفارش اپنی صلاحیت کی بنا کلکتہ کے تاریخی مومن ہائی اسکول کے استاد مقرر ہوئے۔

دورانِ ملازمت ہیڈ ماسٹر کے عہدے کے لئے امتحان دیا اور کامیاب ہوئے اور 2006ءمیں ہوڑہ شب پور کے ہوڑہ ہائی اسکول میں بحیثیت ہیڈ ماسٹر اعلیٰ عہدے پہ فائز ہوئے۔ان کے قدم پڑتے ہی اسکول کی قسمت چمک اٹھی۔ اسکول کو ایچ ایس کا درجہ ملا۔ اسکول کے ایک سینئر استاد رمضان علی کو حکومت مغربی بنگال سے سکھارتن ایوارڈ ملا۔ 2017ءمیں اسکول کی ایک طالبہ ثنا اقبال نے کل 660 مارکس حاصل کرکے پورے مغربی بنگال کے اردو اسکول میں اول مقام حاصل کیا۔ اسی برس ٹائمز آف انڈیا کے سروے کے مطابق پورے ہوڑہ ضلع کے اسکولوں میں اسکول کو 8 واں مقام حاصل ہوا۔ اسی سال مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے بھی اسکول کو خدمت علم و ادب کے ایوارڈ سے سر فراز کیا۔ سلسلہ یہیں رکا نہیں 2018ءکا مدھیامک نتیجہ بھی سو فیصد رہا اور 2018ءہائر سکنڈری امتحان میں اسکول نے پورے مغربی بنگال کے اردو میڈیم میں اول مقام حاصل کیا اور اسکول کی طالبہ نشاط منیر 486 مارکس حاصل کرکے نہ صرف اول بلکہ سرکاری انعام کی مستحق ہوئیں۔ ان ساری کامیابیوں کا سہرا آفتاب عالم صاحب کے سر ہی جاتا ہے۔ وجہ اسکول کی پڑھائی اور نظم و ضبط ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اسکول کی شاندار جدید ترین عمارت، بائیولوجی، کیمسٹری، فیزکس، جغرافیہ کی لیباٹری کے علاوہ خوبصورت پروگرام ہال، جدید ٹیکنا لوجی کے ساتھ ICT کمپیوٹر ایجوکشن، یہی وجہ ہے کہ آج ہوڑہ کے گارجین اور طلباءو طالبات کی ہوڑہ ہائی اسکول پہلی پسند ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کلکتہ میں فیروز عابد ہیڈ ماسٹر اور ہوڑہ میں مشتاق احمد ہیڈ ماسٹر کے کافی چرچے تھے۔

حکومت مغربی بنگال کے محکمہ تعلیم میں بھی دونوں حضرات کی کافی اچھی پکڑ تھی۔ ان دونوں کی سبکدوشی کے بعد ایک خلاءپیدا ہوا مگر اللہ کا کرم ہے کہ محترم آفتاب عالم نے اس کمی کو پورا کرنے کی پوری سعی کی ہے اور بہت حد تک کامیاب بھی ہیں۔ اردو اسکولوں کے طلباءاور اساتذہ کے مسائل کو لے کر ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔ ہوڑہ ضلع کے کئی اردو اسکولوں کو سکنڈری درجہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال اردو اکاڈمی ہو یا محکمہ تعلیم، ان کے اعلیٰ عہدہ دار ان کی خدمات حاصل کرکے مشورہ طلب کرتے ہیں۔ اخلاق حسنہ اور فروغ تعلیم کا یہ علمبردار اور سماجی خدمت گار آفتاب عالم (علیگ) کم گو، مخلص اور نیک صفت ہونے کے علاوہ صوم و صلوة کے بھی پابند ہیں دینی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی غیبی مدد بھی ان کو حاصل ہے۔ آفتاب عالم صاحب جغرافیہ کے متعدد نصابی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ تنقید کی پرواہ کئے بغیر وہ اپنے اساتذہ اور مقامی افراد کے تعاون سے راہ خدمتِ خلق میں اپنی دھن میں آگے بڑھتے ہی جا رہے ہیں یہ گنگناتے ہوئے

ہر رہ گزر پہ شمع جلانا ہے میرا کام 

تیور ہے کیا ہوا کہ یہ میں دیکھتا نہیں

اُردو طلباءو طالبات کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا ان کا مشن ہے۔ وہ اپنے شاگردوں اور اساتذہ کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ پیغام ہے کہ ”ایسی خوشی سے سے بچو۔جو دوسروں کو دکھ دینے سے حاصل ہوتی ہو۔ “ثانیِ سر سید ماہر تعلیم آفتاب عالم (علیگ) نہ صرف ہوڑہ بلکہ مغربی بنگال کا ایک ہردلعزیز روشن ستارہ ہیں۔ پرور دگار انہیں نظرِ بد سے بچائے رکھے۔ آمین۔ مجھے یقین ہے اور میری یہ دعا بھی ہے کہ

”جہاں بھی جائے گا روشنی لٹائے گا “

تبصرے بند ہیں۔