ماہنامہ رہنمائے تعلیم

سہیل انجم

اردو کے ادبی رسائل و جرائد کی تاریخ میں ماہنامہ رہنمائے تعلیم نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ اس نے نہ صرف ایک صدی سے زائد کی عمر پائی بلکہ اب بھی مسلسل اور بلا ناغہ شائع ہو رہا ہے۔ اس کی اشاعت 113 ویں سال میں داخل ہو گئی ہے اور غالباً یہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس کا تازہ ترین شمارہ (جون 2017) اس کے بانی ایڈیٹر سردار جگت سنگھ اور ان کے بیٹے سردار ہر بھجن سنگھ تھاپر کی خدمات پر مشتمل ہے۔ سردار جگت سنگھ ایک اسکول ٹیچر تھے۔ انھوں نے اسے 1905 میں پنڈی کھیپ (موجودہ پاکستان) سے جاری کیا تھا۔ چونکہ وہ ایک اسکول ٹیچر تھے اس لیے انھوں نے اسی مناسبت سے اس رسالے کا نام رہنمائے تعلیم رکھا۔ لیکن یہ تصور کرنا کہ یہ صرف تعلیم کے فروغ کے لیے جاری ہوا تھا غلط ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ آگے چل کر یہ ایک ادبی رسالے میں تبدیل ہو گیا اور اس کی سرپرستی تاج الشعرا، فصیح العصر، ناخدائے سخن حضرت نوح ناروی جانشین حضرت داغ فرماتے رہے اور اس کے قلمی معاونین میں ابوالفصاحت پنڈت لبھور ام جوش ملسیانی، شیخ محمد اسمعیل پانی پتی، طالب چکوالی، بسمل الہ آبادی، صوفی غلام مصطفی تبسم، اندر جیت شرما، عشرت لکھنوی، جگن ناتھ آزاد، ابر احسنی گنوری، کالی داس گپتا رضا، لالہ رتن پنڈوری، کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر، احتشام اختر، ایس ڈی شوق جالندھری، وشو ناتھ طاوس اور نرمل سنگھ نرمل وغیرہ شامل رہے ہیں۔ حصہ نظم کی ادارت جوش ملسیانی اور حصہ نثر کی ادارت شیخ محمد اسمعیل پانی پتی فرماتے رہے۔

 عبد المجید کھوکھر لائبریری گوجرانوالا پاکستان کے ڈائرکٹر ضیاء اللہ کھوکھر اپنی کتاب ’’بچوں کی صحافت کے سو سال‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’رہنمائے تعلیم کا آغاز  1905  میں پنڈی کھیپ سے ہوا۔ ماسٹر جگت سنگھ نے اس کا پہلا شمارہ انتہائی افلاس و بے سرو سامانی اور کسمپرسی کی حالت میں شائع کیا۔ وسائل کی بے حدکمی تھی اور ان کی تنخواہ صرف بیس روپے ماہوار تھی۔ ماسٹر صاحب تمام مضامین خود لکھتے اور اسکول سے فراغت کے بعد ان کا تمام وقت رسالے کی اشاعت اور فروخت کی نذر ہو جاتا‘‘۔

ماسٹر جگت سنگھ کا گاؤں لاہور سے خاصے فاصلے پر تھا۔ ہر ماہ رسالے کی طباعت کے لیے انھیں لاہور کا سفر کرنا پڑتا۔ دو سال کے بعد ان کا تبادلہ لاہور کے سینٹرل ماڈل ہائی اسکول میں ہو گیا۔ لہٰذا فروری 1907 سے یہ رسالہ لاہور سے نکلنے لگا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ماسٹر جگت سنگھ کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے اردو کو اپنے خیالات، احساسات او ررجحانات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس رسالے نے ابتدا میں ہی اہل علم و دانش کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی تھی۔ اس کے مداحوں میں وزیر تعلیم سر فیروز خان نون، مہاراجہ سرکشن پرشاد شاد، ہردیال چوپڑہ انسپکٹر مدارس گجرات اور سوڈھی جگت سنگھ انسپکٹر مدارس امرتسر اور علامہ اقبال شامل رہے ہیں۔ یہ رسالہ حکومت پنجاب کو اس قدر پسند آیا کہ اس نے اسے تمام اسکولوں کے لیے منظور کر لیا تھا۔ ایک طرف جہاں شعرا و ادبا میں اسے مقبولیت حاصل تھی وہیں دوسری طرف محکمہ تعلیم نے بھی اس کی ہمت افزائی کی۔ راولپنڈی کے ڈویژنل انسپکٹر آف اسکولس خواجہ سجاد حسین نے اس کی کافی مدد کی۔ صوبہ پنجاب کے ڈائرکٹر تعلیمات مسٹر ڈبلیو بیل نے رسالے کو اپنے نام سے معنون کرنے کی اجازت دے دی۔ جے سی گاڈلے ڈائرکٹر تعلیمات نے پنجاب کے تمام اسکولوں کے ہیڈ ماسٹروں کو رسالہ کی خریداری کے لیے سرکولر بھیجا۔ پنجاب ٹیکسٹ بک کمپنی رسالہ رہنمائے تعلیم کے خصوصی نمبروں کی کبھی ہزار کبھی پانچ سو کاپیاں خرید لیتی۔

اس رسالہ کے بارے میں سیفی پریمی لکھتے ہیں :

’’جب رسالہ کو پنڈی کھیپ سے لاہور منتقل کیا گیا تو یہ معمولی لکھائی چھپائی اور معمولی کاغذ کے ساتھ 32 صفحات پر نکلتا تھا۔ جگت سنگھ کو رسالہ سے عشق تھا۔ وہ دو تین بجے رات ہی میں اٹھ کر رسالہ کی ڈاک دیکھنے اور مضامین کا کام شروع کر دیتے تھے۔ ناشتہ کے بعد اسکول جاتے اور شام کو کاتب کے پاس جا کر رسالہ کی کتابت یا پریس میں پروف اور چھپائی وغیرہ کی دیکھ بھال کرتے۔ وہ رسالہ کے تمام کام خو دانجام دیتے تھے۔ ٹکٹ چسپاں کرنا، پتے لکھنا، پیکٹ بنانا، پھر ڈاکخانہ جا کر خریداروں اور اعزازی معاونین کو رسالہ روانہ کرنا، ہر کام خود کرتے تھے‘‘۔

امر ناتھ طیش کے مطابق اس رسالہ کے قلمی معاونین کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ جب اس سلسلے میں انھوں نے ماسٹر جگت سنگھ سے بات کی تو انھوں نے کہا:

’’میں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ رہنمائے تعلیم معاوضہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اگر یہ خود کفیل بھی ہو سکے تو وہی کافی سے زیادہ معاوضہ ہوگا۔ میں جو دن رات اس کے لیے کام کرتا ہوں مجھ کو ذوقِ ادب کی سیرابی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہے تو مضامین نگار کی نذر کرنے کو کچھ کہاں سے لاؤں۔ میں اگر کچھ ہوں تو ایک ادبی مزدور سے زیادہ کچھ نہیں ہوں۔ اس مزدوری میں مجھے وہ لطف حاصل ہوتا ہے کہ لوگ میرے ذوق کو پاگل پن تک کہہ دیتے ہیں اور رہنمائے تعلیم کے ضخیم اور خاص نمبروں کو جگت سنگھ کی ادبی عیاشیاں پکارتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رہنمائے تعلیم کے سنہری دور کا سہرا میرے ان دوستوں کے سر ہے جو میری صدق دلی کے لیے رہنمائے تعلیم کو چار چاند لگانے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور رہنمائے تعلیم جو کچھ ہے ان دوستوں کی وجہ سے ہی ہے‘‘۔

ماسٹر جگت سنگھ اس رسالہ کے ذریعے بچوں کی تعلیمی و تہذیبی تربیت بھی کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے اگست 1922 سے رسالے میں گوشہ اطفال کے نام سے ضمیمہ شائع کرنا شروع کر دیا جو 16 صفحات پر مشتمل ہوتا۔ رسالے کا پہلا شمارہ 32 صفحات پر مشتمل تھا۔ پھر 90صفحات ہو گئے اور بعد میں اس کے صفحات کی تعداد 200 ہو گئی تھی۔ بعض شماروں کے آخر میں گورمکھی اور ہندی میں بھی مضامین ہیں۔ گویا یہ کبھی کبھی سہ لسانی بھی شائع ہوا کرتا تھا۔

رہنمائے تعلیم 1947 تک لاہور سے نکلتا رہا۔ تقسیم ملک کے وقت ماسٹر جگت سنگھ ہجرت کرکے ہندوستان آگئے اور انھوں نے دہلی کو اپنا وطن ثانی بنایا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تقسیم کے پرآشوب ہنگامے میں بھی اس کا ایک بھی شمارہ ناغہ نہیں ہوا۔ لاہور میں ان کا چار منزلہ نہایت شاندار مکان تھا۔ جس میں تیس کمرے تھے اور ساٹھ بستر مہمانوں کے لیے وقف تھے۔ وہ 1938 میں مدرسی کے پیشے سے ریٹائر ہوئے اور ماسٹر کے لقب سے مشہور ہوئے۔ لیکن جب وہ دہلی آئے تو یہاں بے سروسامانی کا عالم تھا اور ان کی رہائش کا کوئی بند و بست نہیں تھا۔ لیکن انھیں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رہائش کا بند و بست کرنے سے زیادہ رسالے کو جاری رکھنے کی فکر تھی۔ لہٰذا انھوں نے کسی طرح اس کے تسلسل کو قائم رکھا اور اگست اور ستمبر 1947 کا مشترکہ شمارہ شائع کیا۔ دہلی آنے کے بعد بھی ان کی دیوانگی کم نہیں ہوئی اور وہ پابندی کے ساتھ اسے نکالتے رہے۔ ماسٹر جگت سنگھ کا انتقال 1962 میں ہوا۔

اس کے بعد ان کے لائق و فائق فرزند سردار ہر بھجن سنگھ تھاپر نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی اور اسے اپنے والد کا ورثہ سمجھ کر نکالتے رہے۔ انھوں نے بھی اس کے سلسلہ اشاعت میں کوئی رخنہ نہیں آنے دیا۔ باپ کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے انھوں نے رہنمائے تعلیم کی اشاعت کو صدی سال میں داخل کر دیا۔ اس طرح انھوں نے ستمبر 2005 میں اس کا صدی نمبر نکالا۔ گو یا وہ 43  برسوں تک محض اپنے جوش جنوں کے سہارے اسے نکالتے رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے انھیں صدی سال تک اس رسالے کو پہنچانے کے لیے ہی زندہ رکھا تھا۔ صدی نمبر نکالنے کے بعد سات جون 2006 کو تھاپر صاحب اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ تھاپر صاحب کی خواہش تھی کہ رہنمائے تعلیم کا صد سالہ جشن دھوم دھام سے منایا جائے۔ اس سلسلے میں بزرگ قلمکار اور محب اردو رام پرکاش کپور نے اردو تنظیموں، اداروں اور شخصیات سے اپیل بھی کی تھی۔ لیکن کسی نے دست تعاون نہیں بڑھایا۔ صدی تقریب کے انعقاد کی راہ میں اہل اردو کی بے اعتنائی حائل رہی اور بالآخر تھاپر صاحب نے مایوسی کے عالم میں 396 صفحات پر مشتمل صدی نمبر شائع کر دیا اور اپنے طور پر ہی اسے لوگوں میں تقسیم کر دیا۔

 اس خصوصی شمارے میں ماسٹر جگت سنگھ کی تصویر کے علاوہ جگن ناتھ آزاد، جوش ملسیانی، ابر احسنی گنوری، کالی داس گپتا رضا، لالہ رتن پنڈوری، مہیندر سنگھ بیدی سحر، احتشام اختر، ایس ڈی شوق جالندھری، نرمل سنگھ نرمل اور ابو نعمان سمیت متعدد ایسے لوگوں کی بھی تصویریں شامل اشاعت ہیں جو رسالہ کے خادم رہے ہیں یا اس وقت تک جن کا قلمی تعلق اس رسالہ سے تھا۔ مولانا آزاد کا پیغام بھی اس میں شامل ہے۔ صدی شمارے میں مضامین کا انتخاب اس انداز سے کیا گیا ہے کہ قارئین کو اس کی پوری تاریخ کا علم ہو جاتا ہے۔ مگر اس کے لیے اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے گریز کیا گیا ہے۔ البتہ رہنمائے تعلیم آف لاہور اور دہلی کی پرانی فائلیں کھنگالی گئی ہیں اور ان میں سے مضامین کا انتخاب کر کے صدی نمبر کو مؤقر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جن لوگوں کی نگارشات اور مضامین شامل اشاعت ہیں ان میں ماسٹر جگت سنگھ، پنڈت دتا تریا کیفی، نوح ناروی، شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی، عرش ملسیانی، گوپی ناتھ امن، شباب للت، طالب دہلوی، جگن ناتھ آزاد، نذیر فتح پوری، صوفی غلام مصطفی تبسم، رام پرکاش کپور، دل شاہجہاں پوری، طالب کاشمیری، ابرا حسنی گنوری، کالی داس گپتا رضا، قاضی مشتاق احمد،کوثر چاند پوری اور بیکل اتساہی قابل ذکر ہیں۔ رام پرکاش کپور کا مضمون ’’ کیا اردو ہندوستان میں صرف مسلمانوں کی زبان ہے‘‘ ماسٹر جگت سنگھ کا مضمون ’’ اردو کی اہمیت، ضرورت اور اس کا مستقبل‘‘، نظیر اکبر آبادی ایک باز یافت ( محمد اختر) مدرسہ (تبسم)، ہمارے بچوں کی تعلیم کیسی ہو ( پروفیسر بی شیخ علی)، علامہ اقبال حصار نقد سے باہر ( ظہیر غازی پوری)،اقبال اور پیکر تراشی ( ڈاکٹر شریف احمد قریشی رامپور)، پروفیسر جگن ناتھ آزاد سے تحریری مکالمہ ( نذیر فتح پوری ) وغیرہ قابل مطالعہ مضامین ہیں۔ ادبی، تنقیدی اور اصلاحی مضامین کی تعداد خاصی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا شعری حصہ بھی بہت مؤقر ہے۔ نامی گرامی شعرا اس مجلس میں نظر آتے ہیں۔ آخر میں افسانے بھی شامل کیے گئے ہیں اور شروع میں متعدد شخصیات کے پیغامات دیے گئے ہیں۔

موجودہ دور کے قلمکاروں کی تعداد کم ہے۔ شاید ایسا اس لیے کیاگیا ہے کہ اس دور کے لوگوں کو تو لوگ پڑھتے ہی رہتے ہیں۔ اگر ماضی کے قلمکاروں کے شہ پاروں کا بھی مطالعہ کر لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اسی خیال کے تحت قدیم مضامین شامل اشاعت ہیں اور ایسا کر کے ایک بڑا کام کیا گیا ہے۔ اس میں مئی 1971 سے لے کر ستمبر 1981 تک کے بعض طرحی مشاعروں میں پڑھی جانے والی غزلیں بھی شامل کر دی گئی ہیں۔ اس طرح یہ رسالہ ہر اعتبار سے قابل قدر ہے اور لائق مبارک باد ہیں سردار ہر بھجن سنگھ تھا جنھوں نے پیرانہ سالی میں بھی جوانوں سے زیادہ عزم کا مظاہرہ کیا اور اردو پر اپنا سب کچھ یہاں تک کہ اپنی زندگی بھی نچھاور کر دی۔ کاش ایسے لوگوں کی دل کھول کر پذیرائی ہوتی اور اردووالے ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے۔

صدی شمارہ سے قبل رہنمائے تعلیم نے دیگر متعدد اور قابل قدر خصوصی شمارے شائع کیے تھے۔ اس کے خصوصی نمبر خاصے کی چیز ہوا کرتے تھے۔ ستمبر 1914 میں اس کا ڈسٹرکٹ انسپکٹر نمبر شائع ہوا تھا۔ 270 صفحات پر مشتمل اس نمبر میں 22 ڈسٹرکٹ انسپکٹروں نے اپنے اپنے اضلاع کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیا تھا۔ 1931 میں اس کا جوبلی نمبر شائع ہوا جس میں تعلیم، ادب، زراعت اور صنعت و تجارت کے موضوعات پر 148 مضامین تھے۔ 728 صفحات پر مشتمل اس ضخیم نمبر کی قیمت صرف ڈھائی روپے تھی۔ اس میں نظم و نثر کے بہترین نمونے یکجا کیے گئے تھے۔ یہ ایک ہمہ گیر نمبر تھا جس کے قلمی معاونین میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سبھی شامل تھے۔ اس کے ابتدائی آٹھ صفحات سرخ اور سبز روشنائی سے طبع ہوئے تھے۔ اس میں پنجاب کے سررشتہ تعلیم سرتاج ملک فیروز خان نون نے خاص طور پر اپنا پیغام مع تصویر دیا تھا۔ اس کے ابتدائی صفحات میں نوح ناروی کی ایک طویل نظم شائع ہوئی تھی۔ جوش ملسیانی نے چار مصرعوں میں اس کا قطع تاریخ کہا تھا۔

جنوری فروری 1934 کا شمارہ فسانہ نمبر تھا۔ 470 صفحات پر مشتمل اس خاص شمارے کو شیخ محمد اسمعیل پانی پتی نے مرتب کیا تھا۔ یہ شمارہ نوح ناروی کی زیر نگرانی شائع ہوا تھا۔ اس کی قیمت دو روپے تھی۔ اس میں 109 افسانے تھے۔ غزلیں اور نظمیں بھی تھیں۔ اس کے قلمی معاونین میں شوکت تھانوی، اشفاق حسین، کوثر چاند پوری، عرش ملسیانی، منشی پریم چند، مظہر انصاری، مرزا یگانہ چنگیزی، کرپال سنگھ بیدار، اندرجیت شرما، پنڈت شیو ناتھ کوشک، شاکر گوالیاری اور امین سلونوی وغیرہ شامل رہے ہیں۔

اس کے علاوہ 1935 میں ریڈ کراس نمبر، 1937 میں تعلیم جدید نمبر، 1939 میں کگھڑ کانفرنس نمبر، 1948 میں گاندھی نمبر حصہ اول اور اکتوبر میں گاندھی نمبر حصہ دوم، جنوری 1950 میں انسانیت نمبر، جنوری 1951 میں معلوماتی نمبر، اکتوبر 1951 میں تعلیمی کانفرنس ضلع گورداس نمبر، 1954 میں فلم نمبر اور 1955 میں رہنمائے تعلیم کا کشمیر نمبر شائع ہوا تھا۔

رسالہ رہنمائے تعلیم کی ایک شاندار روایت رہی ہے جس کا اعتراف اردو کے انتہائی جید قلمکاروں، شاعروں اور ادیبوں نے کیا ہے جن میں ڈاکٹر محمد اقبال، صوفی غلام مصطفی تبسم،ناخدائے سخن نوح ناروی، جوش ملسیانی، ملا رموزی، عبد الرؤف عشرت اور بیشتر وزرا اور سیاستداں نیز انگریزی روز نامہ مسلم آؤٹ لک لاہور، زمانہ کانپور، زمیندار لاہور، معارف، خواجہ حسن نظامی اور دیگر بے شمار ادباء شعرا علماء و فضلاء شامل ہیں۔ مجاہدِ آزادی اور ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی 1948 میں اس رسالہ کی تعریف و ستائش کی تھی۔

ماسٹر جگت سنگھ نے اگست 1948 میں شائع گاندھی نمبر میں بڑا دلسوز اداریہ تحریر کیا ہے۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

’’تقسیم ملک نے ایسے انقلاب دکھائے کہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ لاکھوں بندگان خدا بے سروسامانی کے عالم میں بے وطن ہو گئے۔ ایسے حالات ہوتے ہوئے بھی میں نے فیصلہ کیا کہ گاندھی جی کی یاد میں رہنمائے تعلیم کا ایک خاص نمبر شائع کروں۔ سرمایہ لٹ چکا، جائداد جاتی رہی، لائبریری نہ رہی۔ پڑھنے کو کتاب تک نہیں، اپنے رسالے کی فائل نہیں۔ 45 برس جو خدمت کی اس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ میرا بڑھاپا سر پر ہے۔ عزیزی راجندر سنگھ کی ہولناک علالت، زیرباری سے دبی ہوئی کمر، ہمت سرے سے مفقود۔ ایسے میں یہ ارادہ ایک جنون نہیں تو کیا ہے۔ سوچا تجارت کے دن تو جاتے رہے۔ امید کا دامن تو کبھی چھوڑا ہی نہیں۔ عزیزی ہربھجن سنگھ کو دیکھتا ہوں تو سینے پر سانپ لوٹ جاتا ہے۔ ناز و نعم میں پلا ہوا لخت جگر دھوپ میں مارا مارا پھرتا ہے۔ کبھی کاتب کی تلاش ہے، کبھی مضمون نگاروں کی ناز برداریاں، کبھی مطبع کا رخ ہے، کبھی اشتہار کے لیے تگ و دو۔ زندگی ایک جنگ بن گئی ہے۔ اس بیٹے کی ہمت کے صدقے کہ اس نے میری ہمت بندھائی۔ مضمون نگاروں سے مراسلت کا سلسلہ بھی منقطع ہو چکا ہے۔ اسی عالم میں اپنے ارادے کو سنبھالا، مضبوط کیا اور عمل میں لانے کے لیے کمربستہ ہو گیا‘‘۔

ماسٹر جگت سنگھ رسالہ کو انتہائی متنوع بنانے کی کوشش ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔ اس میں کتابوں اور رسالوں پر تبصرے بھی شائع کیے جاتے رہے ہیں۔ اکتوبر 1950 کے شمارے میں رسالہ آجکل کے سالنامہ 1950 پر تبصرہ کیا گیا ہے:

’’یہ سالنامہ اپنے دلکش مضامین نظم و نثر، اپنی دیدہ زیب تصاویر، اپنے رنگین سرورق اور اپنے اہتمام کتابت و طباعت کے لحاظ سے نہایت قابل قدر چیز ہے۔ شروع میں ’پند نامہ‘ کے عنوان سے حضرت جوش ملیح آبادی کی طویل نظم ان کی پر گوئی اور قدرت بیان کا مکمل نمونہ ہے۔ نظم ’برسات آئی‘ بھی جو فضا ابن فیضی کے فکر بلیغ کا نتیجہ ہے بہت قابل قدر ہے۔ فائز دہلوی پر جناب مسعود حسن رضوی کا مضمون تاریخی حیثیت کا ہے۔ اردو نظم کی تاریخ میں یہ تحقیقی مضمون جس میں فائز صاحب کی تصویر اور ان کی تحریروں کے عکس بھی شامل ہیں فی الواقع اس قابل ہے کہ فاضل مصنف کی اس کاوش کو نمایاں طور پر سراہا جائے۔ ’ذکر میر‘ یہ دوسرا ادبی مضمون ہے جو اس سالنامہ کی زینت کا موجب ہے۔ دیویندر ستیارتھی اور اوپندر ناتھ اشک کے افسانے بلند پایہ حیثیت کے ہیں۔ آخر میں کئی صفحے بچوں کے لیے ہیں۔ سادگی کے باوجود یہ بھی ایسے ہی دلکش ہیں۔ مختصر یہ کہ سالنامہ ہر لحاظ اور ہر پہلو سے قابل ستائش ہے۔ ادارہ کو ایسے بلند پایہ سالنامہ کی اشاعت پر جس قدر مبارکباد دی جائے کم ہے‘‘۔

اسی شمارے میں پرشوتم دیال ماتھر کا مضمون ’’ہندوستان کی مشترکہ زبان‘‘ قابل مطالعہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’…اردو اور ہندی کے گہرے تعلق کے باوجود نہ جانے کیوں طرفدارانِ ہندی اردو کے مشترکہ زبان بننے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ مگر وہ دن دور نہیں جب یہی مخالفین اردو کی حمایت کریں گے۔ وہ زبان جو کہ پٹنہ سے لے کر پشاور تک سارے شمالی و جنوبی ہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جو اس وقت کم و بیش ہندوستان کی قومی زبان ہے، جو کہ شہروں میں، اضلاع میں، سول و فوجی مرکزوں میں، بازاروں میں ارو سرکاری دفتروں میں ہر کہیں بولی سمجھی جاتی ہے، وہ زبان جس کو تعلیم یافتہ حکام و ملازم بولتے ہیں، وہ زبان جو کہ ہندوستان میں اتنی اہمیت رکھتی ہے جتنی کہ انگلستان میں انگریزی، کیوں نہ ہند کی مشترکہ زبان قرار دے دی جائے‘‘۔

اکتوبر 1962 کے شمارے میں اداریے میں اردو پر ایک مختصر نوٹ ہے جو اتر پردیش کے وزیر اعلی بنارسی داس گپتا کو امریکہ سے مولانا حفظ الرحمن کے خط کے حوالے سے ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ مناسب اور ضروری ہے کہ اردو والے بالخصوص اردو کے ٹھیکیدار اصحاب ہوش میں آئیں اور سچے دل اور نیک نیتی سے اردو کے مسئلے کو ہاتھ میں لیں۔ جبکہ ملک کے بڑے بڑے لیڈر، نامور اور برگزیدہ ہستیوں کی ہمدردیاں انھیں حاصل ہیں۔ فقط انجمنوں کی رودادیں شائع کر دینے سے کچھ نہیں بنے گا۔ ان کا فرض ہے کہ مولانا صاحب کی بتائی ہوئی راہوں پر چلنے کی کوشش کریں۔ اپریل 1949 کے شمارے میں منشی ہنس راج رام نگری کا مضمون ’’ادبی تعصب: کیا تقسیم ہند کے بعد اردو میں کیڑے پڑ گئے ہیں ‘‘ قابل مطالعہ ہے جس میں اردو مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔ رہنمائے تعلیم میں صرف ادبی اور اردو زبان کے تعلق سے ہی مضامین شائع نہیں ہوتے تھے بلکہ اس میں ڈرامے، سماجی اصلاح کے مضامین، غزلیں، نظمیں اور دیگر موضوعات پر بھی کھل کر اور بے لاگ انداز میں لکھا جاتا رہا ہے۔ حقیقی معنوں میں ماسٹر جگت سنگھ نے اسے ایک متنوع رسالہ بنایا تھا۔

روزنامہ قومی آواز کے سابق کاتب ابو نعمان 1968 میں سردار ہربھجن سنگھ تھاپر کے رابطے میں آئے۔ اس وقت یہ رسالہ تراہا بہرام خاں، دریاگنج سے نکل رہا تھا۔ بعد میں یہ روہنی چلا گیا۔ ابو نعمان اسی سال سے اس رسالے کی کتابت کرنے لگے۔ غالباً 1992 میں ان کی کوششوں سے اس کی کمپیوٹر کتابت ہونے لگی۔ لیکن تھاپر صاحب نے انھیں اپنی خدمات سے فارغ نہیں کیا۔ بلکہ کمپوزنگ کرانے کی ذمہ داری ان کو سونپ دی۔ وہ رات میں نو بجے قومی آواز سے ڈیوٹی ختم کرکے تھاپر صاحب کے گھر یا کمپوٹر آپریٹر کے پاس جاتے اور اس طرح وہ اسے تیار کراتے۔ تھاپر صاحب کے خاندان نے ان کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ تھاپر صاحب کے انتقال کے بعد جب ان کے بیٹوں نے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا تو ابو نعمان سامنے آگئے۔ انھوں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے نکالتے رہے۔ انھوں نے 2007 میں ایک قانونی مجبوری کے تحت اس کے نام کے ساتھ جدید کا لاحقہ لگایا اور اب اسے ’’رہنمائے تعلیم جدید‘‘ کے نام سے پابندی کے ساتھ اور بلا ناغہ نکال رہے ہیں۔ ماسٹر جگت سنگھ کی مانند وہ بھی اس کا تمام کام خود کرتے ہیں۔

1973 میں ابر احسنی گنوری کے انتقال کے بعد اس کے عملی مدیر تسخیر فہمی بنائے گئے۔ جبکہ معاون مدیر معروف شاعر قمر سنبھلی کو مقرر کیا گیا۔ دونوں تقریباً ایک ساتھ اس رسالے سے وابستہ ہوئے۔ قمر سنبھلی آج بھی اس کے معاون مدیر ہیں۔ تسخیر فہمی کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کے انتقال کے بعد جریدہ اسباق کے مدیر نذیر فتح پوری اس کے مدیر اعلیٰ اعزازی رہے۔ انھوں نے دو سال تک یہ ذمہ داری انجام دی۔ عبد الکریم سالار اقرا ایجوکیشنل سوسائٹی مالیگاؤں کے منور پیر بھائی ایک عرصے تک اس کی مالی معاونت کرتے رہے۔ سرپرست کے طور پر اب بھی ان کا نام شائع ہوتا ہے۔ جبکہ تقریباً پانچ سال سے اردو کے عاشقِ صادق اور ادبا و شعرا کے سچے خادم کے ایل نارنگ ساقی اس کے مدیر اعلی اعزازی ہیں۔ وہ اس کی اشاعت میں مالی معاونت بھی کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا بے حد قلق ہے کہ اس تاریخی رسالے کا جشن صد سالہ نہیں منایا جا سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اگر اس رسالے اور اس کے ایڈیٹر سے پہلے سے واقف ہوتے تو اس کی صد سالہ تقریب کا شاندار اہتمام کرواتے۔

تبصرے بند ہیں۔