ماہنامہ ’سائنس‘ کی سلور جوبلی

سہیل انجم

ہندوستان میں اردو زبان کے بارے میں نامساعد حالات کے باوجود اردو رسائل و جرائد کی بھرمار ہے۔ جن میں مذہبی، ادبی، طبی، سائنسی اور دوسرے موضوعات پر بھی رسالے شامل ہیں۔ لیکن رسالوں کے ان ہجوم میں دلوں کو چھو لینے والے رسالے عموماً کم ہی نظر آتے ہیں۔ میں جن رسائل کا ایک زمانے سے گرویدہ ہوں ان میں اردو ماہنامہ ’’سائنس‘‘ سرفہرست ہے۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو سائنسی مجلہ ہے۔ اس کا ادب سے کوئی تعلق ہے نہ صحافت سے۔ یہ ہمارے مسائل اٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کے حل کی کوئی راہ سجھاتا ہے۔ یہ اتنا اہم پرچہ کیسے ہو گیا کہ آپ اس کے گرویدہ ہو گئے۔ تو جناب اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اردو داں حلقوں کے اندر سائنسی مزاج پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وہ مزاج جس کی آج اشد ضرورت ہے اور جس کی طرف ہم نے پشت پھیر رکھی ہے۔ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے بانی سرسید نے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں سائنس کی وکالت کی تھی۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، جو کہ اس وقت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں، سرسید کے اسی مشن کو آگے بڑھانے میں کوشاں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے اندر قرآن فہمی کا رجحان پیدا کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ قرآن میں کائنات کے بارے میں تفکر و تدبر کرنے پر زور ڈالا گیا ہے اور یہ رسالہ اسی پیغام کو عملی انداز میں عام کر رہا ہے۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ماہنامہ سائنس نے بر صغیر میں ایک تاریخ رقم کی ہے۔ اس کا بالکل سامنے کا امتیاز یہ ہے کہ یہ اپنے اجرا سے لے کر آج تک بلاناغہ شائع ہوتا آیا ہے۔ اور اب تو یہ سلور جوبلی سال میں داخل ہو گیا ہے۔ یعنی اس کی عمر پچیس سال ہو گئی ہے، یعنی ایک چوتھائی صدی۔ اردو کا کوئی رسالہ جس کی پشت پر کوئی تنظیم ہو نہ کوئی ادارہ، جو صرف اور صرف فرد واحد کی کاوشوں کا مرہون منت ہو وہ اگر کوئی شمارہ ناغہ کیے بغیر پچیس برسوں تک نکلتا رہے تو یہ بات موجودہ حالات میں کسی کرشمے سے کم نہیں۔ اور ماہنامہ سائنس جیسا رسالہ جو کہ ایک خشک موضوع پر ہے اگر سلور جوبلی سال میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کوئی تو بات ہوگی کہ اس کا قافلہ مسلسل رواں دواں ہے۔ عام طور پر اردو کے مجلات اتنی عمر کو پہنچتے ہی نہیں اور اگر پہنچتے بھی ہیں تو بوڑھے ہو جاتے ہیں یا دم توڑ دیتے ہیں۔ لیکن ماہنامہ سائنس پر تو آج بھی شباب کا عالم ہے، اس کا جوبن قابل دید ہے اور اس کی خوبصورتی و برنائی بہتوں کو اپنا دیوانہ بناتی ہے۔ یہ خوشامد نہیں، بیجا تعریف و ستائش نہیں بلکہ حقیقت پسندی ہے۔ کیونکہ ماہنامہ سائنس جیسے مجلات اگر اتنے طویل عرصے تک نکلتے رہیں تو وہ اتنی ستائش کے مستحق خود بہ خود ہو جاتے ہیں۔

آئیے پہلے دیکھتے ہیں کہ اس رسالے میں کیسے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس کے عنوانات پر نظر ڈالیں تو اس میں درج ذیل مضامین نظر آئیں گے:  قرآن اور سائنس،سائنسی اصطلاحات، سفیران سائنس، سائنس اور اسلام، انسائیکلو پیڈیا، عظیم ایجادات، سائنس ڈکشنری، سائنس کلب، سائنس خبرنامہ، سائنس کوئز، ستاروں کی دنیا، روشنی کی باتیں، روشنی کا جھکاو، روشنی کی واپسی، روشنی کی نظربندی، زمین کے اسرار،سمندری حیات، مچھلیوں کی دلچسپ باتیں، جانوروں کی دلچسپ کہانیاں، جانوروں کی عادات واطوار، بلیک ہول، نفسیاتی مسائل، ورک شاپ، وزن کے مسائل، ماحول واچ، انسانی حس اور اس کا اظہار، مشینوں کی بغاوت، صفر سے سو تک، علم کیمیا کا ہے؟ علم نجوم، غذا میں چکنائی، غذا کی اہمیت، کیوں بھوک لگتی ہے، طب میں اطبائے اسلام کے امتیازات، ہمارا جسم، طب، ریاضیات، پانی، زراعت، معلومات عامہ، کمپیوٹر، مقناطیسیت، کیا آپ جانتے ہیں ؟ کب کیوں اور کیسے، نینو ٹیکنالوجی سے پانی کی صفائی، یومیہ پیش آنے والی بیماریاں، ہمارے ماحول کا بدلتا مزاج اور اس کے اثرات، یرقان، مختلف بیماریوں کی وجوہات اور ان کا علاج، مادہ آئسٹر کتنے انڈے دیتی ہے، بلی کی آنکھیں اندھیرے میں کیوں چمکتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو چند نمونے ہیں ورنہ اگر سائنس میں شائع ہونے والے مضامین پر نظر ڈالنی ہو تو دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے استاد پروفیسر محمد کاظم کا مرتب کردہ ماہنامہ سائنس کا اشاریہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

ماہنامہ سائنس، سائنس کے موضوع پر نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے بر صغیر کا واحد رسالہ ہے جو پچیس سال مکمل کر رہا ہے۔ پاکستان سے گلوبل سائنس اور سائنس ڈائجسٹ نکلے تھے جو اب بند ہو چکے ہیں۔ دہلی سے سائنس کے موضوع پر ایک سرکاری رسالہ ’’سائنس کی دنیا‘‘ اگر چہ 42  برسوں سے نکل رہا ہے لیکن یہ سہ ماہی ہے۔ اس کے اور ماہنامہ سائنس کے موضوعات میں بھی کافی فرق ہے۔ جہاں ماہنامہ سائنس ایک پاپولر مجلہ ہے اور انتہائی دلچسپ انداز میں ایسا مواد پیش کرتا ہے جو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑی عمر کے لوگوں کے لیے بھی ایک خاص کشش رکھتا ہے، وہیں سائنس کی دنیا اتنا دلچسپ رسالہ نہیں ہے۔ اس میں بیشتر ریسرچ پیپرس شائع ہوتے ہیں۔ اس کے سابق مدیر محمد خلیل نے دلچسپ مضامین تحریر کیے تھے لیکن اس کے بعد پھر اس کو ویسا مدیر دستیاب نہیں ہوا۔

قابل ذکر ہے کہ انگریزی میں بھی سائنس کا کوئی ایسا مجلہ نہیں ہے جس نے اتنی طویل عمر پائی ہو۔ CSIR سے انگریزی میں ’’سائنس رپورٹر‘‘ شائع ہوا کرتا تھا اور ٹائمس آف انڈیا کے ادارے سے ’’سائنس ٹوڈے‘‘ نکلتا تھا لیکن یہ دونوں پرچے اب بند ہو چکے ہیں۔ جب ٹائمس آف انڈیا کا پرچہ بند ہوا تو بعض احباب نے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی تھی اور اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ رسالہ بھی بند ہو جائے گا۔ لیکن یہ اندیشہ، اندیشۂ دور دراز ثابت ہوا۔

لیکن یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کارنامے اپنے آپ نہیں ہو جاتے۔ ان کو انجام دینے کے لیے خون جگر جلانا پڑتا ہے۔ نامساعد حالات سے ٹکرانا پڑتا ہے۔ زمانے کے سرد و گرم کو جھیلنا پڑتا ہے۔ ماہنامہ سائنس کا بھی ایک چوتھائی صدی کا یہ صفر آسان نہیں تھا۔ اس راہ میں بڑی دشواریاں تھیں۔ بڑی رکاوٹیں تھیں۔ بڑے حوصلہ شکن حالات تھے۔ لیکن ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کے عزائم کے سامنے یہ دشواریاں ہیچ ہو گئیں۔ حالانکہ ان کو بھی وہی سب کچھ کرنا پڑا جو اردو کے حقیقی اور مخلص صحافیوں کو اور بالخصوص ایسے صحافیوں کو کرنا پڑتا ہے جو صحافت کو ایک مشن کے طور پر اختیار کرتے ہیں اور کسی مقصد کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ انھیں بھی رسالے کے رجسٹریشن، ڈی نمبر، آر این آئی نمبر اور ابتدا میں بنڈل سازی و پوسٹنگ وغیرہ خود کرنی پڑی۔ لیکن انھوں نے حالات سے شکست تسلیم نہیں کی۔ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ رسالہ محض ایک رسالہ نہیں بلکہ ایک خواب کی تعبیر ہے۔ وہ خواب جو اسلم پرویز صاحب نے دوران طالب علمی دیکھا تھا۔

انھوں نے راقم الحروف کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کے اندر سائنسی ذوق تھا۔ سراج انور، اظہار اثر، کرشن چندر اور ظفر پیامی وغیرہ کی کتابوں اور مضامین نے اس ذوق کو مہمیز لگائی۔ انھوں نے پرانی کتابوں کے مارکیٹ سے اردو میں ترجمہ شدہ روسی کتابیں جو کہ میر پبلی کیشن سے شائع ہوتی تھیں، خرید کر پڑھنا شروع کیا۔ لیکن ان کو ترجمہ شدہ کتابوں میں کوئی لطف نہیں آتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اوریجنل چیزیں پڑھنے کو ملیں۔ اسی درمیان انھوں نے سائنس پر مضمون نگاری شروع کی اور ان کا پہلا اردو مضمون1982ء میں روزنامہ قومی آواز میں شائع ہوا۔ اس وقت وہ دہلی کے سرکاری اردو اسکولوں میں جاتے اور بچوں سے سائنسی مضامین کے بارے میں دریافت کرتے تو بچے بڑی مایوسی کا اظہار کرتے۔

لہٰذا انھوں نے خود ایک سائنسی مجلہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے انھوں نے پہلے 1992ء میں ’’انجمن فروغ سائنس‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس تعلق سے انھوں نے کافی لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس ادارے کی سرپرستی سید حامد، حکیم عبد الحمید اور پاکستان کے نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام نے فرمائی۔ ان تینوں شخصیات سے انھوں نے باضابطہ تحریری اجازت لی تھی۔ انھوں نے اس کاز میں کافی دلچسپی دکھائی تھی۔ اس وقت کے نیشنل بک ٹرسٹ کے چیئرمین آنند سوروپ اس کے بانی ممبران میں تھے۔ ادارے کی میٹنگ میں انھوں نے ایک سائنسی مجلہ جاری کرنے کی تجویزپیش کی جس کی ستائش کی گئی لیکن اس پر عملاً کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سب خاموش ہو گئے۔

لیکن ڈاکٹر محمد اسلم پرویز خاموش نہیں ہوئے اور انھو ں نے جو کہ اس وقت تک ذاکر حسین کالج میں استاد مقرر ہو چکے تھے، اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے پیسے نکال کر فروری 1994ء میں پرچہ شروع کر دیا۔ حالانکہ اسی سال انگریزی پرچہ سائنس ٹوڈے بند ہوا تھا۔ اس طرح انھوں نے ایک ایسے مجلے کی داغ بیل ڈالی جس نے آگے چل کر اردو پڑھنے والے بچوں اور بڑو ں میں بھی سائنسی مزاج پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ انھوں نے اپنے رسالے میں ترجمہ شدہ مضامین شائع کرنے سے گریز کیا اور اوریجنل مضامین چھاپنے کو ترجیح دی۔ حالانکہ اس وقت تک اردو میں سائنسی مضامین کے قاری تو کم تھے لیکن مضمون نگاروں کی کمی نہیں تھی۔ لہٰذا انھوں نے ایسے مضمون نگاروں کی ایک ٹیم بنائی اور خود بھی لکھنے لگے۔ اداریہ انھی کا تحریر کردہ ہوتا ہے۔ وہ پہلے قارئین کے سوالوں کے جواب بھی دیتے تھے جسے لوگ بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ لیکن عدم فرصت کی وجہ سے یہ سلسلہ سردست منقطع ہو گیا ہے۔

محمد اسلم پرویز نے اس مجلے کی توسیع اشاعت میں بھی بڑی جاں فشانی سے کام لیا۔ انھوں نے اسے مدارس میں بھی بھیجنا شروع کیا جہاں پہلے حوصلہ شکنی کی گئی لیکن پھر بعد میں لوگوں نے اس کی ستائش کی۔ انھوں نے اہل مدارس سے کہا کہ وہ ایک سال تک تو پرچہ اعزازی طور پر بھیجیں گے لیکن اس کے بعد ان کو اس کا خریدار بننا پڑے گا۔ وہ کچھ انفرادی لوگوں کو بھی ایک سال تک اعزازی بھیجتے ہیں اور پھر ان سے خریدار بننے کی گزارش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ اسلام اور سائنس میں روابط پر زور دیتے ہیں اور اس حوالے سے مضامین شائع کرتے ہیں اس لیے اب اہل مدارس بھی اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ وہ اس میں سائنسی نظمیں بھی شائع کرتے ہیں اور فطرت کے مطالعے پر زور دیتے ہیں۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ سائنس کا علم بھی حصول علم دین کا ایک حصہ ہے۔ سائنس کی مدد سے قرآن کو سمجھنا آسان ہے۔ علم کو دینی اور دنیاوی میں تقسیم کرنا غلط ہے۔ علم علم ہے، کیا دینی کیا دنیاوی۔ دونوں میں تفریق انتہائی تقصاندہ ہے۔ اب ان کی یہ باتیں لوگ سمجھنے لگے ہیں۔

جب ہم نے ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مجلے کے آغاز پر کیا کسی حلقے سے اس کی مخالفت بھی ہوئی؟ تو انھوں نے کہا کہ ہاں اہل مدارس کی جانب سے بھی ہوئی اور کچھ دوسرے کاروباریو ں کی طرف سے بھی ہوئی۔ کیونکہ پہلا شمارہ ہی ایک موذی مرض AIDS ایڈس پر تھا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ ایڈس صرف دوسری خواتین یا دوسرے مردوں سے جنسی رشتہ قائم کرنے سے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی دوسری وجوہات بھی ہیں۔ انھوں نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ حجام کی دکانوں پر ایک ہی استرے سے شیو بنوانے سے گریز کریں۔ (اس وقت تک بلیڈ کا چلن شروع نہیں ہوا تھا)۔ اس کے علاوہ انھوں نے خواتین سے درخواست کی تھی کہ ناک کان وغیرہ چھدوانے میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ کنڈوم کے استعمال سے ایڈس سے بچا جا سکتا ہے۔ ان کی اس بات کی ان لوگوں نے شدید مخالفت کی تھی جو ایڈس کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ لیکن ایڈس کے بارے میں انھوں نے جو انکشافات کیے تھے اس کو بعد میں انڈین میڈیکل کونسل نے اختیار کیا تھا۔

دوسرے ایشو میں انھوں نے بیٹے یا بیٹی کی پیدائش پر لکھا تھا اور کہا تھا کہ اگر کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کی ذمہ دار ماں نہیں ہے بلکہ باپ ہے۔ اس پر ایک مدرسے کے ایک ذمہ دار نے شدید رد عمل ظاہر کیا تھا اور ایک طرح سے ان کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کیا بیہودگی پھیلا رہے ہیں۔ جب انھوں نے قرآن اور سائنس پر لکھنا شروع کیا تو اس وقت بھی اس کی مخالفت کی گئی۔ یہ کہا گیا کہ ہر کوئی قرآن پر نہیں لکھ سکتا۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا رویہ بدلا ہے، ان کی سوچ بدلی ہے۔ اب تو انھیں مدارس والے بھی قرآن اور سائنس پر لیکچر دینے کے لیے مدعو کرتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنے مجلے کو مرنے نہیں دیں گے۔ خواہ کیسے بھی حالا ت کیوں نہ ہوں وہ اس کو جاری رکھیں گے اور ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اس پر اور زیادہ توجہ دیں گے۔

بابائے اردو مولوی عبد الحق نے انجمن ترقی اردو ہند کے زیر اہتمام 1928ء میں سائنسی رسالہ نکالا تھا جو سہ ماہی تھا۔ بعد میں وہ اسے حیدرآباد لے گئے۔ 1947ء میں وہ ماہنامہ ہوا تھا اور 1948ء میں بند ہو گیا تھا۔ جبکہ سرسید نے دہلی کالج کی ورناکولر سوسائٹی سے متاثر ہو کر علیگڑھ میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام کیا تھا۔ اس مجلے کا تعلق بھی دہلی کالج سے ہے۔ اس لحاظ سے یہ سرسید اور ان کے سائنسی نظریات سے بھی ایک رشتہ رکھتا ہے۔ اپنی مسلسل اشاعت کے سبب سلور جوبلی سال میں داخل ہونا ہی اس کا ایک ریکارڈ ہے۔ توقع ہے کہ یہ مزید ریکارڈ بنائے گا اور اردو داں حلقوں میں ایسا سائنسی مزاج پیدا کرنے میں کامیاب ہوگا جس کی عہد حاضر میں بے انتہا ضرورت ہے۔

4 تبصرے
  1. ڈاکٹر ریحان انصاری کہتے ہیں

    بہت خوب سہیل انجم صاحب۔ میگزین اور اس کے مشمولات کا اجمالی تذکرہ قابل داد ہے۔ شکریہ۔

  2. Dr. Perwaiz Shaharyar کہتے ہیں

    اردو ماہنامہ ساءنس کی دنیا بچوں میں ساءنسی مزاج اور سیکولر اذہان کی تعمیر میں گذشتہ ربع صدی سے کلیدی رول ادا کر رہا ہے۔ ہندی اور انگریزی میں تو شاید اس نوع کے رسالے مل بھی جاءیں لیکن اردو میں ایسا رسالہ ناپید ہے۔

    ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی ان انتھک کوششوں کا ثمرہ ہے کہ آج اردو زبان و ادب کی اسکولی سطح کی نصابی کتابوں میں بھی ساءنس اور ٹکنالوجی کے موضوعات پر بھی اچھے خاصے مضمون پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ساءنس کو اردو میں مقبول عام بنانے میں انھیں ید طولی’ حاصل رہا ہے۔

    خدا سے دعا ہے کہ ان کے ارادے مزید مستحکم ہوں اور ان کا یہ بیش بہا فیضان جاری ہے۔

  3. سید اختر علی، ناندیڑ کہتے ہیں

    محترمی و مکرمی سہیل انجم صاحب آپ نے ماہنامہ سائنس کی 25 ویں سالگرہ پر بہت ہی پر مغز مقالہ تحریر کیا ہے جس جس سے ماہنامہ سائنس کی 25 سالوں پر محیط کارکردگی، محنت اور خدمت کا اندازہ ہوتا ہے. ماہنامہ سائنس کی ساری ٹیم کو بہت بہت مبارک 🌷

  4. ڈاکٹر محمد زبیر احمد کہتے ہیں

    .اردو کے فروغ کی ایک بہترین اور مثالی کاوش.

تبصرے بند ہیں۔