ماہِ ذی الحجہ کے احکام و اعمال

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

ذی الحجہ کا مہینہ نہایت ہی متبرک اور فضائل ومناقب کا حامل مہینہ ہے، اس کی اہمیت وخصوصیت کو بتلانے کے لئے یہ بتلادینا کافی ہے کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے پانچویں اور آخری رکن حج کی ادائیگی بھی اسی ماہِ مقدس میں ہوا کرتی ہے، قربانی جیسا عظیم اور مہتم بالشان عمل بھی اسی مہینے میں انجام دیا جاتا ہے، نہ صرف یہ کہ اسلام کی آمد کے بعد اس مہینہ کو قدر ومنزلت اور احترام ونقدس کی نگاہ سے دیکھاگیا؛ بلکہ زمانہَ جاہلیت میں بھی لوگوں میں اس مہینہ کا احترام وتقدس پایاجاتا تھا، وہ اس مہینے کو ’’اشہر حرم‘‘ میں شمار کرتے تھے، سالہا سال سے چلی آرہی بھیانک اور خون ریز لڑائیاں بھی اس مہینے کے تقدس واحترام میں موقوف کردی جاتی تھیں، اسلام کی آمد کے بعد بھی اس مہینے کی اس عظمت وحرمت کو باقی رکھاگیا، مزید حج اور قربانی جیسے عظیم الشان اعمال کی اس ماہِ مبارک میں مشروعیت نے اس کی فضلیت واہمیت کو مزید دو چند کردیا، ویسے تو سارا مہینہ ہی خیر وبرکت کا حامل ہے، البتہ اس ماہ کے ابتدائی دس دنوں کو اور بھی زیادہ خصوصیت وفضیلت حاصل ہے، ان دنوں کی اسی اہمیت وجلالتِ شان کی وجہ سے سورۃ الفجر کی ابتدائی آیات میں اللہ عزوجل نے ایام کی قسم کھائی ہے:’’قسم ہے فجر کے وقت کی اور ذی الجہ کے دس راتوں یعنی دس تاریخوں کی کہ وہ نہایت فضیلت والی ہیں، اور جفت اور طاق کی (جفت سے مراد دسویں تاریخ ذی الحجہ کی اور طاق سے نویں تاریخ)(بیان القرآن :۲؍۹۵، ۹۶)

احادیث نبوی میں عشرہ ذی الحجہ کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ ایک روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کئے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالی کے نزدیک تمام ایام میں کئے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں (ترمذی: العمل فی أیام العشر، حدیث:۷۵۷)ان ایام کی فضلیت کے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان ایام کی قسم کھائی ہے، اور نبی کریم ﷺ نے بذاتِ خود ان ایام کی فضیلت کو دنیاکے تمام ایام سے زیادہ بتلایاہے۔ نبی کریم ﷺ نے خصوصا ان ایام میں اعمال صالحہ کی کثرت کی تلقین فرمائی ہے، یہ ان ایام کی شرف وفضلیت کی دلیل ہے۔

عشرۃ ذی الحجہ کے مستحب اعمال:

1۔ قربانی کا ارادہ رکھنے والے بال اور ناخن نہ کاٹیں:

ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی سب سے پہلے جو عمل ہماری طرف متوجہ ہوتا ہے وہ ہے کہ جن لوگوں پر قربانی واجب ہے یا ان کا نفلی قربانی کا ارادہ ہے تو وہ لوگ چاند دیکھنے کے بعد سے لے کر اپنی قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کاٹیں، ایسا کرنا مستحب ہے (شامی : ۳؍۶۶)۔ چنانچہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تواور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا اراد ہ ہو تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے (مسلم:بباب النہی علی من دخل علیہ …حدیث:۱۵۶۳)

2۔ ماہِ ذی الحجہ کے ابتدائی نو دنوں کے روزوں کی فضیلت:

ماہِ ذی الحجہ کے ابتدائی نو دنوں کے روزوں کی روایات میں بہت زیادہ فضیلت وارد ہوئی ہے، اس لئے ہر شخص کو چاہئے کہ اس ماہ ان ابتدائی ایام میں حتی المقدور روزو ں کا اہتمام کرے، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ذوالحج کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے نو دنوں میں )ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے(ترمذی:العمل فی أیام العشر، حدیث:۷۵۸)

3۔ یوم عرفہ کا روزہ:

ویسے تو ماہِ ذی الحجہ کے تمامی ابتدائی ایام اہمیت کے حامل ہیں، جیسا کہ پچھلی روایت سے معلوم ہوا، ان نو دنوں کی روزوں کی بھی اہمیت مذکور ہوئی، لیکن ان نو دنوں میں نویں تاریخ یعنی ’’یوم عرفہ‘‘ کے روزہ کا اہتمام ہونا ہی چاہئے، اور یہ نفلی روزہ مقامی حضرات کے لئے ہے، حجاج کے لئے اس دن حج کا عظیم رکن ’’وقوف عرفات‘‘ تجویز کیا گیا، اس لئے ان پر یہ روزہ نہیں اس نفلی روزہ کو پچھلے اور اگلے دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا (مسلم : باب استحباب ثلاثۃ أیام من کل، حدیث: ۱۱۶۲)

4۔ تکبیر اور اللہ کے ذکر کا اہتمام:

تکبیر (اللہ اکبر) تہلیل(لا إلہ إلا اللہ) تحمید (الحمد للہ ) اور تلاوت قرآن کا ان دس دنوں میں خوب اہتمام کرے چونکہ ارشاد باری ہے ’’ویذکروا اسم اللہ فی أیام معلومات) (سورۃ الحج: ۲۸) ( ان متعین دنوں میں اللہ کا نام بکثرت لیا کرو)اور حدیث مبارکہ میں ہے: ’’عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر کوئی دن اللہ کی نگاہوں میں معظم نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور دن میں اعمال اتنے زیادہ پسند ہیں اس لئے ان دنوں میں تہلیل و تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو‘‘۔ (مسند احمد:حدیث:۵۴۴۶)۔ ان ایام میں تکبیر کا جہرا (زورسے) اہتمام کرے، چنانچہ مروی ہے کہ حضرت ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس ایام میں بازار تشریف لے جاتے تو جہرا تکبیر کہتے، لوگ بھی ان کو دیکھ تکبیر کہتے (بخاری: باب فضل العمل فی أیام التشریق، حدیث: ۹۶۹)۔

5۔ تکبیر تشریق کے احکام:

ذی الحجہ کے ان ایام میں ایک عمل تکبیر تشریق کا بھی ہے، یہ تکبیر ۹؍ذی الحجہ کی فجر سے تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک ہے، یہ تئیس نمازیں ہوتی ہیں اور نماز عید کو ملا کر چوبیس نمازیں ہوتی ہیں، اس تکبیر کا پڑھنا واجب ہے، مرد حضرات جماعت کی نماز کی ادائیگی کے بعدایک مرتبہ فورا بآواز بلند یہ تکبیر کہیں گے، جب کہ منفرد شخص اور عورتیں اس کو آہستہ پڑھیں گے، تکبیر تشریق پڑھنے کا حکم شہر والوں کے لئے بھی ہے، گاؤں والوں کے لئے بھی، مردوں کے لئے بھی عورتوں کے لئے بھی، جو قربانی دے رہے ان کے لئے بھی جو قربانی نہ دے رہے ہوں ان کے لئے بھی، اگر امام اس تکبیر کو کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ بآواز بلند پڑھنا شروع کردیں، اس سے امام کے لئے یاد دہانی ہوجائے گی، اگر تکبیر کہنا بھول جائیں تو اس کی قضاء نہ کی جائے ؛ کیوں کی اس کی قضاء مشروع نہیں، تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں : ’’ اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا إلہ إلا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد‘‘(شامی : ۲؍۱۸۰)۔

6۔ شب بیداری:

عشرہ ذی الحجہ کا ایک عمل یہ ہے کہ آٹھ ذی الحجہ کی رات، عرفہ کی رات، بقرعید یک رات کو عباد کے لئے شب بیداری کرے، حضرت ابو مامہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے دونوں عیدوں (یعنی عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں کو ثواب کے یقین کے ساتھ زندہ رکھا تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے  (ابن ماجۃ : باب فیمن قام فی لیلتی العید، حدیث: ۱۷۸۲)

حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے (ذکر وعباد ت کے ذریعہ)  پانچ راتیں زندہ رکھیں اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، وہ پانچ راتیں یہ ہیں : آٹھ ذی الحجہ کی رات، عرفہ کی رات، بقرعید کی رات، عید الفطر کی رات اور پندرہویں شعبان کی رات (الترغیب: فضل لیلۃ العیدین والأضحیۃ، حدیث: ۱۶۵۶)

7۔ عید کا دوگانہ شکرانہ نماز:

عشرہ ذی الحجہ کا ایک عمل عید کے دوگانہ کا ادا کرنا ہے، حضرت انس صسے روایت ہے کہ (ہجرت کے بعد)رسول صلی اللہامدینہ تشریف لائے (اہل مدینہ نے)دو دن کھیل کود کے لیے مقرر کر رکھے تھے آپ صلی اللہا نے پوچھا :یہ دو دن کیسے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں ہم ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے، آپ ا نے فرمایا :اللہ تعالی نے ان دنوں کے بدلہ میں تمہیں ان دنوں سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں ایک یوم الاضحی اور دوسرا یوم الفطر۔ (ابوداؤد: باب صلاۃ العید، حدیث: ۱۱۳۴)

البتہ اس کے احکام عید الفطر سے کچھ مختلف ہیں، عیدالأضحی کی نماز پڑھنے میں جلدی کرنا مستحب ہے ؛کیونکہ نماز کے بعد جانوروں کی قربانی کا مسئلہ ہوتا ہے، اور قربانی میں عجلت مطلوب ہے۔ (رد المحتار :۳/۵۳، ط: زکریا دیوبند )حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عید الأضحی میں نماز عید جلدی اور عید الفطر میں نماز عید تاخیر سے ادا فرمائی(السنن الکبری للبیہقی: حدیث:۵۹۴۴)) عید الاضحی کے دن عید گاہ جاتے ہوئے راستہ میں بآواز بلند یہ تکبیر کہتے ہوئے جانا، اللہ اکبر اللہ اکبر لا إلہ إلا اللہ واللہ اکبر وللہ الحمد‘‘(شامی زکریا: با ب العیدین :۳؍۵۹)یہاں عید الاضحی میں کھانا کو مؤخر کرنا بھی مستحب ہے، اگر کسی نے کھالیا تو مکروہ نہیں (شامی زکریا: با ب العیدین :۳؍۶۰)

8۔ قربانی ایک عظیم عبادت:

اللہ عزوجل کے یہاں قربانی کے ایام میں قربانی سے زیادہ محبوب اور بہتر عمل کوئی دوسرا نہیں، یہ قربانی در اصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جذبۂ فداکاری کی عظیم یادگار ہے،  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوم نحر (دس ذوالحجہ )کو اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں (یعنی قربانی سے )قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں سمیت آئے اور بے شک اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے ہاں مقام قبولیت حاصل کر لیتا ہے؛ لہٰذا نہایت خوش دلی کے ساتھ قربانی دیا کرو(ترمذی: فضل الأضحیۃ، حدیث:۱۴۹۳)

زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ حضراتِ صحابہ نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت فرمایا: اے اللہ کے رسول ! یہ قربانی کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہ نے پوچھا: ہمیں اس قربانی پر کیا ملے گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی (ابن ماجۃ : باب ثواب الأضحیۃ، حدیث: ۳۱۲۷)

لہٰذا قربانی ہر مسلمان عاقل، بالغ، مقیم پر واجب ہے، جس کی ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اسی کی قیمت کا مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد ہو، یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں، یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان، پلاٹ وغیرہ (شامی، کتاب الأضحیہ )قربانی چونکہ ایک مخصوص عبادت ہے، اس لئے شریعت نے اس کے لئے وقت متعین کر رکھا ہے، وہ ذی الحجہ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخیں ہیں، نہ ان تینوں سے پہلے قربانی جائز ہے اور نہ بعد میں، البتہ پہلا دن قربانی کے لئے سب سے افضل ہے، پھر دوسرا دن پھر تیسرا دن (در مع الشامی زکریا: ۹؍۴۵۷۔ ۴۵۸)ان ایام میں رات کی قربانی بھی درست ہے ؛ لیکن کراہت کے ساتھ (۹؍۴۵۸)شہری حضرات نماز عید کے بعد قربانی دیں گے، دیہات والے جن کے یہاں نماز نہیں ہوتی وہ طلوع فجر کے بعد قربانی دے سکتے ہیں (در مع الشامی: ۹؍۴۶۰=۴۶۱)

9۔ حج اور عمرہ :

یہ عشرہ ذی الحجہ کے سب عظیم اعمال ہیں، لہٰذا مسلمان اس کا اہتمام کرم کہ ا س کا قبولیت کے اعلی درجہ پر فائز ہو، اس میں گالی گلوچ، فسق وفجور کی باتیں اور ریاء کاری، دکھلا جیسے امور باکل در نہ آئیں، حج مقبول اور عمرہ کاثواب نہایت عظیم بتلایاگیا ہے، حضرت ابی ہریرۃ سے مروی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک ان گناہوں کے لئے کفارہ ہوتا ہے جو دو عمروں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مقبول کی جزا جنت ہے(بخاری: باب وجوب العمرۃ وفضلھا، حدیث:۱۶۸۳)

یہ عشرہ ذی الحجہ کے فضائل اور اعمال ہیں، ان اعمال کے اہتمام سے ہی ان ایام کے فضائل کا حصول ممکن ہے، یہ ایام اور دن اللہ کے انعامات اور خصوصی نوازش کے موقع ہوتے ہیں، ا س لئے جس قدر ہوسکے حتی المقدور ان اعمال کی انجام دہی کی کوشش کریں اور عشرہ ذی الحجہ کے فضائل ومناقب سے مستفید ہو کر اپنے اخروی زندگی کا سامان کریں۔

تبصرے بند ہیں۔