ماہِ رمضان المبارک کیسے گزاریں

رمضان المباک کا مہینہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے، البتہ اس نعمت کی قدروقیمت وہی لوگ ہی محسوس کرسکتے ہیں جن کو اللہ پاک نے اپنے فضل سے نوازاہو اور جن کو اس ماہِ مبارک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والی انوار و برکات کی بارش کی معرفت حاصل ہو۔
اللہ کے رسول ﷺ جب ماہِ رجب کا چاند دیکھتے تو یہ دعافرماتے: اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا الیٰ رمضان اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطافرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہونچادے یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے، گویا اللہ کے رسولﷺ کے اندر دو ماہ قبل ہی سے رمضان کا انتظار اور اشتیاق پیدا ہوجاتا اس سے رمضان کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
رمضان کا یہ مبارک مہینہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ روزوں کا مہینہ ہے ، اس میں روزے رکھے جائیں گے، تراویح کی نماز ادا کی جائے گی اور بس،لیکن حقیقت یہ ہے کہ بات یہیں تک ختم نہیں ہوجاتی بلکہ یہ ساری عبادتیں ایک بڑی چیز کی علامت ہیں اور وہ یہ کہ یہ ماہ خاص اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے ۔ اس نے یہ مہینہ اپنے بندوں کو اس لیے عطا فرمایاہے تاکہ گیارہ مہینے تک مال و دولت کے حصول، دنیوی کاروبار میں الجھے رہنے ، خواب غفلت میں پڑے رہنے اور بہت حد تک اللہ تعالیٰ سے دور رہنے کے بعد بندے اللہ کا قرب حاصل کرسکیں، گیارہ مہینوں کے اندر ان کی روحانیت میں جوکمی آگئی ہے اس کا ازالہ کرسکیں، دلوں پر جو زنگ لگ گیا ہے اسے دور کرسکیں ، اللہ تعالیٰ سے تعلق میں جوکمزوری آگئی ہے اسے ختم کرسکیں۔
انہی عظیم مقاصد کے حصول کے لیے اللہ پاک نے اس مہینہ میں روزہ فرض فرمایاہے جوقرب خداوندی پیدا کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
یایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون(البقرۃ:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ و پرہیز گاری پیدا ہوجائے۔
روزہ اس ماہِ مبارک کی خاص عبادت ہے جو اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے، اس کی فضیلت میں بے شمار حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے ایک حدیث ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے ان الفاظ میں مروی ہے۔
قال رسول اللہ ﷺ ان ربکم یقول: کل حسنۃ بعشر أمثالھا الی سبعماءۃ ضعف الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ والصوم جنۃ من النار ولخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسک وان جہل علی أحدکم جاھل و ھو صائم فلیقل انی صائم (ترمذی شریف ، باب ما جاء فی فضل الصوم) اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک دیاجائے گاسوائے روزہ کے تووہ میرے لیے ہے ، میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، روزہ جہنم سے بچاؤ کے لیے ایک ڈھال ہے، روزہ دار کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے، اگرکوئی شخص کسی روزہ دار کے ساتھ جہالت سے پیش آئے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔
روزہ کے علاوہ دیگر عبادات جو اس ماہ میں مشروع کی گئی ہیں وہ بھی قرب خداوندی کے حصول کے اہم ذرائع ہیں۔
ماہ رمضان کے مقاصد کی حصولیابی کاایک طریقہ یہ ہے کہ اس مہینے کو منصوبہ بند طریقے سے زیادہ سے زیادہ عبادات کے لیے فارغ کرلیاجائے، اپنے روز مرہ کے کاموں مثلاً تجارت ، ملازمت، زراعت وغیرہ میں سے جن کاموں کومؤخرکیاجاسکتاہو ان کو مؤخر کیاجائے، اپنے اوقات اس انداز سے منظم کیے جائیں کہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کیاجاسکے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل طریقے اختیار کیے جائیں۔
1۔ اس ماہ مبارک کو کلام الٰہی سے خاص مناسبت ہے ، چنانچہ تمام آسمانی کتابیں اور صحیفے اسی ماہ میں نازل کیے گئے ، خود قرآن پاک بھی اسی ماہ کی شب قدر میں نازل ہوا۔ ارشاد خداوندی ہے: شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن (البقرہ) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا، دوسرے مقام پر ارشادہے: انا انزلناہ فی لیلۃ القدر (القدر) کہ ہم نے قرآن کوشب قدر میں نازل کیا۔ اس لیے اس مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام کیاجائے،قرآن پاک سے زندہ تعلق اور وابستگی قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن فہمی اور تدبر و تفکر پر بھرپور توجہ دی جائے۔
2۔ دوسرے ایام میں عام طور پر جن نوافل کی ادائیگی کی توفیق نہیں ملتی ان کو رمضان میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے مثلاً تہجد، اشراق، چاشت، اوابین کے نوافل کا اہتمام کیاجائے۔
3۔ اس ماہ میں زکوٰۃ کے علاوہ نفلی صدقات بھی زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کی جائے بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضورﷺ کی سخاوت کا دریا ویسے تو پورے سال ہی موجزن رہتالیکن رمضان میں آپ کی سخاوت ایسی ہوتی تھی جیسے جھونکے مارتی ہوئی ہوائیں چلتی ہیں۔
4۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیاجائے، کلمۂ طیبہ اور کلمۂ استغفار کاخوب اہتمام کیاجائے۔
5۔ ہرطرح کے گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کی جائے، قلب و نظر کی بھر پور حفاظت کی جائے۔ جھوٹ، غیبت، چغل خوری، دل آزاری ، فضول کاموں، فضول مجلسوں اور فضول باتوں سے بالکلیہ اجتناب کیاجائے۔
6۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کثرت کی جائے۔ اس مہینے میں رحمت کے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، فضل و انعام کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی ہیں، مغفرت کے لیے بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز دی جاتی ہے کہ ’’ہے کوئی مانگنے والا جس کی مانگ میں پوری کروں۔‘‘ صبح کا وقت ہو یا شام کا، دن کا وقت ہو یا رات ، افطار کا وقت ہو یا سحری کھانے کا، ہروقت دعا کی قبولیت کے دروازے کھلے ہوتے ہیں ، اس لیے خوب خوب دعاکی جائے۔ اپنے لیے، اپنے اعزہ و اقارب کے لیے ، اپنے متعلقین کے لیے، اپنے ملک و ملت کے لیے پورے عالم اسلام کے لیے گریہ و زاری کے ساتھ دعا کی جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے اس ماہ مبارک کی قدر کرنے اور اس کے اوقات کو اس طرح استعمال کرنے کی توفیق عنایت فرمائے کہ اس کے مقاصد کلی طور پر حاصل ہوسکیں۔آمین

تبصرے بند ہیں۔