ماہِ شعبان: فوائد و مسائل

تحریر : شيخ داؤد العسعوسی

ترجمہ : جمشید عالم عبدالسلام سلفی

سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! میں نے ماہ شعبان میں آپ کو جس قدر روزہ رکہتے ہوئے دیکھا اتنا کسی اور مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شعبان، رجب اور رمضان کا درمیانی مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں۔ اس میں لوگوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں پس میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل ایسی حالت میں اٹھایا جائے کہ میں روزے کی حالت میں ہوں۔ (رواہ النسائی والبیهقی و هو حدیث حسن)

      یہ حدیث ماہِ شعبان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور بہ دو وجوہ اس ماہ کے اندر عملِ صالح کی ترغیب بھی پائی جاتی ہے۔

      اوّل یہ کہ جو شخص اس مہینے کے اندر عمل صالح کرے گا وہ غفلت شعاروں میں سے نہیں ہوگا۔ اور ظاہرِ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہِ شعبان کی فضیلت سے مستفید و بہرہ مند ہونے کی توفیق صرف انہیں لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جن کے ساتھ رحمتِ الہی شامل ہو۔

      دوم یہ کہ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں جس سے اس ماہ میں نیک عمل کرنے کی رغبت و توجہ کی جانب اشارہ پایا جاتا ہے اور یہی اس کی فضیلت کے بیان کا مقصود ہے۔

پندرہویں شعبان کی رات :

      پندرہویں شعبان کی رات کے متعلق درج ذیل نکات کی روشنی میں کلام کیا جارہا ہے :

      1 – نصف شعبان کی رات کے سلسلے میں سوائے ایک حدیث کے اور کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔ وہ حدیث یہ ہے :

      ((إنَّ اللهَ يطَّلِعُ على خَلْقِه ليلةَ النِّصفِ من شعبانَ، فيغفِرُ لجميعِ خَلْقِه إلّا لِمُشرِكٍ أو مُشاحِنٍ)) ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوقات کی طرف دیکهتا ہے اور مشرک و کینہ پرور کے سوا سب کی مغفرت فرماتا ہے۔

      یہ حدیث اپنی مختلف طرق سے مل کر صحیح ہے. علامہ البانی رحمہ اللہ نے "سلسلة الأحاديث الصحيحة” کے اندر ان طرق کا استیعاب کیا ہے اور ان پر تعلیق چڑھائی ہے۔ چناں چہ امام قاسمی صاحب کا اپنی کتاب "اصلاح المساجد” (ص: 107) کے اندر یہ کہنا کہ : "اس کی فضیلت کے بارے میں کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے” درست نہیں ہے۔

      2 – یہ حدیث اس رات کی فضیلتِ عظمیٰ پر دلالت کرتی ہے۔ اور یہ کہ اس رات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل و اکرام کرتا ہے، وہ بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور سوائے دو طرح کے لوگوں کے تمام کی مغفرت فرماتا ہے :

      (الف) مشرک : اس لئے کہ شرک بہت بڑا گناہ ہے، اللہ تعالیٰ توبہ کے بغیر شرک کو کبھی معاف نہیں کر سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ} ترجمہ : یقیناً الله تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ (النساء : 48)

       غیر اللہ کے لئے کسی بھی طرح کی عبادت کرنے کو شرک کہتے ہیں خواہ وہ کسی بھی نوعیت سے تعلق رکھتی ہو۔

      (ب) مشاحن : اس کے دو معانی هیں :

(1) دوسروں سے دشمنی رکھنے والا۔ یعنی مشاحن، الشحناء سے مشتق ہے جس کے معنی عداوت، کینہ اور دشمنی کے ہیں۔ سنن بیهقی میں بسند حسن مروی اس حدیث کے دوسرے الفاظ بهی اسی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں۔ اس میں ہے کہ : ((فيغفرُ للمؤمنِ، ويُملي للكافرين، ويدعُ أهلَ الحقدِ بحقدِهم حتّى يدعوَه)) ترجمہ : پس مومنین کی مغفرت فرماتا ہے، کافروں کو مہلت دیتا ہے اور حاسدین کو ان کی حسد کی وجہ سے چهوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے حسد و کینہ سے باز آجائیں۔

(2) دوسرا معنى بدعتی اور جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والا کے ہیں۔ جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے "النهاية” (2/449) کے اندر إمام اوزاعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔

      اس طرح حدیثِ بالا سے بدعت کی ہلاکت خیزی اور اس کی نقمت و برائی واضح ہوتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ بدعت مغفرتِ الٰہی سے محرومی و دوری کے اسباب میں سے ایک عظیم سبب ہے۔ ایسے ہی مسلمانوں سے عداوت و دشمنی اور کینہ و کپٹ رکہنا بہی مغفرت الٰہی سے دوری کا سبب ہے۔

      3 – ایک طرح سے اس رات کی ایک فضیلت ہے لیکن اسے روزوں اور قیام کے ساتھ مختص کرنا اور گنتی کی مخصوص عبادت یا کسی معین کیفیت کے ساتھ خاص کر دینا اس کی فضیلت سے ہٹ کر کے ایک الگ چیز ہے، کیوں کہ اس کی فضیلت کو کسی خاص عبادت کے ساتھ مخصوص کرنے کے لئے کسی ایسی مستقل دلیل کی ضرورت ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول فعل یا تقریر سے ماخوذ ہو۔ اور اس بارے میں کوئی بھی صحیح نص ثابت نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں جو کچھ وارد ہوئی ہیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں یا تو موضوع ہیں، جیساکہ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ بنا بریں کسی عبادت کے ذریعہ پندرہویں شعبان کے دن و رات کی تخصیص بدعت اور منکر عمل ہے إلا یہ کہ کسی کی عادت روزانہ کثرت سے نوافل پڑھنے اور عبادت کرنے کی ہو تو اس کے لئے اس دن بهی عبادت کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔

      4 – بطور اہتمام اس رات میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی ترغیب فضیلتِ شعبان کی حدیث، فضیلتِ شب نصف شعبان کی حدیث، صلوة الخير والی موضوع روایت اور صیام و قیام وغیرہ کی طرف رغبت دلانے والی عام نصوص ہیں۔ ان سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ان مجموعی دلائل کے عموم جس فضیلت پر دلالت کرتے ہیں اسے پانے کی غرض سے اس رات میں خاص اہتمام کرنے سے کوئی مانع نہیں ہے۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے۔ اس طرح کی باتوں کے جواب کی توضیح و وضاحت "بدعتِ اضافی” کی تعریف کے سلسلے میں سلف کے اقوال کی طرف رجوع کرنے سے ہوگی۔

      بدعتِ اضافی دو باتوں سے مرکب ہوتی ہے:

(1) اس کی اصل عام نصوص سے مستند ہونے کے اعتبار سے مشروع ہو۔ یعنی ایک جہت سے مشروع ہو۔

(2)  کیفیت و تعداد یا معین وقت کی تخصیص کے سلسلے میں مستقل طور پر کوئی دلیل نہ پائی جانے کی وجہ سے غیر مشروع ہو۔ یعنی دوسری جہت سے غیر مشروع ہو۔

      دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اصل کی جانب سے تو دلیل پائی جاتی ہو مگر کیفیات اور احوال و تفاصيل کی جانب سے دلیل نہ پائی جاتی ہو بلکہ محتاجِ تفصیل ہو اور تعداد و کیفیت یا مکان و زمان کی تخصیص کے سلسلے میں کوئی بھی دلیل نہ ہو۔ چوں کہ وہ عمومی نص عادات کے بجائے عبادات اور تقرب کے باب میں واقع ہوتی ہے اس لئے نصِ عام کافی نہیں ہوگی بلکہ تفصیل سابق پر دلالت کرنے والی مستقل دلیل درکار ہوگی۔ یعنی عمل اسی وقت مشروع ہوگا جب وہ بلا کسی انفکاک و دوری کے بیک وقت اپنی اصل و کیفیت دونوں اعتبار سے مشروع ہو۔ اور اگر دونوں جہتیں یعنی اصل اور کیفیت ایک ساتھ نہیں پائی جاتی ہیں تو اس طرح کی عبادت بدعت ہوگی اور اگر دوسری جہت یعنی کیفیت مفقود ہو تو وہ "بدعتِ اضافی” کہلائے گی۔ ان باتوں کو امام شاطبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الاعتصام”  (1/286) کے اندر ثابت کیا۔

      مثال کے طور پر اذان ایک پسندیدہ عمل ہے لیکن صلوةِ کسوف و عیدین کے موقعہ پر دی جائے تو اس کا شمار بدعت میں ہوگا۔ اسی طرح ذکر و تسبیح ایک مسنون عمل ہے مگر اجتماعی و یکجائی صورت میں یہی چیز بدعت کہلائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ سے اذان کے بعد صلوة و سلام کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ : "الاصل سنة و الکیفیة بدعة” یعنی اصل سنت ہے اور کیفیت بدعت ہے۔

      لہذا پندرہویں شعبان کی رات میں مخصوص عبادت کے احیاء و اہتمام کے سلسلے میں ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ وہ بدعتِ اضافی کے قبیل سے ہے۔ عمومی ناحیہ سے عملِ صالح کے سلسلے میں رغبت دلانے والے نصوص پائے جاتے ہیں مگر مخصوص عبادت کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل یا تقریر سے کوئی بھی نص ہمیں نہیں ملتی ہے اور نہ ہی صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس سلسلے میں کچھ ثابت ہے کہ جس سے مخصوص کیفیت اور معین تعداد والی عبادت کی کوئی تخصیص ہوتی ہو۔ اور یہ معلوم بات ہے کہ اس طرح کی عبادات کا مرجع صرف اور صرف شریعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو شامہ رحمہ اللہ اپنی کتاب "الباعث علی انکار البدع و الحوادث” (ص:151) میں لکھتے ہیں :

      "شارع نے جن عبادات کی تخصیص نہیں فرمائی ہے اُنہیں اوقات کے ساتھ مختص کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ اچھائی کے تمام اعمال تمام زمانوں میں جاری و ساری ہوں گے بعض کو بعض پر فضیلت نہیں دی جائے گی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ شارع نے جنہیں فضیلت بخشی ہو اور اسے عبادت کی کسی نوع کے ساتھ مختص کیا ہو تو انہیں فضیلت حاصل ہوگی۔ لہذا اگر شارع نے کسی وقت و زمانے کی فضیلت کو عبادت کے ساتھ مختص کیا ہے تو وہ عبادت دیگر اوقات و زمانے کی بنسبت اس مخصوص وقت و زمانے میں ممتاز و باعثِ ثواب ہوگی۔ مثلاً یومِ عرفہ اور عاشوراء کا روزہ رکھنا، رات کے درمیانی حصے میں نماز پڑھنا اور رمضان میں عمرہ کرنا وغیرہ۔ ایسے ہی بعض وہ اوقات ہیں جن میں شارع نے نیک کام کرنے کی فضیلت بخشی ہے جیسے ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام اور شب قدر جو کہ ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے، وغیرہ………. موصوف آگے لکھتے ہیں : حاصل کلام یہ کہ مکلف کو تخصیص کا حق حاصل نہیں ہے بلکہ تخصیص شارع کا حق ہے اور منصبِ تخصیص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت عبادت تهی۔”

      اور اس کی نظیر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا وہ کلام ہے جسے انہوں نے "اقتضاء الصراط المستقیم” ( 2/632) کے اندر ذکر کیا ہے۔ شریعت میں باعظمت ایام اور فضیلت و برکت والے اوقات جس کے متعلق لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انہیں دوسروں پر فضیلت حاصل ہے اس پر بحث و کلام کرتے ہوئے امام موصوف پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

      "خاص تنہا پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا بے اصل اور مکروہ ہے۔ ایسے ہی اس دن کو بطور تہوار منانا، کهانا تیار کرنا اور زیب و زینت کا اظہار کرنا یہ ان ایجاد کردہ بدعی تہواروں کی قبیل سے ہے جن کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اسی طرح جامع مسجد، محلوں یا راستے اور بازاروں کی دیگر مساجد میں "صلوة الالفیہ” کے لئے جو اجتماع ہوتا ہے یہ بھی مُحدَث و ایجاد کردہ ہے کیوں کہ یہ اجتماع مقید نام، مقررہ تعدادِ رکعت اور متعینہ قرأت کی صورت میں ایک نفلی نماز کے لئے ہوتا ہے جو کہ غیر مشروع اور مکروہ ہے۔ صلوة الالفیہ والی روایت محدثین اہلِ علم کے نزدیک موضوع و منگهڑت ہے۔ اور جب معاملہ ایسا ہے تو اس کو دلیل بنا کر کسی نماز کو مستحب قرار دینا جائز نہیں ہے۔ پس اس کے ذریعہ بتقاضائے عمل مستحب ماننا مکروہ ہے۔ اور اگر ایسا ہی معاملہ ہر فضیلت والی رات کے سلسلے میں کیا جائے کہ اس کے لئے منگهڑت نماز خاص کی جائے اور اس کے لئے اجتماع کیا جائے تو عیدین اور عرفہ کی راتوں کو بھی "صلوة الالفیہ” کی طرح یا اس میں کمی و بیشی کر کے نماز قائم کی جا سکتی ہے۔”

      5 – یہی وجہ ہے کہ علما کی ایک بڑی جماعت نے اس رات میں مخصوص نماز پڑھنے اور قیام وغیرہ کرنے سے بچنے اور دور رہنے کی تاکید کی ہے اور انہیں بدعات و منکرات میں شمار کیا ہے۔ یہاں بعض علما کے اقوال نقل کئے جا رہے ہیں :

★ عبد الرحمن بن زید بن أسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں : "میں نے اپنے فقہاء و مشائخ کو پندرہویں شعبان کی رات کی طرف توجہ دیتے ہوئے نہیں پایا، نہ کسی کو حدیثِ مکحول کا ذکر کرتے ہوئے پایا اور نہ کسی کو ایسا دیکھا کہ وہ اس رات کو دیگر راتوں پر فضیلت دیتے ہوں۔” (أخرجه ابن وضاح في البدع/100 بإسناد صحيح) حدیثِ مکحول سے مراد وہ ثابت شدہ حدیث ہے جو پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہے۔ جیسا کہ ابتداء ہی میں اس کا بیان ہو چکا ہے۔

★ حافظ عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں : "نصف شعبان کی رات والی نماز کی حدیث باطل ہے۔” (تخريج الاحیاء 1/ 238)

★ صاحبِ کتاب السنن و المبتدعات (ص: 145)  نے امام نووی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ : "رجب و شعبان کی نمازیں دو منکر و قبیح بدعتیں ہیں۔”

★ شیخ ابو شامہ رحمہ اللہ "الباعث” (ص : 38) کے اندر پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت والی احادیث پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں : "اس رات کی فضیلت والی حدیث میں مخصوص نماز کا بیان نہیں ہے، اس سے تو صرف اس رات کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ اور قیام اللیل سال کی تمام راتوں میں مستحب ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھا۔ پس یہ رات انہیں راتوں کی طرح ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے اور عبادت کرتے تھے۔ ہاں! مخصوص ہیئت و صفت پر مشتمل نماز کے ذریعہ بعض راتوں کی تخصیص اور صلوةِ جمعہ و عیدین و تراویح جیسی اسلامی شعائر کی طرح اس کا اظہار کرنا کہ لوگ اسے برابر کرتے رہیں، اسے اصل وضع پر قائم رکهیں، چھوٹے بچوں کو سکهلائیں، ان کے والدین نہایت الفت و محبت کے ساتھ فرائض کی محافظت کی طرح بلکہ اس سے بهی زیادہ اس کی محافظت پر زور دیں نیز ان شعائر کے اظہار کے لئے زیب و زینت، چراغاں و آتش بازی اور مال و دولت کے ذریعہ اسلامی عیدوں کی طرح بلکہ اس  سے بڑھ کر اہتمام کرنا جیسا کہ عوام میں یہ ساری چیزیں معروف و مشہور ہیں تو یہ سب کی سب محذور و منکر ہیں۔ اور اس طرح کے اظہار و اہتمام میں حق کی روشنی باطل کی ظلمت و تاریکی کے ساتھ مختلط ہو کر رہ جاتی ہے۔” شیخ نے اسی کتاب کے ص: 34 تا 38 کے اندر اپنے دور میں ہونے والے منکرات، فسق و فجور اور اس رات میں اہتمام کی وجہ سے اختلاطِ مرد و زن نیز دیگر بدعات و خرافات اور عوام سے سرزد ہونے والے مخالفاتِ سنت کو بھی بیان کیا ہے۔

      (اس سلسلے میں علما کے مزید اقوال کے لیے السنن و المبتدعات ص : 144 145، اور الإبداع في مضار الابتدع ص : 286 ، 293 ملاحظہ فرمائیں۔)

      6 – جو شخص پندرہویں شعبان کی شب کو شبِ قدر گمان کرے اور یہ کہے کہ اس رات میں نسخِ آجال ہوتی ہے تو یہ بہت دور کی کوڑی لانا ہوا کیوں کہ نصِ قرآن سے صریح طور پر ثابت ہے کہ قرآن کا نزول رمضان میں ہوا نہ کہ شعبان میں۔ اس کی تفصیل کے لئے "تفسیر القرطبي” (16 / 128)  اور "تفسير ابن کثیر” (4 / 127)  وغیرہ دیکھیے۔

      7 – طرطوش نے اپنی کتاب "الحوادث و البدع” (ص : 32) میں اس نماز کی اصلیت اور بیت المقدس کے اندر پندرہویں شعبان میں اس کے احیاء کے اتمام کی کیفیت کو ذکر کیا ہے۔ کہتے ہیں : مجھ سے ابو محمد المقدسي نے بیان کیا کہ : "ہمارے یہاں بیت المقدس میں رجب و شعبان میں پڑھی جانے والی نماز "صلوة الرغائب” کبھی نہیں پڑهی جاتی تھی۔ یہاں سب سے پہلے 448ھ میں اس کی ایجاد ہوئی۔ نابلس سے ابن ابی حمراء نامی ایک شخص بیت المقدس آیا، وہ بڑا خوش الحان قاری تها، اس نے مسجدِ اقصٰی میں پندرہویں شعبان کی رات میں یہ نماز پڑھنا شروع کیا، پہلے اس کے پیچھے صرف ایک آدمی تھا پھر ان دونوں کے ساتھ تیسرا چوتھا آدمی مل گیا یہاں تک کہ نماز مکمل ہونے تک ایک بڑی جماعت اس کے ساتھ مل گئی، پھر آئندہ سال بهی وہی شخص آیا تو ایک جمِ غفیر نے اس کے پیچھے نماز پڑھی۔ پھر یہ نماز مسجدِ اقصی اور دیگر مسجدوں و گھروں میں عام ہوگئی۔ اور آج تک اس پابندی سے ادا کیا جانے لگا گویا کہ یہ کوئی مسنون عمل ہے۔”

      آپ بدعات کے مہلکات، عوام میں اس کی وسعت و پھیلاؤ اور اس کے احیاء و اہتمام کے سلسلے میں جاہلوں کے نمایاں کردار کو دیکھیے کہ کس طرح ایک بدعت مشروع سنت کا روپ دھار لیتی ہے۔ جب کہ اس کے بالمقابل آپ لوگوں کو پائیں گے کہ وہ ثابت شدہ سنتوں پر عمل کرنے میں بہت ہی زیادہ سستی و کاہلی کرتے ہیں۔ اللہ ہی معین و مددگار ہے۔

      8 – اس منگهڑت نماز کے متعلق ساتویں صدی ہجری میں امام عز بن عبدالسلام اور امام ابو عمرو بن الصلاح رحمهما الله کے مابین بڑا اہم مفید علمی مناظرہ ہوا تھا۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ جب امام عز بن عبدالسلام جامع اموی میں خطیب مقرر ہوئے تو انہوں نے لوگوں کو اس نماز سے دور رہنے کی تاکید کی اور واضح کیا کہ یہ بدعت و منکر ہے لیکن عمرو بن الصلاح اور ایک دوسرے عالم ان کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ پھر امام عز بن عبدالسلام نے "الترغيب عن صلوة الرغائب الموضوعة و بیان ما فیها من مخالفة السنن المشروعة” نامی رسالہ تحرير فرمایا۔ جواباً ابن الصلاح نے ایک دوسرے رسالہ میں اس کی تردید فرمائی تو عز بن عبدالسلام نے اس تردیدی رسالہ کی نہایت متانت و سنجیدگی سے تردید فرمائی اور ان کی لغزشوں کو واضح کیا۔

      واضح ہونا چاہئے کہ جو لوگ ابن الصلاح کے جوازی فتویٰ پر عمل کرکے اس بدعت کا احیاء کرتے ہیں اگر وہ اس مفید علمی مناظرہ کی طرف رجوع کریں تو ان پر ابن الصلاح کے موقف کا اضطراب اور عز بن عبدالسلام کے دلائل کی قوت و مضبوطی واضح ہو جائے گی اور معلوم ہوگا کہ اس نماز کے بدعی ہونے کی تائید علما کی ایک بہت بڑی جماعت نے کی ہے۔ یہ علمی مناظرہ شیخ البانی اور شیخ زہیر الشاويش رحمہما اللہ کی تحقیق سے کتابی شکل میں مطبوع ہے۔

تبصرے بند ہیں۔