ماہِ شوال کے چھ روزے – فضائل ومسائل

ذکی الرحمن فلاحی مدنی

ہر سال کی طرح ماہِ صیام رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہوا۔ ہر ایک نے اپنے ظرف اور بساط بھر توفیقِ ربانی کے تحت اس سے فائدہ اٹھایا۔ لیکن اب یہ گزرنے کو ہے،مگر کیاایک صاحبِ ایمان بندے کانیک عملی کا رویہ قبل از موت منقطع ہوجاتاہے؟قرآن ہمیں اسکا جواب نفی میں دیتا ہے۔ارشادِ باری ہے:(وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْن)(حجر،99)’’اور اس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کاآنا یقینی ہے۔‘‘(یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُون)(آل عمران،102) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کاحق ہے۔تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔‘‘اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:جب تم میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اسکا عمل منقطع ہوجاتا ہے …..۔‘‘[اذا مات احدکم انقطع عملہ……](صحیح مسلمؒ :2682) چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ بندۂ مومن کے اعمال وتکالیفِ شرعیہ کا انقطاع صرف مابعدِ وفات ہونا ممکن ہے۔ اگر رمضان کا مبارک مہینہ گزرنے کی کگار پر ہے، تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مومن سال بھر کے لیے روزہ جیسی عظیم الشان عبادت سے محروم کر دیا گیا۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکرواحسان ہے کہ اس نے روزہ جیسی عبادت کو سارے سال کے لیے مشروع وجائز رکھا ہے۔
حضرت ابوایوبؓ انصاری روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:جو رمضان کے روزے رکھے پھر اسکے فوراً پیچھے شوال میں چھ روزے رکھے تو اسکے لیے پورے سال کے روزوں جیسا ہے۔‘‘ [من صام رمضان ثمّ أتبعہ ستا من شوال کان کصیام الدھر](صحیح مسلمؒ :1164) حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ:میرے خلیل(سچے دوست)ﷺنے تین چیزوں کی وصیت کی ہے۔انمیں یہ بھی ذکر کیا کہ ہر ماہ سے تین دن کے روزے رکھے جائیں۔‘‘[أوصانی خلیلیﷺبثلاث وذکر منھا صیام ثلاثۃ أیام من کل شھر](صحیح مسلمؒ :721) افضل بات یہ ہے کہ حدیثِ بالا میں مذکور تین دن کے روزوں کو ایامِ بیض یعنی قمری ماہ کی تیرہ،چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزوں پر محمول کیا جائے۔اس بابت حضرت ابوذرؓ کی حدیث میں صراحت ملتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:اے ابوذرؓ! اگر تم ہر ماہ تین دن کے روزے رکھو تو روزہ رکھو تیرہ،چودہ اور پندرہ کا۔‘‘[یاأباذرٍ اذا صمت من کل الشھر ثلاثۃ ایام؛فصم ثلاث عشرۃ وأربع عشرۃ وخمس عشرۃ](صحیح الجامع:673)
سرِدست اس مختصر مضمون میں ماہِ شوال کے چھ روزوں کے فضائل ومسائل سے حتی المقدور اجمال کے ساتھ تعرض کیا گیا ہے۔وباللہ التوفیق۔
شوال کے چھ روزوں کا شرعی حکم
شوال میں چھ روزے رکھنا سنت ہے۔اسکی دلیل حدیثِ ابو ایوبب انصاریؓ ہے جسکا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔جمہورِ فقہائے اسلام بشمول مالکیہؒ ،شافعیہؒ ، حنابلہؒ ومتاخرین احنافؒ کے نزدیک یہ روزے سنت ہیں۔(الموسوعۃ الفقھیہ:2/9979)امام ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:بیشتر اہلِ علم کے نزدیک یہ روزے مستحب ہیں۔‘‘(المغنی،ابن قدامہؒ :6/193)
ان روزوں کی فضیلت
حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے مروی حدیث میں آپﷺ نے ان روزوں کو صیامِ دہر یعنی پورے سال کے روزوں کے برابر قرار دیا ہے۔ابن ماجہؒ کی ایک روایت سے صیام دہر کی تفسیر ہوتی ہے۔آپﷺ کا فرمان ہے:جو عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھتا ہے تو یہ پورے سال جیسا ہے۔(مَن جَاء بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا وَمَن جَاء بِالسَّیِّءَۃِ فَلاَ یُجْزَی إِلاَّ مِثْلَہَا وَہُمْ لاَ یُظْلَمُون)(انعام،160)’’جواللہ کے حضور نیکی لیکر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے،اور جو بدی لیکر آئے گااس کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا ہے،اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا۔‘‘[من صام ست ایام بعد الفطر کان تمام السنۃ’من جاء بالحسنۃ فلہ عشر أمثالھا…الخ](سنن ابنِ ماجہؒ :1715 مع تصحیح البانیؒ ) ایک اور روایت میں ہے:اللہ نے ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر بنایا ہے، سو (رمضان کا)ایک مہینہ دس ماہ کے برابر ہوا اور اسکے بعد چھ روزے (بقیہ دو ماہ کے برابر ہوئے جس سے) سال کا تکملہ ہوا۔‘‘[جعل اللہ الحسنۃ بعشر امثالھا؛الشھر بعشرۃ أشھر وصیام ستۃ ایام بعد الشھر تمام السنۃ](صحیح الجامع:3094)نیز ایک روایت یہ ہے:ایک ماہ(رمضان) کے روزے دس ماہ کے مساوی ہوئے اور چھ روزے اسکے بعد دو ماہ کے مساوی ہوئے۔لہٰذا یہ سال بھر کے روزوں کا اتمام ہے۔[صیام شھر بعشرۃ أشھر وستۃ ایام بعدہ بشھرین،فذالک تمام السنۃ](صحیح الجامع:3851) امام نوویؒ حضرات علمائے دین کے حوالے سے یہی تشریح کرتے ہیں۔(شرح مسلمؒ ،امام نوویؒ :4/186)
ان روزوں کے فوائد
حافظ ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں:ماہِ رمضان کے بعد ماہ شوال کے چھ روزوں سے سارے سال روزوں کے التزام کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے۔ایسا کیوں ہے؟اسکی چند وجوہات درج ذیل ہیں:
[أ] ماہ شعبان اور ماہِ شوال کے روزوں کی حیثیت فرض نمازوں کے آگے پیچھے پڑھی جانے والی سنن ونوافل کی سی ہے۔سنت نمازوں کی مشروعیت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بندے کی فرض نمازوں میں پائے جانے والے خلل ونقص کی تلافی وتدارک کے لیے رکھی گئی ہیں۔روایات میں آیا ہے کہ بروزِ قیامت نفل عبادات کے ذریعہ فرائض کی تکمیل واتمام کیا جائے گا۔اس لحاظ سے دیکھئے تو اکثر لوگوں کے فرض روزوں میں کچھ نا کچھ خلل یا کمی واقع ہوہی جاتی ہے،چنانچہ ان روزوں کے ذریعہ سے اس نقص وخلل کو رفع کرنے کا نسخہ مشروع ہوا ہے۔
[ب] رمضان کے بعد شوال میں بھی روزوں کا التزام کرنا دلیل ہوتا ہے کہ بارگاہِ ایزدی میں رمضان کے فرض روزے قبول کر لیے گئے۔قرآن وحدیث کی نصوص میں جا بجا یہ اصول ملتا ہے کہ اللہ رب العزت اگر بندہ کے کسی نیک عمل کو مقبول بنا لیتے ہیں تومزید اس کی توفیق دیتے ہیں۔اسی لیے بعض علمائے دین فرماتے ہیں کہ کسی نیکی کا ثواب یہی ہے کہ اسکے بعد اگلی نیکی کی توفیق مل جائے۔ایک نیکی کے فوراً بعد دوسری نیکی کرنا پہلی نیکی کے قبول کی علامت ہے۔ بالکل اسی طرح ایک نیکی کے بعد برائی کا ارتکاب کرنا علامت ہوتا ہے کہ سابقہ نیکی شرفِ قبولیابی سے محروم رہی ہے۔
[ج] ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان میں روزے رکھنے سے سابقہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں،لیکن خود رمضان المبارک میں ارتکاب کی گئیں کوتاہیوں کی مغفرت کا ایک مؤثر ترین وکارگر وسیلہ شوال کے روزے ہیں۔
[د] رمضان کے روزہ داروں کے اجر کو عید الفطر کے دن بانٹا جاتا ہے کہ اس دن کو انعام کا دن (یوم الجوائز)بھی کہا گیاہے۔اب عید الفطر کے بعد پھر روزہ رکھنا اس نعمت واجر پر شکرگزاری کی دلیل ہے۔ واضح رہے کہ گناہوں کی مغفرت وسِتر سے بڑھ کرانسان کے لیے کوئی نعمت نہیں ہوسکتی۔اللہ کے رسولﷺ کا اسوہ یہ تھا کہ آپ عبادات وقیام لیل کا اس درجہ اہتمام فرماتے کہ پائے مبارک ورم آلود ہوجاتے۔ آپﷺ سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سابق ولاحق تمام گناہ معاف فرما دیے ہیں(پھر ایسا کیوں)؟آپ ﷺنے یہ سن کر فرمایا: کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘[افلا أکون عبدا شکورا](صحیح بخاریؒ ۔صحیح مسلمؒ )
[ھ] اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو صومِ رمضان کی ادائیگی کی نعمت وتوفیق پالینے پر ذکرِ الٰہی وتکبیر وتسبیح وغیرہ طریقوں سے اپنی شکرگزاری کے اظہار کا حکم فرمایا ہے۔(شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُواْ الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُواْ اللّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ)(بقرہ، 185)’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجوانسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اورحق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اورجس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو او شکرگزار بنو۔ ‘‘
لہٰذا رمضان کی توفیق پالینے، اس پر تائید واعانتِ ربانی سے مستفیض ہونے اورگناہوں کی مغفرت پر شکرگزاری میں یہ بھی شامل ہے کہ اسکے بعد ازخود چند روزے رکھے جائیں۔ حضرت وہیب بن الوردؒ سے اگر کسی نیکی پر مرتب ہونے والے ثواب کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو فرماتے: نیک عمل کے اجر وثواب کے بارے میں مت پوچھو، بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ اس عمل کی ادائیگی پر شکریہ کیسے ادا کیا جائے کہ رحمن ورحیم رب نے تمہیں اسکی توفیق عطا فرمائی۔‘‘بارگاہِ رب سے بندہ پر دین ودنیا میں حاصل ہونے والی ہر نعمت موجب شکر وسپاس مندی ہے،لیکن غور کیجئے تو شکر گزاری کی توفیق پالینا بھی ایک نعمتِ خداداد ہی ہے۔اس طرح ہر شکر گزاری ایک دوسری مستوجب الشکرنعمت کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ کسی نے سچ کہا کہ بندگانِ خدا کے لیے ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کا شکر ادا کر سکیں،لہٰذا شکر گزاری کی حقیقت اتنی ہی ہے کہ ہم اپنے تئیں ادائیگیِ شکر سے عاجزی ودرماندگی کا اعتراف واقرار کر لیں۔‘‘(لطائف المعارف،ابن رجب حنبلیؒ :2/34۔36 بالاختصار)
ان روزوں کے احکام ومسائل
(1) شوال کے چھ روزوں کو عید الفطر کے معاً بعد رکھنا مستحب ہے کہ یہ نیکی وخیر کے کاموں میں مسارعت ومسابقت کی قبیل سے ہے۔ارشادِ باری ہے:(وَسَارِعُواْ إِلَی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ)(آل عمران،133)’’دوڑ کرچلو اس راہ پرجوتمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف لے جاتی ہے جو کی وسعت میں زمین اور آسمانوں جیسی ہے،اور خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے۔ ‘‘(سَابِقُوا إِلَی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَاء وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَرُسُلِہِ ذَلِکَ فَضْلُ اللَّہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاءُ وَاللَّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ)(حدید،21)’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین جیسی ہے،جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اُسکے رسولوں پرایمان لائے ہوں۔یہ اللہ کا فضل ہے،جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے،اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘(فَاسْتَبِقُوا الخَیْْرَاتِ إِلَی اللہ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعاً)(مائدہ،48) ’’لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔آخر کار تم سب کوخدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔‘‘
(2) ان روزوں کو پورے ماہِ شوال میں بانٹ کر بھی رکھاجاسکتا ہے اور ایک ساتھ بھی۔متابعت کے ساتھ رکھنا ضروری نہیں کیونکہ اللہ کے رسولﷺ نے روزوں کا تذکرہ مطلقاً فرمایا ہے،اسمیں متابعت وعدمِ متابعت کا ذکر نہیں ہے۔(دیکھیں مذکورہ بالاحدیثِ ابو ایوب انصاریؓ)
(3) جو ان روزوں کو ایک بار رکھ لے اس پر لازم نہیں ہوتا کہ آئندہ سال بھی انکی پابندی کرے،البتہ ہر سال رکھنا مستحب ومسنون رہے گا۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:اللہ کو محبوب ترین عمل وہ ہے جو دائمی رہے اگرچہ تھوڑا کیوں نہ ہو۔‘‘[أحب الأعمال الی اللہ أدومھا وان قلّ](صحیح بخاریؒ ۔صحیح مسلمؒ )
(4) ان روزوں میں بھی دیگر تمام مقیّد نفل روزوں کی طرح رات ہی میں نیت کر لینا لازمی ہے۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:جو رات ہی میں فجر سے پہلے پہلے روزہ کی نیت نہ کر ے تو اسکا روزہ نہیں ہے۔‘‘[من لم یبیّت الصیام قبل الفجر فلا صیام لہ](صحیح الجامع:6534)امام شوکانیؒ فرماتے ہیں:یہ حدیث دلیل اس بات کی ہے کہ نیت رات ہی کے کسی حصہ میں کی جائیگی۔متعدد صحابہؓ وتابعینؒ حضرت عبداللہ بن عمرؓ،حضرت جابر بن یزیدؓ اور امام مالکؒ ،لیثؒ اور ابن ابی ذئب ؒ وغیرہ نے اس حکم میں فرض اور نفل روزوں کی تفریق نہیں کی ہے۔‘‘(نیل الأوطار،امام شوکانیؒ :7/30 مختصراً)امام ابنِ حزمؒ ،امام صنعانیؒ ،علامہ ابن عثیمینؒ اور علامہ بن بازؒ نے بھی طویل مناقشہ وتقابل کے بعدیہی موقف اختیار کیا ہے۔(المحلی،ابن حزمؒ :4/51۔سبل السلام،صنعانیؒ :3/308۔الشرح الممتع،ابن عثیمینؒ : 6/372۔فتاوی الصیام،ابن عثیمینؒ :ص185۔الحلل الابریزیۃ،بن بازؒ :2/135)
(5) ان روزوں کو رکھنا شروع کردینے سے لازم نہیں ہوجاتا کہ چھ روزوں کو رکھا ہی جائے یا رکھے ہوئے روزہ کو پورا کیاہی جائے۔جو چھ روزے رکھ لے تو بہت بہتر،بصورتِ دیگر روزہ توڑ دینے یاچھوڑ دینے سے اس پر کوئی حرج نہیں۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:نفلی روزہ رکھنے والا اپنی ذات کا حاکم ہوتا ہے،اگر چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو چھوڑ دے۔‘‘[الصائم المتطوع امیر نفسہ:ان شاء صام وان شاء أفطر](صحیح الجامع:3854)
(6) جس پر رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہے، اسکے لیے افضل ہے کہ پہلے وہ قضا پوری کرے اگرچہ شوال کے روزے اس سے فوت ہوجائیں۔ایسا اس لیے کہ رمضان کے روزوں کی قضا واجب الذمہ ہے جسکی براء ت کرنا ضروری ہے، نیز وہ فرض ہیں جو بہ ہر حال نفل کے مقابلے میں مقدم رکھے جانے کا حق دارہوتا ہے۔اب اگر کوئی فرض روزوں کی قضا کو مؤخر کرکے پہلے شوال کے چھ روزے رکھتا ہے تو اہلِ علم کی اس بارے میں دو رائے ہیں۔ایک یہ کہ اسکو اِن روزوں کی فضیلت وثواب حاصل نہ ہوگا کہ تمام احادیث میں ان روزوں کا تذکرہ اس طرح آیا ہے کہ ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد انکو رکھا جائے۔ (دیکھیں ابتدا میں مذکورہ روایات۔تحفۃ المحتاج،امام ہیتمیؒ :3/457۔الفروع،ابن مفلحؒ :3/108۔فتاوی اللجنۃ الدائمۃ:10/392)دوسر قول اس بارے میں یہ ہے کہ اگر اس نے عذرِ شرعی کی وجہ سے رمضان میں روزے ترک کئے تھے تو وہ انکی قضا سے پہلے شوال کے روزے رکھ سکتا ہے ۔(حاشیۃ البجیرمی ؒ علی الخطیبؒ :2/352)معتدل بات یہ ہے کہ اگر رمضان کے اتنے روزے فوت ہوگئے تھے جنکی قضا کرنے سے شوال میں چھ روزے رکھنا مشکل ہوگا،تو پہلے شوال کے روزوں کو رکھ لیا جائے،بصورتِ دیگر رمضان کی قضا ہی کو اولیت دی جانی چاہیے۔(حکم صیام الست،خالد المصلح:ص153)
(7) بعض لوگوں نے سابقہ احادیث کی روشنی میں صیامِ دہر یعنی روزانہ روزہ رکھنے کو مستحب مانا ہے۔انکا استدلال یہ ہے کہ اگر صیامِ دہر مکروہ ہوتا تو احادیث میں اس سے تشبیہ نہ دی جاتی۔علامہ ابن القیمؒ اس استدلال کو فاسد مانتے ہوئے کہتے ہیں کہ وجہ تشبیہ دراصل ایک نیکی کا دس کے برابر ہونا ہے نہ کہ صیامِ دہر۔(تھذیب سنن ابوداؤدؒ :1/494)خود اللہ کے رسولﷺ سے صیامِ دہر کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا:ایسے شخص نے نہ روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔‘‘[لا صام ولاأفطر](صحیح مسلمؒ :1162)ایک روایت کے الفاظ ہیں:نہیں روزہ دار ہوا وہ شخص جس نے ہمیشہ روزہ رکھا۔‘‘[لاصام من صام الأبد](صحیح بخاریؒ ۔صحیح مسلمؒ )پھر صحیحین میں آپﷺ ہی کا ارشادِ گرامی ہے کہ:حضرت داؤدؑ کا روزہ افضل ترین ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے۔‘‘ [افضل الصیام صیام داؤد؛کان یصوم یوما ویفطر یوما] (صحیح بخاریؒ ۔صحیح مسلمؒ )
(8) ان روزوں کو کسی اور ماہ میں اسی نیت کے ساتھ رکھنا درست نہیں کیونکہ یہ نصوص میں وارد تخصیص کے خلاف ہے،نیز ایسا کرنے سے نیک کام میں مبادرت ومسارعت کے شرعی حکم کا ترک لازم آتا ہے،اور مزید یہ کہ یہ امراِن روزوں کی حیثیت کو مجروح کرتاہے جو فرائض کے بعدنوافل جیسی ہے۔(دیکھیں تھذیب سنن ابوداؤدؒ : 1/490۔491)
(9) اگر کسی شرعی عذر مثلاً بیماری یا رمضان کے روزوں کی قضا کے باعث شوال میں یہ روزے نہیں رکھے جاسکے تو قریب ترین فرصت میں انکی قضاکی جاسکتی ہے۔اورمانا جائے گا کہ جس طرح فرض یا نفل نمازوں کو کسی عذرِ شرعی کی خاطر مؤخر کیا جائے تو انکی قضا کرلینے سے ثواب حاصل ہوجاتا ہے اسی طرح ان روزوں کا معاملہ بھی ہوگا۔(الشرح الممتع:6/372 بالاختصار)
(10) بعض کوتاہ بینوں کا خیال ہوتا ہے کہ ہر سال پابندی سے ان روزوں کا التزام کرنے سے عوام الناس میں انکی فرضیت کا غلط تصور پھیل سکتا ہے۔اس طرح کی غلط اندیشیاں بر خود غلط وفاسد ہیں۔اس خیال کو مان لیا جائے تو فرض نمازوں کے آگے پیچھے سنن ونوافل کو ترک کرنا بھی لازم آئے گا۔مزید یہ کہ اجتماعی تراویح وغیرہ علاماتِ ماہِ رمضان کا غیاب اور اہلِ علم حضرات کی وضاحت ورہنمائی کسی ایسے تصور کے انتشار سے مانع ہوگی۔حقیقی بات یہ ہے کہ ان روزوں کی شکل میں ربِ رحمن ورحیم نے ہمارے لیے خیرات در خیرات لوٹنے اور اپنے جذبۂ شکرگزاری وسپاس مندی کو ظاہر کرنے کا زریں موقع دیا ہے۔ارشادِ باری ہے:(مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُواْ یَعْمَلُون)(نحل،97)’’جوشخص بھی نیک عمل کرے گا،خواہ وہ مرد ہو یا عورت،بشرطیکہ ہو وہ مومن،اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور(آخرت میں)ایسے لوگوں کو ان کا اجر انکے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔‘‘

تبصرے بند ہیں۔