ماہ رمضان- ساعتوں کا درست استعمال

ذکی الرحمن فلاحی مدنی
ماہِ رمضان المبارک کا ہمارے سروں پر سایہ فگن ہونا اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور انعام کا مظہر ہے۔ رمضان المبارک کی آمد وہ عظیم الشان تمنا اور آرزو ہے جس کو سرورِ عالم حضرت محمدﷺ اپنے رب سے مانگا کرتے تھے۔ آپﷺ کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی ہے کہ اے اللہ ہمارے لیے ماہِ رجب اور ماہِ شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان المبارک تک پہنچنے کی توفیق عنایت کردے۔ ‘‘ [اللھم بارک لنا في رجب وشعبان، وبلغنا رمضان المبارک] (مسند احمدؒ :1/259۔ مجمع الزوائد، ہیثمیؒ :4774)
اللہ کے رسولﷺ کا معمول تھا کہ اپنے اصحابؓ ورفقاء کو رمضان المبارک کی آمد کی خوش خبری سناتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’تمہارے پاس ایک مبارک مہینہ آنے والا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر روزے فرض کیے ہیں، اس مہینے کی شان یہ ہے کہ اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین کو پابجولاں کردیا جاتا ہے، اسی ماہ میں وہ ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یقیناًجو اس رات کے خیر سے محروم رہا وہی سب سے بڑا محروم ہے۔ ‘‘ [قد جاء کم شھر مبارک کتب اللہ علیکم صیاماً، فیہ تفتح أبواب الجنان وتغلق أبواب الجحیم وتغل فیہ الشیاطین، فیہ لیلۃ خیرٌ من ألف شھر من حرم خیرھا فقد حرم] (مسند احمدؒ :2/230۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ :3/1۔ صحیح لغیرہ عند البانیؒ ، تمام المنۃ:ص395)
اسلافِ صالحین کا طرزِ عمل بھی یہی تھا کہ سال کے چھ ماہ تک دعائیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں رمضان المبارک تک پہنچنے کی توفیق مرحمت فرمادے، اور سال کے بقیہ چھ ماہ اس دعا میں گزارتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں جن نیک اعمال وفرائض کی توفیق مرحمت فرمائی تھی، انہیں اپنی بارگاہ میں مقبول بنالے۔ اس ماہِ مبارک کی عظمت واہمیت اُس حدیث میں بھی ملتی ہے جس کے مطابق تین ساتھی تھے جن میں سے دو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے جبکہ کچھ مدت کے بعد تیسرا ساتھی اپنے گھر ہی میں رہتے ہوئے فوت ہوا۔ خواب میں کسی صحابیؓ نے اس تیسرے ساتھی کو پہلے دوساتھیوں سے افضل مقام ومرتبہ پر فائز دیکھا تواگلے دن اٹھ کر اللہ کے رسولﷺ سے اس بابت استفسار کیا۔ اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایاتھا کہ ایسا کیوں نہ ہو؟ کیا اس تیسرے ساتھی نے ان دونوں کی شہادت کے بعد اتنی اور اتنی نمازیں ادا نہیں کی تھیں؟ کیا اس نے ماہِ رمضان المبارک کوپاکر اس میں روزے نہیں رکھے تھے؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، ان کے مابین اُتنی ہی دوری ہوگی جتنی آسمان اور زمین کے مابین ہوتی ہے۔ ‘‘ [ألیس قد صلی بعدھما کذا وکذا صلاۃ وأدرک رمضان المبارک فصامہ؟ والذی نفسی بیدہ أن بینھما لأبعد مما بین السماء والأرض] (مسند احمدؒ :2/333۔ صحیح ابن حبانؒ : 2982۔ مجمع الزوائد، ہیثمیؒ :10/124)
رمضان المبارک خدائی برکتوں اور انعامات کا مہینہ ہے، یہ ایک ملاقاتی یا مہمان ہے جس کا اکرام اسی کے شایانِ شان ہونا چاہیے۔ اس ماہ کو مہینوں کا سردار بھی کہا گیا ہے۔ نہ جانے کتنے اللہ کے نیک بندے ایسے تھے جنہیں امسال ماہِ رمضان المبارک کی آمد کا انتظار واشتیاق تھا لیکن تقدیرِ الٰہی نے انہیں اس کی مہلت نہ دی۔ ماہِ رمضان المبارک کا پالینا ایسی نعمت ہے جو شکرِ الٰہی اور یادِ الٰہی دونوں کی مستوجب ہوتی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ہم سب کو رمضان المبارک کا استقبال جملہ گناہوں اور کوتاہیوں سے توبہ کرتے ہوئے کرنا چاہیے۔ اس میں کثرت کے ساتھ قرآن کی تلاوت وتدبر، ذکرِ الٰہی، دعا واستغفار، صدقہ واحسان اور نیکی ونفل عبادات انجام دینی چاہئیں۔ پیچھے گزر چکا ہے کہ جو اس مہینہ کی خیر وبرکت سے محروم رہا اس سے بڑا بدنصیب کوئی نہیں ہے۔اس ماہ میں کرنے کے چند کام نیچے اختصار کے ساتھ درج کئے جاتے ہیں:
(1) تمام عبادات و اعمال میں اخلاصِ نیت کا استحضاراور اس بات کی کوشش کہ روزہ سے متعلق تمام فرائض و سنتیں آنحضرتﷺ کی کامل اتباع میں انجام دی جائیں۔
(2) رمضان المبارک کے روزے اور عبادتیں پورے ارکان، واجبات اورسنتوں کے ساتھ ادا کرنے کا اہتمام کرنا۔ ساتھ ہی روزے کو باطل یا اس کے اجرو ثواب کوکم کر دینے والے اعمال مثلاً کذب بیانی، جھوٹی گواہی، غیبت اور لا یعنی تضییعِ اوقات وغیرہ سے مکمل پرہیز کرنا۔
(3) فقراء، مساکین اور ضرورت مند رشتہ داروں پر خوب خوب خیرات و صدقات کرنا، اس میں دن رات، کھلے چھپے اور بتا کر دینے کی قیدنہیں۔ ربِ کریم فرماتا ہے: (الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُم بِاللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ سِرّاً وَعَلاَنِیَۃً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ) (البقرۃ:274) ’’جو لوگ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔‘‘
(4) کثرت کے ساتھ قرآن کی تلاوت اور تدبر وتفکر کااہتمام کرنا، اسلافِ صالحین کی عادت تھی کہ رمضان المبارک کی آمد پر درس وتدریس سے فارغ ہوکر قرآن کی تلاوت وتدبر میں منہمک ہو جاتے تھے۔
(5) توبہ واستغفاراور مسنون اوراد واذکارکا بکثرت اہتمام کرنا۔
(6) روزہ داروں کو افطار کرانا۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:جو کسی روزہ دار کو افطار کرائے تو اس کے لیے روزہ دار کے برابراجر ہے، لیکن روزہ دار کے اجر میں اس سے کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ‘‘ [من فطّر صائماً کان لہ مثل اجرہ غیر أنّہ لا ینقص من أجرالصائم شیئاً] (مسند احمدؒ :4/ 116۔ سنن ترمذیؒ :804۔ سنن ابنِ ماجہؒ :1764)
(7) قرآن کی تلاوت وتدبر اور اذکار و تسبیحات کی خاطر زیادہ وقت مسجدوں میں گزارنا۔ آپﷺ کا معمول تھا کہ نمازِ فجر کے بعد سے طلوعِ آفتاب تک اپنی جگہ بیٹھے رہا کرتے۔ [کان اذا صلّی الغداۃ جلس فی مصلّاہ حتیٰ تطلع الشّمس] (صحیح مسلمؒ :286) نیز حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:جو فجر کی نماز با جماعت ادا کرے اور طلوعِ آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتا رہے پھر دو رکعت (چاشت) پڑھے تو اس کے لیے مکمل حج و عمرہ جیساثواب ہے۔ آپﷺ نے تین بارمکمل مکمل مکمل کہا تھا۔ [من صلّی الفجر فی جماعۃ ثمّ قعد یذکر اللہ حتی تطلع الشّمس، ثمّ صلّیٰ رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃتامّۃ تامّۃ تامّۃ] (سنن ترمذیؒ :583 مع تحسینِ البانیؒ )
(8) دعا و مناجات کااہتمام کرنا۔ معلوم رہے کہ روزہ د ار کی دعا ردنہیں ہوتی۔ اس لیے ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے لیے، اپنے والدین و اہلِ خانہ کے لیے اور تمام امتِ مسلمہ کے لیے کثرت سے دعائیں کرے۔
(9) ممکن ہو تو ضرور عمرہ ادا کرنا، کیونکہ اس ماہ میں ایک عمرہ کاثواب حج کے برابر بتایا گیاہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ:رمضان المبارک کا عمرہ حج کے برابر ہے۔ [عمرۃ فی رمضان تعدل حجۃ] (صحیح بخاریؒ :1782) ۔ دوسری روایت میں اس حج کے مانند بتایا گیا ہے جو خود آنحضرت ﷺکی رفاقت میں ادا کیا جائے۔ [تعدل حجۃ معی] (سنن ابی داؤدؒ :1990)
(10) اعتکاف کا اہتمام کرنا۔ اعتکاف کا مطلب ہے اللہ کی عبادت و طاعت کے لیے فارغ ہو کر کسی مسجد میں گوشہ نشیں ہو جانا۔ حضرت ابو ہریرہؓبتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ ہر رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے، لیکن جس سال آپﷺکی وفات ہوئی آپﷺ نے بیس دن اعتکاف فرمایا تھا۔ [کان النبیّﷺ یعتکف فی کلّ رمضان المبارک عشرۃ أیّام، فلمّا کا ن العام الّذی قبض فیہ اعتکف عشرین یوماً] (صحیح بخاریؒ :2044)
عزیز دینی بھائیو! آپ ماہِ مبارک کی خصوصیات بھی جان گئے ہیں اور اس میں مطلوبہ اعمال وافعال بھی، اب کہنے سننے اور جاننے سمجھنے کو کیا رہ گیا ہے؟ ہاں ایک چیز ابھی باقی ہے، وہ یہ کہ ہم عزمِ مصمم کریں کہ اب تک جو ہوا سو ہوا، لیکن امسال سے ہم اس مبارک مہینے کی برکتوں اور رحمتوں سے بھرپور استفادہ کریں گے، اور اس روحانی مہینے کی تربیت کے سانچے میں ڈھلے مومنانہ کردار کو تادمِ واپسیں باقی رکھیں گے، اور اس سلسلے میں کسی قسم کی مداہنت ولچک اور غفلت و کوتاہی کو گوارا نہیں کریں گے۔ صدہا مبارک ہیں وہ پاک طینت نفوس جو اس عہد کو وفا کریں اور اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔
اس ماہِ مبارک کے تعلق سے آج ہمارے اندر چار اصناف کے لوگ پائے جاتے ہیں:
(الف) پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کو رمضان المبارک کے آنے، رکنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ بسااوقات ان لوگوں کو رمضان المبارک کی آمدورفت کا پتہ بھی نہیں چلنے پاتا۔ سارے سال کی طرح رمضان المبارک میں بھی ان کا بے دینی و ترکِ عبادات کا رویہ سرِ مو نہیں بدلتا ہے۔ ان حضرات کو اللہ توفیق دے تو دے ورنہ ان کی اصلاح کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ ایمان واسلام کا فیصلہ تو آخرت میں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے لیکن ان کی موجودہ حالت غضبِ الٰہی کو دعوت دینے والی بنی ہوئی ہے۔ والعیاذ باللہ۔
(ب) دوسری قسم ان برساتی مینڈکوں کی ہوتی ہے جو رمضانی برکتوں کی پہلی بارش پر بہت بڑی تعداد میں رونما ہو جاتے ہیں اور بڑی شد و مد کے ساتھ آوازے بلند کرتے ہیں، لیکن جیسے جیسے ابرِ رحمت میں تیزی آتی جاتی ہے اور فیوض و برکات کا سیلاب بہ نکلتا ہے یہ خس و خاشاک کی طرح غائب ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو رمضان المبارک کی آمد پر نمازوں میں حاضری، تلاوتِ قرآن اور نیکیوں کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، لیکن ہفتہ دس دن گزرے نہیں کہ سب چیزوں کو خیرباد کہہ کر اپنی سابقہ روش پر لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بڑی بدبختی، محرومی اور توفیقِ خداوندی سے دوری کی بات ہے۔ اور اندیشہ اس بات کا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی توفیق سے محروم رکھا ہے اس لیے انہیں اس مبارک مہینے میں دل جمعی واستقلال کی کیفیت سے نہیں نوازا، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں سے ناراض ہوتے ہیں ان کو نیکیوں پر جمنے کی توفیق نہیں دیتے ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ عَلِمَ اللّہُ فِیْہِمْ خَیْْراً لَّأسْمَعَہُمْ وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّواْ وَّہُم مُّعْرِضُونَ) (الانفال:23) ۔ ’’اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور ان کو سننے کی توفیق دیتا (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ ان کو سنواتا تو وہ بے رخی کے ساتھ منھ پھیر جاتے۔ ‘‘ سلبِ توفیق کے علاوہ اس کی کوئی دوسری توجیہ سمجھ میں نہیںآتی، ورنہ کون نہیں جانتا کہ رمضان المبارک کا آخری حصہ اس کے اول حصہ سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔ احادیث میں ’’نجات من النار‘‘ اور’’ عتق من النار‘‘ کا وعدہ بھی اسی کے تعلق سے کیا گیاہے اور اسی میں وہ رات (لیلۃ القدر) ہے جو قرآن کی تصریح کے مطابق ہزار مہینوں سے بہتر ہوتی ہے۔
(ج) تیسری قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو رمضان المبارک کے پورے عرصہ میں مساجد کو آباد کرتے نظر آئیں گے، تلاوت، اذکار اور اعمالِ صالحہ کا اہتمام بھی کریں گے، لیکن ماہِ مبارک کے گزرتے ہی یہ لوگ اپنی قینچولی اتار دیتے ہیں۔ ان میں بہت سے افراد کے مسلک کی رو سے توعید کا دن ان تمام محرمات کے ارتکاب کا دن ہوتاہے، جن سے ماہِ مبارک نے انہیں دور کر دیا تھا۔ یہ قسم بھی بڑی حد تک پچھلی قسم سے مشابہ ہے۔ پیارے نبیﷺ نے اپنی دعاؤں میں ہدایت کے بعد گمراہی سے پناہ مانگی ہے، اور قرآن نے بھی یہی تعلیم دی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنتَ الْوَہَّابُ) (آل عمران:8) ’’وہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ: پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے راستے پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔ ہمیں اپنے خزانۂ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاضِ حقیقی ہے۔ ‘‘ ایمان والوں سے یہی مطلوب ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک اپنے رب کی عبادت وفرماں برداری کا شیوہ اپنائے رہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے نبیﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: (وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْنُ) (الحجر:99) ’’اور اس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے۔ ‘‘
(د) چوتھی قسم ان خوش نصیبوں کی ہوتی ہے جو کیا رمضان اور کیا غیر رمضان، ہر آن اپنے ربِ کریم کی طاعت و عبادت میں مصروف رہتے ہیں، تاہم رمضان المبارک کی آمد ان کی ایمانی بیٹری کا ریچارجر ثابت ہوتی ہے۔ اس ماہ میں ان کی قوتِ کار کئی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت نیکیوں کے حصول میں ان کا جذبہ، تلاوت وتسبیح میں ان کا استغراق اور با برکت مہینے کی ہرہر گھڑی سے ان کا پورا پورا فائدہ اٹھانا، قابلِ رشک و قابلِ تقلید ہوتا ہے۔ نماز، زکات، صدقات، حسنِ سلوک، صلہ رحمی، تقسیمِ خیرات اور روزہ داروں کو افطار کرانا؛الغرض خیر کے ہر دروازے پر یہ لوگ دستک دیتے ہیں۔ نیز رمضان المبارک کے گزرنے کے بعد بھی ان کی اس کیفیت میں کوئی اصولی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ان قدسی صفت انسانوں کو یہ بات مستحضر رہتی ہے کہ دنیا امتحا ن گاہ ہے اور اس سے فراغت کا مرحلہ ما بعد الموت ہے۔ (وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْنُ) (الحجر:99) ’’اور اس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے۔ ‘‘
آج ذرا ہم کچھ دیر سوچیں کہ فلاں فلاں صاحبان جنہیں ہم گزشتہ سالوں میں رمضان کے مہینے میں دیکھتے تھے،کہاں گئے؟ وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے گزشتہ سال ہمارے ساتھ روزے رکھے تھے مگر آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں؟ کیا ہمیں معلوم ہے کہ وہ آج سب سے زیادہ کس چیز کے متمنی ہیں؟ اب ان کی تمنا بس یہی ہے کہ کاش وہ دوبارہ دنیا میں لوٹ آئیں اور کچھ نیکی کما لیں۔ لیکن اب ان کو یہ اجازت نہیں ملتی۔ اور اگر یہ موقعہ ہے تو ہم فریب خوردوں کے پاس ہے۔ لیکن کیا ہمیں اس کاکما حقہ احساس ہے؟ ہمارا عقیدہ و ایمان ہے کہ ہمیں ایک دن اس جہانِ فانی سے منتقل ہوکر ہمیشہ باقی رہنے والی دنیا میں جانا ہے، اور وہاں ہمیں ہمارے ہر عمل کا بدلہ ملے گا، اور جو وہاں کامیاب چھوٹا وہی اصل کامیاب ہے۔ (کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ) (آل عمران:185) ۔ ’’آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔ ‘‘
ہمارے مشاہدہ ہی میں کتنے افراد ایسے ہیں جو باوجود شدید تمناؤں کے روزے نہیں رکھ پاتے کیونکہ امراض و دیگر عوارض ان کو مانع ہیں، اور ایک ہم بد نصیب ہیں جو دن رات اللہ رب العزت کی بیشمار نعمتو ں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی نا شکرے بنے ہوئے ہیں۔ یاد رکھئے کہ اللہ تعالیٰ کو ناشکری کے رویہ سے بہت زیادہ نفرت ہے، جبکہ شکرگزاری کے رویہ پر وہ نعمتوں کو قائم ودائم بھی رکھتا ہے اور ان میں اضافہ بھی کرتا ہے۔ارشادِ باری ہے:(وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَءِن شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَءِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ) (ابراہیم:7) ’’اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا، اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔ ‘‘
(وَاتَّقُواْ یَوْماً تُرْجَعُونَ فِیْہِ إِلَی اللّہِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ) (البقرۃ:281) ۔ ’’اس دن کی رسوائی ومصیبت سے بچو، جب کہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اس مبارک ماہ کی ہر ساعت کے درست استعمال کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔

تبصرے بند ہیں۔