ماہ رمضان کی اہمیت اور اس کے خوش نصیب بندگان خدا

محمد قاسم ٹانڈوی

خدا وندے قدوس کے نازل کردہ آخری کلام مقدس قرآن حکیم کے دسویں پارے کی سورہ توبہ میں ارشاد نازل ہوا ہے؛ مفہوم: مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بلاشبہ بارہ ہے، جو اس کے علم میں ہے جس دن اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، جس میں چار مہینے حرمت والے ہیں، یہی سیدھا دین ہے (36)

نیز ایک دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے؛ مفہوم: رمضان کا مہینہ وہ (پاکیزہ) مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا جس میں لوگوں کےلئے ھدایت اور روشن دلائل ہیں (185)

سرکار مدینہ محبوب کبریا محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک سے چند روز قبل صحابہ کرام سے خطاب فرماتے ہوئے اسی مبارک مہینے کو  جو عنقریب (ہمارے سروں پر) سایہ فگن ہونے والا ہے، اس کو اللہ کے مہینے سے تعبیر فرماتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا تھا کہ: لوگوں ! شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے.

محدیثین اس روایت میں کلام کرتے ہوئے کچھ اس طرح قلم طراز ہیں کہ: "ویسے تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے کل ایام اللہ ہی کے تخلیق کردہ ہیں اور سبھی مہینوں میں اس کی عبادت و ریاضت، اطاعت و فرمانبرداری کرنے کا حتی المقدور حکم دیا گیا ہے، مگر ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیاوی امور میں جب کسی کام کی نسبت کسی اہم اور بڑے آدمی کی طرف کی جاتی ہے تو اس کام کی اہمیت و وقعت میں دو چند اضافہ ہوجاتا ہے ٹھیک یہی حال اور راز کی بات اس قول نبی سے بھی مترشح ہوتی ہے کہ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مہینے (شعبان المعظم) کے مکمل طورپر گزر جانے کے بعد آنے والے مبارک مہینے کو اس ذات گرامی سے منسوب کیاہے جو اس بھری پوری کائنات کا تن تنہا مالک و پالنہار اور پروردگار ہے، جو روزآنہ دن کے اجالے کو پہلے رات کی تاریکی میں تبدیلی فرماتا ہے اس کے بعد اسی تاریک رات کو روشن دن سے منور فرماتا ہے اور روز اول سے یہی سلسلہ یوں ہی جاری و ساری ہے کہ دن کو ہفتوں، ہفتوں کو مہینوں اور مہینوں کو سال میں تبدیل کرکے زندگی کی بھاگ دوڑ میں وہ اپنے بندوں کو اپنی رضا و خوشنودی اور سعادت و نیک بختی حاصل کرانے کے واسطے رمضان جیسا مقدس، پاکیزہ اور رحمتوں برکتوں سے پر عظیم مہینہ عطا کرتا ہے تاکہ اپنی زندگی کے مقصد حقیقی کو فراموش کر دینے والے انسانوں کو اسی بہانے اب تک من مانے طور پر گزاری ہوئ زندگی کے مقابلے عمر عزیز کے مابقیہ ایام میں تبدیلی لانے اور زندگی کے حقیقی مقصد کو پہچان نے کا ہمارے اندر داعیہ اور جذبہ پیدا ہوجائے تاکہ جس وقت ہم اس فانی دنیا سے رخصت پذیر ہو رہے ہوں تو ہم ایک صالح اور سچا پکا امتی بن کر رخصت ہو رہے ہوں اور اس وقت ہم اپنی آخرت کو سنوار کر رخصت ہو رہے ہوں.

بایں معنی کوئی ضمانت اور کوئی گارنٹی نہیں لی اور دی جا سکتی ہےکہ آئندہ سال یہ عظمت و رفعت اور اللہ کی رحمت و برکت سے پر مبارک مہینہ ہمیں حاصل ہو یا نہ ہو؟ اس لئے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس کا کوئی لمحہ اور کوئی ساعت رحمت و برکت سے خالی ہو، اس مبارک مہینے میں پروردگار عالم کے منادی اس بات کی ندا لگاتے ہیں کہ "ہے کوئی مغفرت کا طلبگار جس کی مغفرت فرمائ جائے، ہے کوئی مسائل سے پریشان جس کی پریشانی کا دور کیا جائے، ہے کوئی اپنی بیماری میں گرفتار جو اس سے گلوخلاصی چاہتا ہو اور ہے کوئی ایسا بندہ مومن جو اس فانی دنیا سے اوب کر اور اس سے منھ موڑ کر بقائے آخرت کے طلبگاروں میں خود کو شامل کرنا چاہتا ہو اور وہاں کی خوش عیشی لذت پسندی کا حقدار بننا چاہتا ہو…؟

اس لئےکہ ہم واقف ہیں اور ہمیں اچھے سے اس بات کا ادراک بھی ہےکہ سال گزشتہ نہ جانے کتنے احباب و رشتہ دار اور عزیز و ہمسائے ہمارے ایسے تھے جن کے ساتھ ہم نے روزے بھی رکھے تھے اور ان سب حضرات کو ہم نے اپنے ساتھ محلے کی مساجد میں نمازوں میں بھی شامل ہوتا دیکھا تھا، مگر وہ سب امسال ہمارے درمیان نہیں ہیں.

گویا رمضان المبارک کا یہ مقدس و بابرکت مہینہ ہر اعتبار سے ہمارے لئے ایک بےبہا عطاء خداوندی اور نعمت الہی ہے جس کا تقاضہ یہ ہےکہ ہم اس کے لمحے لمحے سے فائدہ اٹھائیں اور ہرطرح کی فضولیات و لغویات سے مکمل کنارہ کش ہو کر رات و دن خدائے واحد کی طرف سے نچھاور ہونے والی رحمت و برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوں ساتھ ہی ہم خود کو پابند بنائیں اور ایسے امور اختیار فرمائیں جس سے کہ اس عظیم ماہ کا کوئ بھی لمحہ ضائع نہ ہونے پائے، خاص کر اس پورے ماہ کی مسعود راتیں اور اس کا آخری عشرہ ہماری غفلت و لاپرواہی کی نذر ہو کر یوں ہی نہ گزر جائیں. اس لئےکہ ہمارے لئے اس سے بڑھ کر خوش قسمتی اور نصیبہ والی اور کونسی بات ہو سکتی ہےکہ جابجا قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے اس مہینہ کے تقدس کو برقرار رکھنے اور اس کے روز و شب کی اہمیت و افضلیت کا ثبوت مل رہا ہے اور خود شارع علیہ الصلوۃ و التسلیم اس کو اپنی زبان رسالت سے عیاں اور عمل سے واضح فرما گئے ہیں. صحابہ کرام جو کہ رسول خدا کے بعد اس شریعت مطہرہ کو سب سے زیادہ قریب سے سمجھنے والے اور سب سے پہلے اوامر و نواہی کے مکلف ٹہھرائے گئے تھے ان کا اپنا حال یہ تھا کہ وہ رسول برحق کی محبت اور اطاعت خدا کی عمل آوری میں پورے سال اس عظیم ماہ مبارک کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار فرمایا کرتے تھے اور جب وہ اس ماہ مبارک کے ان ایام کو پا لیتے تھے تو تمام دنیا سے ماورا ہو کر خود کو فنا فی اللہ کر دینے میں ہمہ تن منہمک و مصروف ہو جایا کرتے تھے.

آج ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم بھی شریعت مطہرہ کی مکمل پابندی کے ساتھ اپنی ذات کی فوز و فلاح کے واسطے کچھ توشئہ آخرت اسی مبارک مہینے کے روز و شب میں دل و دماغ کی مکمل بیداری کے ساتھ کر گزریں، کیا پتہ یہ مبارک و مسعود مہینہ جس کی ایک ایک رات سونے چاندی سے زیادہ قیمتی اور ایک ایک دن لعل و جواہر سے کہیں زیادہ بیش بہا بتایا گیا ہے اور وہ اس سال بحکم الہی ہمیں ملنے جا رہے ہیں، کیا معلوم آئندہ اس کے یہ شب و روز ہمیں نصیب ہوں یا نہ ہوں.

اللہ پاک ہم سب کو اس مبارک مہینہ کی صدق دل کے ساتھ قدر دانی کی توفیق مرحمت فرمائے اور اس متبرک و مقدس مہینہ کی تمام خیر و برکات سے مالا مال فرمائے، آمین.

تبصرے بند ہیں۔