ماہ مواساۃ: جود وسخا، انفاق و ہمدردی کا موسم بہار

عمیر کوٹی ندوی

مال ودولت میں سےجو کچھ انسانوں کے پاس ہے خواہ وہ اپنی کمائی  اور کوششوں سے حاصل ہوئی ہو  یا وراثت اور دیگر ذرائع سے حاصل ہوئی ہو، حقیقت میں وہ اللہ کی ملکیت ہے۔ اللہ کی ملکیت اس لئے ہے کہ پوری کائنات اور اس کے اندر جوکچھ بھی ہے ان سب کا خالق ومالک اللہ ہے۔ مال ودولت  جسے اس نے انسانوں کو عطا کیا ہے اس کا بھی مالک حقیقی  وہی ہے۔ مال ودولت پر انسان کی ملکیت کی حیثیت کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے خود بیان کردیا ہے کہ وہ اس پر اللہ کا نائب، امین اور جانشین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا اُن کے لئے بہت بڑا اَجر ہے(سورہ الحدید-7)”۔ امین، جانشین اور نائب کسی چیز کا اصل مالک نہیں ہوتا  اور نہ ہی اس پراسے مکمل قدرت حاصل ہوتی ہے بلکہ اس کے ذمہ یہ کام ہوتا ہے کہ وہ  پوری ایمانداری کے ساتھ اصل حاکم اور مالک کی منشاء کے مطابق کام کرے۔ اس کے مقصد کو پورا کرے اور جو چیز اس کے سپرد کی گئی ہے اس کی حفاظت اور نگرانی کرے۔اس حقیقت کو بیان کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے مال کے تعلق سے اپنی منشاء کو بھی بیان کردیا ہے۔

مال ودولت اور منشاء الٰہی

منشاء الٰہی  مال ودولت کے انفاق کی  ہے:” اس میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے”۔ حکم الٰہی ہے  کہ  مال ودولت کو دبانے، چھپا نے اور جمع کرکے رکھنے کے بجائے خرچ کیا جائے تاکہ دولت مالداروں کے پاس ہی جمع نہ رہے بلکہ پوری سوسائٹی میں گردش کرتی رہے۔ منشاء الٰہی کے مطابق مال ودولت کو خرچ کرنے کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں باربار مختلف مواقع پر اور مختلف انداز سے تاکید کی ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی اس سلسلہ میں بے شمار تاکیدیں  موجود ہیں۔ ایک جگہ موت سے پہلے پہلے خرچ کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے”جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے”(المنافقون-10)۔ دوسری جگہ  بتایا گیا ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے لئے خرچ کرو۔”اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو”(البقرہ-195)۔ اس بات کی بھی تاکید کی گئی کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے معاملے میں یہ تصور ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ خرچ کرنا صرف مالداروں کا کام ہے اور جنہیں اللہ نے زیادہ دولت نہیں دی ہے وہ خرچ نہ کریں۔ حکم الٰہی ہے کہ یہ نہیں دیکھنا ہے کہ زیادہ ہو تو خرچ کیا جائے اور کم ہو تو نہ کیا جائے بلکہ حکم دیا گیا کہ "جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں”(البقرہ-3)۔

عمدہ چیزوں سے انفاق

عدی بن حاتم سے ایک روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ” جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی”(صحیح بخاری-1417)۔ گویا جس کے پاس جو ہے اس میں سے دے اور جو جتنا دے سکتا ہے اتنا دے۔ہاں انفاق کے معاملہ میں حکم یہ ہے کہ اپنے اچھے مال میں سے خرچ کیا جائے۔ خراب، گلا سڑا، ردی مال نہ دیا جائے۔”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اُن میں سے ستھری چیزیں راہ خدا میں خرچ کرو ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ”(البقرہ -267)۔ انفاق کی صورت میں مال ودولت کو خرچ کرکے مال ودلت کا نگہباں، اللہ کا نائب، جانشیں اور امین حقیقت میں اللہ کی طرف سے عائد کردہ ڈیوٹی ہی ادا کرتا ہے اور جو مال اللہ نے اسے دیا ہے اس سے وہ خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کے باوجود اللہ کا کرم، جود وسخا اور رحمان ورحیم کی رحمت کا عالم یہ ہے کہ محض ڈیوٹی بجالانے پر وہ اپنے بندے کو انعام واکرام سے نوازتا ہے۔ اللہ کی نعمت کی طرح اس کےانعام واکرام کا بھی  احاطہ نہیں کیا جاسکتاہے۔ یہ  معاملہ اور اس میں کمی وزیادتی پورے طور پر بندے کی نیت، جذبۂ انفاق  اور خلوص وللٰہیت پر منحصر ہوتی ہے۔

انفاق کا اجر اور رسول اکرمؐ کی جود وسخا

اللہ تعالی کا ارشادہے کہ "جو لو گ اپنے مال محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی سطح مرتفع پر ایک باغ ہو اگر زور کی بار ش ہو جائے تو دو گنا پھل لائے، اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اُس کے لیے کافی ہو جائے”(البقرہ -265)۔ دوسری جگہ سات سو گنا اجر کی بات فرمائی گئی ہے۔”جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی”۔(البقرہ-261)۔انفاق پر اس قدر زور اور اس کااتنا زیادہ انعام اس لئے ہےتاکہ معاشرے میں موجود غربت و افلاس ختم ہو، معاشرہ بھائی چارگی اور اخوت کی بنیاد پر قائم ہو اور تمام لوگ اس کو وجود میں لانے کے لئے اپنی حد تک کوشش کریں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  حضور اکرمؐ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے”(صحیح بخاری-1902)۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ ” کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نبی ﷺ سے کسی نے کوئی چیز مانگی ہو اور آپ نے اسے دینے سے انکار کیا ہو”(صحیح بخاری-6034)۔ حضور اکرم ؐ  کی سخاوت، فیاضی اور انفاق کامعاملہ یہ تھا کہ آپؐ نے اپنی وفات کے وقت کوئی دولت نہیں چھوڑی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ” آپ دنیا سے اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپ نے کوئی دینار و درہم، یا کوئی بکری اور اونٹ نہیں چھوڑا اور نہ کسی چیز کی وصیت کی”(ابن ماجہ -2695)۔

جود وسخا کی روانی میں ہوا سے بھی زیادہ تیزی

رمضان المبارک کی آمد پر حضور اکرمؐ کی سخاوت اور فیاضی اور بھی بڑھ جاتی تھی حتی کہ ہوا سے بھی تیز ہوجاتی تھی۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان میں ملتے، جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے”(صحیح بخاری-1902)۔ ایک دوسری حدیث میں ابن عباسؓ آپؐ کے معمول  کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ” رسولؐ کا طریقہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپ قیدیوں کو آزاد کرتے اور سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور عطا کرتے”(بیہقی)۔ رمضان المبارک میں رسول اکرمؐ خود فیاضی اور جود وسخا کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے بلکہ لوگوں کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے۔ اس موقع پر انفاق پر بڑے اجر کی نوید بھی سناتے تھے۔

ایک حدیث میں آپؐ نے رمضان المبارک کی اہمیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ "حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو ایک خطبہ دیا جس میں رمضان کے بابرکت مہینے کے استقبال کے لیے ہمیں اس طرح تیار فرمایا: اے لوگو! بہت بڑی عظمت اور بابرکت والا مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس مبارک مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ نے اس مہینے کے روزے تم پر فرض کیے ہیں، اور رات کے قیام ( مسنون تراویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں دل کی خوشی سے ایک نیکی کا کام کرے گا اس کو دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر ثواب ملے گا، اور جو شخص اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو دوسرے مہینوں کے ۷۰فرضوں کے برابر ثواب بخشے گا۔ یہ ’صبر‘ کا مہینہ ہے، صبر کا اجر جنت ہے اور یہ لوگوں کی مالی ہمدردی، امداد اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جس نے کسی کا روزہ افطار کروایا وہ اس کے گناہوں کی معافی اور دوزخ سے آزادی کا سبب ہوگا اور اسے روزہ دار کے برابرثواب ملے گا لیکن روزہ دار کے ثواب میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ ہم نے عرض کیا ! یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم میں سے ہر ایک کو افطار کرانے کی قوت کہاں  ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ اسے بھی عطا فرمائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی پلادے اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی حتی کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے۔ اس ماہ کا پہلا حصہ رحمت، درمیانہ حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ سے آزادی کا ہوتا ہے۔ اور چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھو ان میں دو ایسی ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کر سکتے ہو اور دو ایسی ہیں جن کے بغیر تمہارا گزارہ نہیں ہو سکتا وہ دو چیزیں جن سے اپنے رب کو راضی کرو کلمہ طیبہ کا ذکر اور استغفار و توبہ وہ دو چیزیں جن کے بغیر بخشش نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو اور دوزخ سے اس کے دامن رحمت کی پناہ مانگو”(بيہقی – 39، مشکوٰۃ  المصابیح ص 173)۔

ماہ مواساۃ  کا مقصد اور صفت رحمت

آپؐ نے اپنے خطبے میں رمضان کے حوالے سے اجر یہ بیان فرمایا کہ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ہے تو جب عام دنوں میں انفاق کا سات سو گنا تک اور اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے تو رمضان میں کتنا ہوجاتا ہے، اللہ کی نعمتوں کی طرح ہم  اسے بھی شمار نہیں کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اس خطبہ میں آپؐ نے روزے کے دو اہم پہلوؤں کو بھی بیان فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ ماہ صبر ہے۔صبر جسمانی عبادات، مشقت، بہت سی جائز اور ضروری باتوں سے پرہیز اور بھوک وپیاس کو برداشت کرنے جیسے امور سے متعلق ہے۔ اسی طرح اس ماہ کو آپؐ نے ماہ مواساۃ بھی فرمایا ہے۔مواساۃ  کا تعلق اپنی ذات کے علاوہ  دوسروں کی طرف دیکھنے، ان کے ساتھ اخوت و محبت، ہمدردی، رحم دلی، تعاون کرنے اور دوسروں کا سہارا بننے  اور کمزوروں ومحروموں کو اٹھانے اور تمام انسانوں کو برابری پر لانے سے ہے۔ماہ مواسات کا مقصد یہ ہےکہ اہل ایمان کے اندر حاجت مندوں اور معاشرے کے غریب افراد کے ساتھ ہمدردی کی صفت پیداہو۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مالدار شخص روزہ رکھ کر بھوک کی شدت کو محسوس کرے تاکہ اس کو معلوم ہو کہ معاشرے کے وہ افراد جو مالی تنگی سے دو چار ہیں اور جن کو ایک وقت کا کھانا بھی  ٹھیک سے میسر نہیں ہے وہ اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں اور اپنی بھوک کی شدت کو کیسے برداشت کرتے ہیں۔

صفت رحمت اور خصلت شیطانی میں فرق

روزہ یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ لوگ غریبوں کی بے بسی کو محسوس کریں اور جو فضل اللہ تعالیٰ نے لوگوں  پر کیا ہے اس  میں سے وہ مستحقین اور ضرورت مندوں پر بھی خرچ کریں تاکہ معاشرے میں امیر و غریب کے درمیان فرق ختم ہو اور معاشرے میں تمام لوگ باعزت زندگی گزارسکیں۔ جود وسخا، فضل وکرم، عطا وبخشش، داد ودہش، رحمت وفیضان یہ صفت رحمان ہے۔ اسی  صفت کو حضور اکرمؐ نے بھی اختیار کیا اور اپنی امت کو بھی اسے اپنانے اور اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی تلقین کی۔ جب کہ اس کے برخلاف بخل، دولت کو دانت سے دبا کر رکھنا، صرف اپنی ذات پر ہی توجہ دینا دوسروں سے آنکھیں پھیر لینا شیطانی عمل اور شیطانی خصلت ہے۔ شیطان  کا حال تو یہ ہے کہ "شیطان تم کو فقر وفاقہ سے ڈرا تا ہے اوربخل کا حکم دیتا ہے، لیکن اللہ تم سے رحمت و مغفرۃ کا وعدہ کر رہا ہے اور اللہ بہت کشادہ اور جاننے والا ہے”(البقرہ: 268)۔ لہذا اس ماہ مبارک میں اس کے جال میں نہ پھنس کر  لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی  کی طرف توجہ دینی  چاہئے اور خوب دل کھول کر خرچ کرنا چاہئے۔ہمدردی کی بہت سی شکلیں اور بہت سے میدان ہیں۔ جیسے  کھانا کھلادینا، پانی پلادینا، کپڑوں اور لباس کا انتظام کردینا، غریبوں، یتیموں، معذوروں، مسکینوں اور کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے والوں کے ساتھ اظہار غمخواری اور ہمدردی کرنا، بے سہاروں کی مدد کرنا، عید کی خوشیوں میں انہیں اپنے ساتھ شریک کرنے کی کوشش کرنا۔لوگوں کا بوجھ ہلکا کردینا، اس میں ان کی مدد کرنا، غرض غذا، صحت، تعلیم، حیات انسانی  کی تمام جائز ضروریات اور تمام مطلوب شعبے اس میں شامل ہیں۔

انفاق اور مال حرام

 جب بات جائز ضروریات کی تکمیل کی ہوگی تو ان وسائل وذرائع، آمدنی اور دولت کے جائز ہونے کی بھی ہوگی جن سے یہ کام کیا جائے گا۔اس لئے کہ  جہاں مال ِحرام کا حصول حرام ہے وہیں  اگر مال کے حصول کا  طریق حرام   وناجائز ہو تو بھی مال حرام ہوجاتا ہے۔ اسی طرح حرام مال ودولت اور حرام طریقوں کو اختیار کرکے حاصل کی گئی دولت پوری کی پوری  کار خیر میں استعمال  کردی جائے تو بھی بے فیض  ہےاور اس پر اجروثواب کی امید مزید موجب گناہ ہے۔ چونکہ یہ مہینہ ماہ احتساب بھی ہے اس لئے اس پہلو سے بھی ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ اس کا ایک آسان سا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ اگر ہم یہ سوچیں کہ ہمارے پاس ایک شخص آکر یہ کہے کہ اسے بھوک لگی ہے اور وہ اسی گھر یا فرد کا دیا ہوا کھانا کھائے گا جس کی آمدنی اور دولت کے حصول کے تمام ذرائع یقینی طور پر سوفیصد جائز ہوں تو  بتائیے کہ کتنے ہوں گے جو حلفیہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ  ان کی دولت پورے طور پر حلال اور جائز ہے جس میں حرام مال اور ناجائز طریقوں کے شامل ہونے کا شائبہ بھی موجود نہیں ہے۔ ماہ مبارک میں ہمیں انفاق کی طرف توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ اسلام نےدولت کے حصول  کے اصول وضوابط بتائے ہیں  انہیں اختیار کیا جائے اور جن مواقع اور طریقوں کو حرام وناجائز قرار دیا ہے اور ان  کی نشاندہی بھی کی ہےان سے بچا جائے۔رمضان مبارک کے تعلق سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نےارشاد فرمایا  کہ "جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے”( بخاري 38 ومسلم 760)۔

رمضان میں پورے  ایمانی تقاضوں اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنے پر  یہ نوید سنائی گئی ہے کہ تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔ اس حدیث میں لفظ احتساب کا استعمال ہوا ہے جس کے معنی اللہ کےلئے  نیت کا خالص ہونا بھی ہے اور احتساب کے معنی  اپنا جائزہ لینا بھی ہے۔ مقصد یہ ہے خلوص نیت کے ساتھ ساتھ ضروری ہے  کہ پورے طور پر  اپنی  پوری زندگی، تمام اعمال اور مال ودولت کا جائزہ لیا جائے۔

تبصرے بند ہیں۔