ما بعد جدیدیت کا چیلنج اور تحریکِ اسلامی (3/4)

انجینیئرسید سعادت اللہ حسینی

اس طرح جو حقائق علم حقیقی کے سرچشمہ یعنی باری تعالیٰ کی جانب سے وحی الٰہی یا اس کے پیغمبر کی منصوص سنت کی صور ت میں ظہور پذیر ہوئے ہوں وہ حتمی حقائق (Absolute Truth) ہیں اوران کے ماسوا دنیا میں حقیقت کے جتنے دعوے پائے جاتے ہیں، ان کی دوقسمیں ہیں۔ اگر وہ وحی الٰہی سے متصادم ہیں تو وہ باطل مطلق (Absolute False) ہیں اور اگر متصادم نہیں ہیں تو ان کی حیثیت اضافی حقیقت یا Relative Truth کی ہے جو صحیح بھی ہوسکتی ہے  اور غلط بھی۔ عام انسان تو کجا عام معاملات میں عقلی غلطی کا امکان نبی ﷺ کے سلسلہ میں بھی موجود ہے۔ مسئلہ کی نزاکت کے پیش نظر اس مسئلہ کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے ہم علامہ سید سلیمان ندویؒ کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں :

        ’’اس میں بھی شک نہیں کہ وحی اور ملکۂ نبوت کے علاوہ نبی میں نبوت ورسالت سے باہر کی چیزوں میں وہی عقل ہوتی ہے جو عام انسان کی ہوتی ہے اور جس میں اجتہادی غلطی کا ہر وقت امکان ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ صاحب کے نزدیک اجتہاد کی یہی وہ دوسری قسم ہے جس میں نبی سے بھی غلطی ہوسکتی ہے کہ اس کا مدار وحی والہام اور ملکۂ نبوت پر نہیں بلکہ انسانی علم وتجربہ پر ہوتا ہے۔ ‘‘25 ؎

        اس بحث سے یہ بات واضح ہے کہ وحی الٰہی سے منصوص حقائق کے ماسوا تما مامور، خواہ وہ سائنسی اصول وضوابط ہوں یا ریاضی ومنطق، یا معاشیات وسیاسیات یاسماجیات وعمرانیات سے متعلق امور، تمام دعوے اضافی ہیں۔

        عملی زندگی میں قانون سازی اور ضابطہ سازی کے معاملہ میں بھی اسلام نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ ماڈرن ازم کی طرح نہ وہ ہر ضابطہ اور اصول کو آفاقی حیثیت دیتا ہے اور نہ پوسٹ ماڈرن ازم کی طرح ہر آفاقی ضابطہ واصول سے انکار کرتا ہے۔ وحی الٰہی کی صورت میں وہ بنیادی اصولوں اور سمت کو آفاقی حیثیت دیتا ہے، ان اُصولوں کو زمان اور مکان (Time and Space) سے بالا تر یاماورا قرار دیتا ہے اور ان آفاقی اصولوں کی روشنی میں مخصوص وقت، مخصوص مقام اور مخصوص احوال کے لئے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ بلکہ اجتہادی اور غیر منصوص احکام میں ’عرف‘ کا لحاظ رکھتا ہے۔ جسے پوسٹ ماڈرنسٹ تہذیبی اتفاق رائے(Cultural Consensus) کہتے ہیں۔

        ضیاء الدین سردار نے اسلام کو پوسٹ ماڈرینٹی کے مقابلہ میں ماورائے جدیدیت  (Transmodernity) کی حیثیت میں پیش کیا ہے۔ 26 ؎ بنیادی اصولوں (قرآن وسنت کی تعلیمات) سے گہری وابستگی کے ساتھ تغیر پذیر زمانہ کے مطابق تبدیلیوں کو اختیا رکرنے کا عمل ماورائے جدیدیت ہے۔ ا سلامی سماجوں میں ابدی قدروں سے وابستگی موجود ہے۔ اس لیے وہ جدید یا پس جدید نہیں ہیں اور چوں کہ یہ قدریں حیات بخش ہیں اور ان کے اندر نہ صرف نئے زمانہ کا ساتھ دینے کی صلاحیت موجود ہے، بلکہ نئے ضابطوں اور طرز ہائے حیات کی تشکیل کی صلاحیت اور گنجائش بھی موجود ہے، اس لیے ان کی بنیاد پر قائم سماج کو ماقبل جدید (Premodern)  یا روایت پرست (Traditional) بھی نہیں کہاجاسکتا۔ وحی الٰہی کی بنیادوں پر چند آفاقی قدروں اور اصولوں کی حتمیت اور ان کے دائرہ کے باہر وسیع تر معاملات میں وحی الٰہی کی روشنی میں نئے طریقوں، ضابطوں اور راستوں کی تشکیل کا راستہ ایک ایسامعتدل راستہ ہے جو اسلام کو بیک وقت دائمی وآفاقی اور تغیر پذیر اور مقامی احوال کے مطابق بنا تا ہے اور زمان ومکان کے اختلافات سے ماوراکردیتا ہے۔ اس لیے اسلام کی بنیاد پر بننے والا سماج ماورائے جدید (Transmodern) سماج ہوتا ہے۔

        ختم نبوت کا نظریہ یعنی یہ عقیدہ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اب تاقیامت کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے اور وحی کا سلسلہ تمام ہوگیا اور اب قیامت تک قرآن ہی اللہ کی کتاب اور بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ ہے، اسلام کا ایک بنیادی نظریہ ہے۔ اس نظریہ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اب زمانہ میں کسی ایسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے جو بنیادی اصولوں میں کسی تبدیلی کی متقاضی ہو۔ آنے والی ہر جدت کی نوعیت جزوی اور ذیلی ہی ہوگی۔ اس لیے یہ کہنا کہ اب ہم ماڈرن ازم کے عہد میں ہیں، اس لیے پری ماڈرن ازم یا ماقبل جدیدیت کے عہد کی ہر چیز تبدیل ہونی ہے یا یہ کہ اب ہم پوسٹ ماڈرن ازم کے عہد میں ہیں اس لیے ماڈرن ازم کی ہرجڑ کی رد تشکیل ضروری ہے، ایک نہایت لغو بات ہے۔ انسانی حیات میں بیک وقت دائمی اور تغیر پذیر دونوں طرح کے عناصر کارفرما ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے اس مسئلہ پر اپنے کتابچہ ’دین حق‘ میں بہت دلچسپ اور دل نشیں انداز میں بحث کی ہے۔ لکھتے ہیں :

’’کیا یہ واقعہ نہیں کہ تمام جغرافیائی، نسلی اور قومی اختلافات کے باوجودوہ قوانین طبعی یکساں ہیں جن کے تحت انسان دنیا میں زندگی بسر کررہا ہے۔ وہ نظام جسمانی یکساں ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ وہ خصوصیات یکساں ہیں جن کی بنا پر انسان دوسری موجودات سے الگ ایک مستقل نوع قرار پاتا ہے۔ وہ فطری داعیات اور مطالبات یکساں ہیں جو انسان کے اندرودیعت کیے گئے ہیں۔ وہ قوتیں یکساں ہیں جن کے مجموعے کو ہم نفس انسانی کہتے ہیں۔ بنیادی طورپر وہ تمام طبعی، نفسیاتی، تاریخی، تمدنی، معاشی عوامل بھی یکساں ہیں جو انسانی زندگی میں کارفرما ہیں۔ اگر یہ واقعہ ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہے تو جو اصول انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے صحیح ہوں، ان کو عالم گیر ہوناچاہیئے۔ ‘‘27؎

        بعینہ یہی بات زمانی اختلافات کے سلسلہ میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ :زمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایک

دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم 30؎

پوسٹ ماڈرن ازم کے عملی اثرات

        پوسٹ ماڈرن ازم ایک دقیق فلسفیانہ بحث ہے۔ لیکن اس کے پیش ر و، ماڈرن ازم کے افکا ر بھی ایسے ہی دقیق فلسفے تھے۔ عام لوگ ان گہرے فلسفوں کا مطالعہ نہیں کرتے لیکن عملی زندگی میں ان کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ ماڈرن ازم کے عروج کے زمانے میں بھی تمام لوگ والٹیر اور روسو کی دقیق کتابیں نہیں پڑھتے تھے، لیکن آزادی، مساوات، جمہوریت، اپنے حقوق کا احساس، مساوات مردوزن، روایات کے خلاف بغاوت اور عقل پر اصرار جیسی چیزیں عام آدمی کے رویوں کا بھی حصہ تھیں۔ ٹھیک اسی طرح ہمارے عہد میں بھی عام لوگ چاہے مابعد جدیدیت کی اصطلاحات اور بحثوں سے واقف نہ ہوں، لیکن محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے اپنی عملی زندگی اور رویوں میں اس کے اثرات قبول کر رہے ہیں۔ مسلمان اور بعض اوقات تحریک کے وابستگان بھی اس کے اثرات سے خود کو نہیں بچا پارہے ہیں۔

        پوسٹ ماڈرن ازم کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ افکار، نظریات اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دلچسپی نہایت کم ہوگئی ہے۔ عہد جدید کا انسان مخصوص افکار ونظریات سے وفاداری رکھتا تھا اور ان کی تبلیغ واشاعت کے لیے پرجوش و سرگرم رہتا تھا۔ مابعد جدید دور کے انسان کے نہ کوئی آئیڈیاز ہیں نہ اصول۔ اس کے سامنے کسی بھی موضوع پر نظری بحث شروع کیجیے دامن جھاڑ کر چلا جائے گا۔ اس لئے بعض مفکرین نے اس عہد کو’ نظریہ کے زوال کا عہد‘ Age of No Idelogy قرار دیا ہے۔ 29؎ اصول اور افکار کے مبسوط نظام  (Doctrine) کے بالمقابل مابعد جدید انسان کے پاس صرف جذبات واحساسات ہیں یا عملی مسائل (Pragmatic issues)۔ پوسٹ ماڈرن ازم کا ماننا ہے کہ زندگی کی تمام بحثیں ’مسئلہ‘ اور ’حل‘ Problem and Solution تک محدود کی جاسکتی ہیں۔ اس لئے اصولوں اور نظریوں کی بجائے ایک ایک مسئلہ کو الگ الگ لیا  جانا چاہیئے اور اس کے حل پر بات ہونی چاہیے۔ چنانچہ پوسٹ ماڈرن انسان کی بحث وگفت گو کا سارا زور یا تو روز مرہ کے عملی مسائل پر ہے یا روابط تعلقات کی جذباتیت پر۔ مختلف فیہ اورمتنازعہ فیہ مسائل میں وہ باہم متضاد خیالات میں سے ہر خیال کو بیک وقت درست سمجھتا ہے، ان کی تنقیح اور درست فیصلہ سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔

        مذہبی معاملات میں ہمارے ملک میں سرودھرم سمبھائو یا وحدت ادیان کا نظریہ بہت قدیم ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم نے اس طرز فکر کو تقویت دی ہے۔ اب دنیا بھر میں لوگ بیک وقت سارے مذاہب کو سچ ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اور بین المذہبی مکالمات ومباحث سے لوگوں کی دلچسپی روبہ زوال ہے۔ جبکہ دوسری طرف الحاد ومذہب بیزاری کی شدت بھی ختم ہورہی ہے۔ چونکہ الحاد بھی ایک’دین ‘یا ایک ’دعویٰ‘ ہے۔ اس لیے مابعد جدید انسان اسے بھی ایک مسلک کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس لیے اس عہد کو لادینیت کے خاتمہ کا عہد (Age of Desecularisation) بھی کہا جاتا ہے۔ 30؎  ایک شخص خدا پر یقین نہ رکھتے ہوئے بھی روحانی سکون کی تلاش میں کسی مذہبی پیشوا سے رجوع ہو سکتا ہے۔ ا ور آج اسے کسی ہندو بابا کے ہاں سکون ملتا ہے تو کل کوئی عیسائی راہب اسے مطمئن کر سکتا ہے۔ یہ ما بعد جدیدیت ہے۔

        قدروں کی اضافت کے نظریہ نے سماجی اداروں اور انضباطی عوامل (Regulating Factors)کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ خاندانی نظام اور شادی بیاہ کے بندھنوں کا انکار ہے نہ اقرار۔ عفت، ازدواجی وفاداری اور شادی کے بندھن پوسٹ ماڈرنسٹوں کے ہاں ’عظیم بیانات‘ ہیں۔ اسی طرح جنسوں کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ رول کو بھی وہ آفاقی نہیں مانتے۔ نہ صرف مرد عورت کے درمیان تقسیم کارکے روایتی فارمولوں کے وہ منکر ہیں، بلکہ جنسی زندگی میں بھی مرد وعورت کے جوڑے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ شادی مرد اور عورت کے درمیان بھی ہوسکتی ہے، اور مرد مرد اور عورت عورت کےدرمیان، کوئی چاہے تو اپنے آپ سے بھی کر سکتا ہے یا نہیں بھی کر سکتا ہے۔ مرد اور عورت شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنا پسند کریں (Live in Relationship) تو اس پر بھی کوئی اعترض نہیں ہے۔ ایک ساتھ بھی نہیں رہنا ہے تو صرف تکمیل خواہش کا معاہدہ (Lust Relationship) ہوسکتا ہے۔ یہ سب ذاتی پسند اور ذوق کی بات ہے۔ فیشن، لباس، طرز زندگی ہر معاملے میں کوئی بھی ضابطہ بندی گوارا نہیں ہے۔ مرد بال بڑھاسکتا ہے، چوٹی ڈال سکتا ہے، اسکرٹ پہن سکتا ہے، زنانہ نام رکھ سکتا ہے، کسی بھی رنگ اور ڈئزائن کا لباس پہن سکتا ہے۔ سوسائٹی کو کسی بھی رویے کو ناپسند کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ حتی کہ اگر کوئی مادر زاد برہنہ رہنا چاہے تو سوسائٹی اس پر بھی معترض نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ بعض پوسٹ ماڈرنسٹ لباس کو آفاقی ضرورت قرار دینے پر معترض ہیں۔ آدمی اگر موسم اور اپنے ذوق کی مناسبت سے کوئی لباس پسند کرنا چاہے تو کرے اور اگرعریاں رہنا چاہے تو انسانی جسم سے بڑھ کر خوبصورت لباس اور کیا ہوسکتا ہے؟ وہ باقاعدہ لوگوں کو عریاں رہنے کی تربیت دیتے ہیں۔ عریانیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ عریاں خاندان جن میں ماں باپ بچے سب مکمل برہنہ رہتے ہیں، بڑی تعداد میں سارے مغربی ممالک میں موجود ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس طرز زندگی کے فروغ کے لیے ویب سائٹس، ہیلپ لائینیں، ڈسکشن فورمز اورنہ جانے کیا کیا ہیں۔

        سیاسی محاذ پر پوسٹ ماڈرنسٹ قوموں کے وجود اور قوم پرستی کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک قوم، قومی مفاد، قومی تفاخر، قومی کردار، قومی فرائض، یہ سب ’عظیم بیانات‘ ہیں۔ ان کا نقطۂ نظریہ ہے کہ ضرورت اور مفاد کے مطابق افراد کسی بھی قسم کے دوسرے افراد سے تعامل کرتے ہیں اور اس طرح گروہوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ تشکیل ضروری نہیں کہ قوم اور نسل کی بنیادوں پر ہو۔ قوموں کے اقتدارِِ اعلیٰ کا تصور بھی ان کے نزدیک ’عظیم بیان‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوسٹ ماڈرن سماج میں ایک طرف گلوبلائزیشن کے عمل کے نتیجہ میں ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو عالمی معاشی قوتوں کے تابع کر دیا گیا اور دوسری طرف مقامی معاشروں کے مفادات کو بھی ریاست کے اقتدار اعلیٰ پر فوقیت اور بالا تری دے دی گئی۔ اگر کوئی علاقہ، قبیلہ یا گروہ ریاست کے اقتدار سے خوش نہیں تو ریاست کو اس پر زبردستی کا کوئی حق نہیں۔ 31؎

         اس طرح پالیسی کی سطح  پر ’ترقی‘ ٹکنالوجی وغیرہ جیسے تصورات کو چیلنج کیا گیا۔ پوسٹ ماڈرنسٹ ترقی کے یکساں فارمولے کے  مخالف ہیں۔ یہ بات کہ جدیدشہروں کی شان وشوکت اور ٹکنالوجی پر مبنی تعیشات پس ماندہ علاقوں کی منزل اور ان کی کاوشوں کا ہدف ہونا چاہیے، اب مسلمہ نہیں رہی۔ مابعد جدید تحریکوں نے دیہی زندگی اور روایتی معاشروں کی افادیت بھی اجاگر کی۔ اگر آدی باسی اپنے قبائلی طرز زندگی سے مطمئن اور خوش ہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ انھیں جدید شہری ترقی کے لیے مجبور کیاجائے۔ ان کے نزدیک جنگل کی آزاد فضا ہی سچائی ہے۔ دیہی لوگوں کو ان کی زمین سے ہٹا کر وہاں نئی صنعتیں قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، خواہ اس کے بدلہ میں ان کو زیادہ آرام دہ زندگی ہی کیوں نہ میسر آئے۔ مابعد جدید پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ ہر فرد کو اس کی مرضی اور پسندکی زندگی گذارنے کی آزادی دی جانی چاہیے اور نہ تعلیم، نہ سائنس وٹکنالوجی، نہ ترقی اورنہ  تعیشات، کوئی بھی چیز اس پر مسلط نہیں کی جانی چاہیے۔

        آرٹ اور فنون لطیفہ میں وہ ہر طرح کے نظم اور آرڈر کے خلاف ہیں۔ جدیدیت نے ان محاذوں پر جو اصول تشکیل دیے تھے، پوسٹ ماڈرن ان کی رد تشکیل کرنا چاہتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں : ’’ہر طرح کی نظریاتی ادّعائیت سے گریز اورتخلیقی آزادی پر اصرار مابعد جدیدیت (پوسٹ ماڈرن ازم) ہے‘‘۔ 32؎  پوسٹ ماڈرنسٹ کہتے ہیں کہ ادب اور فنون لطیفہ حقیقت کی ترجمانی کے لیے نہیں بلکہ حقیقت کی تخلیق کے لیے ہیں۔ اس لیے وہ آرٹ کو ہر طرح کے ادبی، سیاسی اور مذہبی دعوئوں سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔

        اس طرح      پوسٹ ماڈرن ازم تحریک نے سوسائٹی میں ہر جگہ اتھاریٹی، بیوروکریسی اور ضابطوں اور اصولوں کی سخت گیری کو چیلنج کیا۔ ہائرار کی (Hierarchy) کے مقابلہ میں انار کی، بندشوں کے مقابلہ میں آزادی، اختیارات کی مرکزیتCentralisation کے مقابلہ میں غیر مرکزیت (Decentralisation) اور ضابطہ اور اصول کے مقابلہ میں انفرادی پسند اور آزادی کا احترام وغیرہ اس تحریک کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ اس صورت حال نے منظم ہمہ گیر تحریکوں کے مقابلہ میں ایشوز پر مبنی وقتی اور موضوعاتی تحریکیں، سخت گیر بیوروکرٹیک انتظام (Management) کے مقابلہ میں ڈھیلی ڈھالی قیادت وغیرہ کی کیفیتں پیدا کیں۔ عملی زندگی کے مختلف معاملات میں پوسٹ ماڈرنسٹ ہر طرح کی روایت، اصول اور ضوابط کی عالمگیری کے خلاف ہیں اور ذاتی پسند وناپسند کو اہمیت دیتے ہیں۔ طرز ہائے زندگی سے متعلق معاملات میں ذاتی پسند افراد کی ہوتی ہے۔ اس کو منضبط کرنے کا معاشرہ کو کوئی حق نہیں ہے اور اجتماعی معاملات میں پسند و ناپسند قبیلوں، آبادیوں، تنظیموں یا کسی بھی اجتماعی گروہ کی ہوسکتی ہے۔ اس پر کنٹرول کرنے کا کسی عالمی یا قومی ادارے کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

پوسٹ ماڈرن ازم اور تحریک اسلامی

        پوسٹ ماڈرن ازم اسلام اور اسلامی تحریک کے لیے بیک وقت چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور موقع (Opportunity) کی بھی۔ ماڈرن ازم کی طرح اس تحریک نے بھی بعض سنجیدہ نظریاتی مسائل کھڑے کیے ہیں جن سے اسلامی تحریک کو فکری سطح پرنبردآزما ہونا ہے۔ ماڈرن ازم کے زمانے میں تحریک اسلامی نے اس کے اٹھائے ہوئے سوالا ت کا زور دار جواب دیا تھا، لیکن ساتھ ہی ماڈرن ازم نے جو کیفیتں پیدا کی تھیں، تحریک نے اپنی حکمت عملی میں ان کا لحاظ بھی کیا تھا۔ ماڈرن ازم نے عقل کو اہمیت دینے کا مزاج بنایا تھا تو تحریک نے عقلی طریقوں سے اسلام کی دعوت پیش کی تھی۔ تحریک کی صورت گری اور اس کے لیے بنائی گئی جماعت کے ڈھانچہ کی تشکیل میں بھی جائز حدود میں ماڈرن عہد کے طریقوں کا استعمال کیا گیاتھا۔ ماڈرن ازم نے معقولیات اور منطق کے استعمال کا جوراستہ سجھایا تھا، تحریک اسلامی نے اسے قدیم فرسودہ روایات، اندھی عقیدتوں اور رجعت پسند رواجوں سے مقابلہ کے لیے استعمال کیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔