خطبہ حجۃ الوداع – وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی

عبیدالکبیر

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ  انسان کی زندگی جو  فرد اور جماعت کے پہلو بہ پہلو مسائل سے عبارت ہے اپنے وجود اور بقا کے لئے کچھ ایسے بنیادی اصول کی محتاج ہے جن کی پاسداری سے انسانی معاشرہ فوز وفلاح کے راستے میں اپنا پر امن سفر جاری رکھ سکے۔ حقوق اور فرائض کا منصفانہ توازن ہی ایک مثالی سماج کی بنیاد ہے جس کے بغیر فرد اور جماعت کی تگ ودو کبھی بار آور ثابت نہیں ہو سکتی ۔ اس اصول کو ذہن میں رکھ کر جب ہم اسلام کے تفصیلی نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو دنیا کے بنتے بگڑتے حالات میں اس کی ضرورت اور افادیت مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ویسے تو اسلام کی جملہ تعلیمات اپنے جلو میں جامعیت اور کمال کی خصوصیات رکھتی ہیں تاہم پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع اپنی  آفاقیت  اور جامعیت کی بنا پر حرف آخر کی حیثیت  رکھتا ہے۔ آپؐ کا یہ خطبہ  حج جو آپ ؐ نے سن 10 ہجری میں دیا تھا عالم انسانی کے لئے ایک ابدی منشور ہے۔ اس خطبہ میں انسای زندگی کے ہمہ گیر مسائل کے حل کے لئے جو ہدایات آج سے چودہ سو سال پہلے  دی گئی ہیں دنیا کی تاریخ اس کی کوئی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ علوم سیاسیات اور عمرانیات کی گتھیوں کو سلجھانے والے جدید وقدیم علماء کی جملہ کد وکاوش بھی اس منشور ہدایت کی گرد کو نہیں پہنچ سکتی۔ اس ضمن میں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ دنیا کے نئے پرانے قوانین میں دو ایسی بنیادی خامیاں لازماً دیکھنے کو ملتی ہیں جن کی وجہ سے  ان قوانین کی حیثیت بس اخلاقی تجاویز اور باہمی معاہدات تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ اولاً یہ سارے قوانین خود انسانی دماغ کی کاوش کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ثانیاً ان قوانین کے نفاذ  میں کسی ایسے محرک کا دخل نہیں ہوتا جس کی رو سے وہ لوگوں کےلئے واجب العمل ہوں۔ انسان اپنی بے شمار خداداد صلاحیتوں کے با وصف اس قابل نہ پہلے  کبھی تھا  اور نہ اب ہے کہ اپنی زندگی کے لئے کوئی ایسا لائحہ عمل تجویز کرے جس میں تمام انسانوں کے حقوق وفرائض کی صحیح درجہ بندی کی گئی  ہو۔ یہ بات محض مذہبی خوش عقیدگی کی بنا پر نہیں بلکہ فکر انسانی کے تجزیہ کی بنیاد پر کہی جاتی ہے۔ اس دنیا میں ہمیں اور آپ کو جن مسائل سے سابقہ رہتا ہے ان میں ریاست، سیاست، معیشت اور معاشرت کے مسائل انتہائی اہم اور نازک ہیں۔ انسانی سماج کا یہی وہ خاص  نقطہ ہے جہاں اسے اپنے سے بالاتر کسی قادر مطلق کی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ اور جب جب انسانی سماج اس نازک موڑ پر اپنی فکر نا رسا پر اعتماد کر بیٹھتاہے تو لازماً افراط وتفریط کا شکار ہوتا ہے۔ چونکہ انسان کی ذات میں نرےجذبات اور احساسات کے جو تغیر پذیر عوامل کارفرما ہیں جب تک انھیں موثر تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ احتساب  اور باز پرس کی بندش میں نہ جکڑا جائے تو  ان میں حق طلبی اور فرض شناسی کا صحیح تصور و توازن قائم ہی نہیں ہو سکتا۔ اس کائنات میں اب تک جتنے حقائق دریافت کئے گئے ہیں ان میں ادنی غور وفکر کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں کسی بھی شئے کو ثبات اور دوام حاصل نہیں ہے۔ ہر چیز لمحہ بہ لمحہ تغیر کی کیفیت سے دوچار ہے اور فنا  کی جانب گامزن۔ یہی حالت انسان کو بھی پیش آتی ہے۔ انسان بھی پیدائش سے موت تک  اپنے اندر بہت سی تبدیلیوں کا تجربہ کرتا ہے اور بالآخر ایک دن اس کا تار نفس ٹوٹ جاتا ہے۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو آپ ؑ  کا یہ خطبہ ہر لحاظ سےکامل اور  انسانی برادری کے لئے مشعل راہ ہے ۔ نبیٔ کریم ؑ نے    اس آخری خطبہ ٔحج میں عقائد، معاملات، عبادات اوراخلاقیات  جیسے تمام اہم مسائل پرامت مرحوم کو  جامع نصیحتیں کرکے گویا اپنے پیغمبرانہ مشن کی تکمیل کردی اور اپنی دعوت کا خلاصہ قیامت تک کے لئے امت کے سپرد کردیا۔ آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل کم وبیش ایک لاکھ فرزندان توحید کی  موجود گی میں رحمت دوعالم ﷺ نے جس شفقت  کے ساتھ خلق خدا کو  اپنےبے پایاں احسانات سے گراں بار  کیا عالم انسانیت رہتی دنیا تک اس قرض محبت سے بری نہیں ہو سکتی۔ سیر وتاریخ کی کتابوں میں اسلامی تاریخ کا یہ مہتم بالشان واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ سیرت نبوی کے اس معرکۃ الارآء خطبہ میں جن انقلاب آفریں نکات کا احاطہ کیا گیا ہے آئیے اس کے خلاصے  پر ایک نظر ڈالنے کی سعادت حاصل کریں۔ خطبہ مسنونہ اور کچھ تمہیدی کلمات کے بعد شمع رسالت کی کرنیں جن نکات پر جلوہ ریز ہوئیں وہ درج ذیل ہیں :

"لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدم ؑ مٹی سے بنے تھے۔ تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہے، بے شک اللہ علیم وخبیر ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی کالے کو کسی سرخ پر اور کسی سرخ کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کی وجہ سے۔ اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہوں۔ جان لو! جاہلیت کی ہر چیز آج میرے قدموں تلے( پامال کی  جاتی) ہے۔ سن لو!جاہلیت کا ہر خون، مال اور آثار جاہلیت میرے قدموں تلے قیامت تک کے لئے کالعدم ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ہر قسم کا سودی لین دین  آج سے ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ بے شک تمہارا خون (ایک دوسرے پر) حرام ہے۔ اورتمہارا مال، تمہاری عزت وآبرو۔ میری بات سنو!زندگی پا جاوٴگے(مگر اس شرط کے ساتھ کہ)خبردار!(ایک دوسرے پر)ظلم نہ کرنا۔ دیکھو! ظلم(وزیادتی) نہ کرنا۔ خوب سمجھ لو! ایک دوسرے پر باہم ظلم وستم نہ کرنا۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہےخبردار!تمہارے لیے عورتوں سے نیک سلوک  کی وصیت ہے، کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں اور اس کے سوا تم کسی معاملے میں حق ملکیت نہیں رکھتے۔ سنو! تمہاری عورتوں پر جس طرح کچھ حقوق تمہارے واجب ہیں، اسی طرح تمہاری عورتوں کا بھی تم پر کچھ حق ہے۔ "

یہ چند باتیں ہیں اس جامع خطبے کی جن کی روشنی میں اس کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مصیبت کی ماری ہوئی آج کی دنیا جن مسائل کی شکار ہے ان میں سے تین چیزیں بطور خاص قابل توجہ ہیں۔ جان، مال اور عزت۔ آج انسانی آبادی کے زرخیز خطے جنگ وجدل کی آگ میں جھلس رہے ہیں اور انسان خود اپنے ابنائے نوع کے خون سے ہولیاں کھیل رہا ہے۔ کم وبیش یہی صورت حال انسانی مال کے ساتھ بھی ہے سودی نظام معیشت نے لوگوں کو دو مختلف الحال طبقوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ اخلاقی زوال کا یہ عالم ہے کہ انسانی آبرو ایک قصہ پارینہ بن کر رہ گئی ہے۔ صنف نازک کے مسائل   تہذیب نوی کی طلعت وتابش کے سبب اس قدر پیچیدہ ہو چکے ہیں کہ اب ان  کو سلجھانے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ ان سب باتوں کے پیش نظر آپؑ کا خطبہ آج کے حالات میں پوری انسانی دنیا کے لئے رہنمائی کا بہترین مرقع ہے۔ اس خطبے کی روشنی میں جہالت وضلالت کی وہ ساری ظلمتیں کافور ہوسکتی ہیں جو بندہ وآقا، محتاج وغنی اور حاکم ومحکوم کے امتیازات کا سبب بنتی ہیں۔ یہ کسی دانشور یا فلسفی کے تجربات کا نتیجہ نہیں ہے جو گردش زمانہ کا  ساتھ نہ دے سکے بلکہ یہ اس ذات گرامی کی تعلیمات کا نچوڑ ہے جن کی صداقت اور امانت تمام شکوک وشبہات سے بالاتر اورجن کی ہدایت  ہر زمانہ کے لئے یکساں سود مند ہے۔ تاریخ انسانی میں جتنے بھی مذہبی رہنما یا معلمین اخلاق گزرے ان میں محمد ؑعربی کی ذات ہی تنہا کاملیت اور جامعیت کے  شرف سے متصف ہےاور تاریخیت  و جامعیت کے کڑے معیاروں پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انسانی دنیا کو جب بھی کسی  مثالی معاشرہ کی تشکیل مقصود ہو اس کے لئے ایک کامل نمونہ صرف اور صرف رسول اکرم کی سیرت میں مل سکتا ہے۔ ایک ایسا سماج جو مساوات انسانی کے ابدی اصولوں پر قائم ہو۔ ایک ایسا سماج جس میں امیر وغریب کی کشمکش نہ پائی جاتی ہو۔ ایک ایسا سماج جو حقوق وفرائض کی درست تقسیم اور عدل وانصاف کی  محکم بنیادوں پر استوار کیا گیا ہو۔ ایک ایسا سماج جو خدا کے بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر خدا کی بندگی میں دیدےاور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر کونین کی وسعتوں سے ہم کنار کردے۔ کاش امت مرحوم اپنے شفیق پیغمبر کی درج ذیل  باتوں پرغور کرے : ” ہر نبی(پیغمبر) کی دعوت گزرچکی ہے، سوائے میری دعوت کے، کہ (وہ ہمیشہ کے لیے ہے)۔ ” "انبیاء علیہم السلام (قیامت کے دن) کثرت تعداد پر فخر کریں گے، پس تم مجھے (اپنی بداعمالیوں کے سبب) رسوا نہ کردینا، میں حوض کوثر پر (تمہارے انتظار میں ) رہوں گا۔ ” "یاد رکھو !میں حوض کوثر پر تم سے پہلے پہنچوں گااور دوسری امتوں پر تمہاری کثرت کے سبب فخر کروں گا، تو کہیں میری رسوائی کا باعث نہ بن جانا۔ سنو!میں بعض کو (شفاعت کرکے) چھڑالوں گا، مگر بعض لوگ مجھ سے چھڑالیے جائیں گے۔ پھر میں کہوں گا اے میرے رب! یہ تو میرے اصحاب(امتی) ہیں ؟اللہ فرمائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجادکرڈالی تھیں۔ "

خطبے کے آخری الفاظ میں جس نازک صورت حال کی طرف اشارہ کیا گیا  ہے وہ آج امت مسلمہ کو فکر وعمل کی دعوت دیتی ہے۔ بلا شبہ آج امت کی تعداد پچھلے زمانوں سے کہیں زیادہ ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کثرت تعداد کے باوجود ہر جگہ امت بحرانی دور سے گذر رہی ہے۔ مسلمانوں میں دین کے تعلق سے کسل اور بے پراوئی  کا رویہ نمایاں ہے۔ عام طورپر کچھ مخصوص چیزوں کو دین سمجھ لیا گیا ہے اور دین کے اجتماعی شعور سے امت کی ایک بڑی اکثریت غافل ہے۔ فکر ی گمراہیوں نے ایک طرف  دین میں نئی نئی ایجادات کی راہیں ہموار کی ہیں تو دوسری طرف کچھ روشن خیال حضرات دین سے تمسک اور وابستگی کو ترقی کی راہ کا کانٹا تصور کرتے ہیں۔ یہ  غیر معتدل رویے بلاشبہ امت کی شیرازہ بندی میں مانع ثابت ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک کلمہ کی گواہی دینے والی  اور ایک قبلہ کا رخ کرنے والی قوم عمل وخیال کےمختلف  خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ان کی طاقت منتشر ہے اور نظم وضبط کی کمی کے باعث  اس کی سرگرمیاں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں۔ امت مسلمہ کے پاس آگے بڑھنے کے مواقع ہیں مگر ان سے جبھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب امت کے اندر مقصد کا احساس اور نصب العین کا شعور پختہ  ہو۔ امت اپنی اور نوع انسانی کے وسیع تر مفاد کے لئے قربانی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرے۔ رسول اکرم ﷺکا فیضان کتاب وسنت کی شکل میں جو ہم تک پہنچا ہے اس کی صداقت کو تسلیم کرنے  کا لازمی تقاضا ہے کہ ہم  اپنی مساعی کو انہی خطوط پر آگے بڑھائیں جن کی پیروی ہمارے دنیاوی و اخروی فلاح کا ضامن ہے۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسم  محمدؑ  سے  اجالا  کردے

تبصرے بند ہیں۔