دو بستیوں کا ایک عظیم آدمیﷺ{رَجُل مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ}

ذکی الرحمن فلاحی مدنی

        تکبر اور خودرائی انسان کو حقیقت کا مشاہدہ اوراعتراف کرنے سے مانع ہوتی ہے اور اس میں مبتلا انسان حق کو جان کربھی اس کے اتباع سے محروم رہتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات کبر ونخوت میں مبتلا انسان صرف اپناجھوٹاپندار رکھنے کے لیے، جانتے بوجھتے ہلاکت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا انسان نہ حق کا مشاہدہ کرپاتا ہے اور نہ ہی اسے حق کے اتباع کی توفیق ملتی ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولﷺسے ماثور دعائوں میں ایک بہترین دعا یہ بھی ملتی ہے کہ ’’اے اللہ! ہم کو حق دکھا حق بنا کر اور اس کے اتباع کی توفیق دے اور باطل دکھا باطل کی صورت میں اور اس سے اجتناب کی توفیق دے۔‘‘ [اللھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ] (سنن ترمذیؒ) کبر وغرور کی یہ بیماری ازل سے انسانوں کو لگتی رہی ہے۔ دراصل اس کا آغاز اسی دن ہوگیا تھاجب ابلیس نے حضرت آدمؑ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فضیلت کے بیان کے واسطے تمام ساکنینِ عرش ملائکہ وغیرہ کو آدمِ خاکی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا تھا، لیکن ابلیسِ لعین نے اپنے ناری عنصرکو برتر خیال کرتے ہوئے جھکنے سے انکار کردیا۔ قرآن نے اس واقعہ کو جس طور بیان کیا ہے، دیکھ لینا بہتر ہوگا۔ (سورہ ص، 73-85) ’’جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح بنادوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں توتم اس کے آگے سجدے میں گرجائو۔ اس حکم کے مطابق فرشتے سب کے سب سجدے میں گر گئے، مگر ابلیس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔ رب نے فرمایا: اے ابلیس!تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایاہے؟ تو بڑا بن رہا ہے یا توہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے؟ اُس نے جواب دیا: میں اُس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اِ س کو مٹی سے۔ فرمایا: اچھا تو یہاں سے نکل جا، تو مردود ہے اور تیرے اوپر یومِ جزا تک میری لعنت ہے۔ وہ بولا: اے میرے رب!یہ بات ہے تو پھر مجھے اس وقت تک کے لیے مہلت دے دے جب یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا: اچھا تجھے اس روز تک کی مہلت ہے جس کا وقت مجھے معلوم ہے۔ اس نے کہا: تیری عزت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا، بجزتیرے اُن بندوں کے جنہیں تونے خالص کر لیا ہے۔ فرمایا: توحق یہ ہے او رمیں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھر دوں گاجواِن انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے۔‘‘

        اس قرآنی واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابلیس ملعون نے اپنی اس خطا یا جرم کی سنگینی کاصحیح ادراک کرلیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے دشمن زادے آدمیوں کو برابر اس بیماری میں مبتلا کرتا رہاہے اور کرتا رہے گا تاآنکہ قیامت بپا ہوجائے اور ہر گنہ گار کے سرپرست ابلیسِ لعین کو جہنم رسید کردیا جائے۔ اس نے انسانوں کو گمراہ کرنے کے عزم کا اظہاراللہ رب العزت و الجلال کی عزت وناموس کی قسم کھاکرکیا ہے، جیسا کہ گزشتہ بالا آیات میں واضح ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کبر وغرور پرنہایت سختی کے ساتھ نکیر فرمائی ہے۔ حدیثِ قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : عزت میرا لباس ہے اور کبریائی میری چادر ہے، اب جو مجھ سے ان دونوں میں ہمسری کی کوشش کرتا ہے تو میں اس کو دردناک عذاب دیتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلمؒ)

        قریشِ مکہ کے سرداروں کو دیکھئے کہ کہاں تو پورا جزیرہ نمائے عرب ان کی دانش وبینش اور حکمت واصابتِ رائے کا معترف تھا، لیکن جب ان کی آنکھوں کے سامنے کبر وغرور کا پردہ حائل ہوگیا، تو یہ دانشمندانِ قریش بالکل سامنے کی حقیقت کو نہیں سمجھ پائے۔ آپﷺ کی نبوت ورسالت سے بہت پہلے سے، یہ کفارِ قریش آپ کے صدق وامانت داری کی گواہی دیتے تھے، لیکن جب یہی صادق وامین شخص ان کے سامنے رب کا پیغام پڑھ کر سنانے لگا تو انھوں نے اس کی تکذیب کی اور دشمنیاں اور جنگیں مول لیں۔ ہدایت چھوڑ کر ضلالت، اوراصلاح چھوڑ کر فساد اختیار کیا لیکن اللہ کے رسولﷺ کو اللہ کا رسول نہ مانا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ان کی آنکھوں پر تکبر وغرور کا ملمع چڑھ گیا تھا جس نے ان کی عقل کو اندھا کردیا۔ ان جیسے معاندین کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: (انعام، 33) ’’اے محمدؐ!ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کررہے ہیں۔‘‘ یہ کفار قریش اللہ کے رسولﷺکی اخلاقی، خاندانی اور عملی برتری کا علم رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ پورے قبیلۂ قریش میں کوئی ایک فرد بھی نیکی، فضیلت اورشرافت میں آپ ﷺکے پاسنگ کو نہیں پہونچتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ آپﷺ ذریتِ ابراہیمی میں اسماعیلؑ کی اولاد سے ہیں جو آگے چل کر بنو مضر میں مزیدمنقح ومصفی ہوجاتے ہیں اور انھیں قدیم زمانے سے بیت اللہ کی سدانت وحجابت کا شرف حاصل رہا ہے۔ اس طرح اللہ کے رسولﷺ کی خاندانی عزت وشرف سب پر فائق اور سب کے نزدیک مسلّم ہے۔ یہ سب جاننے کے باوجود سردارانِ قریش کا تکبر وغرورانھیں حقیقت کے نور سے اندھا رکھتا ہے اور وہ برابر اپنے بتوں کی پرستش پر اڑے رہتے ہیں۔ ان کی الٹی کھوپڑی میں حق سے پہلو تہی کاایک جواز یہ برآمدہوتا ہے کہ نبوت اور قرآنی وحی لانے والے انسان کی جو شان وشوکت ہونی چاہیے، اس کے مطابق وہ اللہ کے رسولﷺ کی شخصیت نہیں پاتے۔ وہ اپنی احمقانہ پینک کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کونبوت وکلامِ الٰہی نازل ہی کرنا تھا تو دونوں بستیوں کے کسی دولت مند انسان کو اس کے لیے منتخب کرنا چاہیے تھا۔

        عظمت وبزرگی کا یہ ان کا معیار تھا۔ یہ بہانہ تھا جو کبر وغرور اور حسد ورقابت سے متعفن ان کے اذہان میں وارد ہوا تھا۔ بس وہ بار بار یہی دہراتے تھے کہ (زخرف، 31-32) ’’یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی ایک پر کیوں نہ نازل کیاگیا؟ کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کئے ہیں، اور اِن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔ اور تیرے رب کی رحمت اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (اِن کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں۔‘‘ امام بیہقیؒ نے حضرت ابو اسحاقؒ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ ابوجہل اور ابوسفیان کے پاس سے گزرے۔ یہ دونوں خالی بیٹھے تھے کہ ابوجہل نے حقارت آمیز لہجے میں کہا: کیا یہی تمہارے خاندان بنو عبد شمس کا نبی ہے‘‘؟ ابو سفیان نے خاندانی قرابت کا لحاظ کرتے ہوئے جواب دیا: کیا تمہیں ہمارے اندر کسی نبی کے ہونے پر تعجب ہورہا ہے؟ حالانکہ سابقہ انبیاء تو ہم سے بھی فروتر خاندانوں میں سے گزرے ہیں۔‘‘ ابو جہل نے سن کر کہا: مجھے تعجب اس پر ہے کہ بڑے بوڑھوں کی موجودگی میں کل کالونڈا نبوت کا دعوے دار ہے۔‘‘ ان کی گفتگوکی آوازاللہ کے رسولﷺ تک پہونچ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد آپﷺاُن کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے ابوسفیان! تم نے یہاں اللہ یا اس کے رسولﷺ کی طرف سے دفاع نہیں کیا، بلکہ اپنے خاندان کی طرف سے دفاع کیا ہے۔ اور اے ابوالحکم (ابوجہل) !خدا کی قسم تمہارا ایسا حشر ہوگا کہ تم روئو گے زیادہ اور ہنسو گے کم۔‘‘ ابوجہل نے یہ سن کر کہا: اے بھتیجے! تو اپنی نبوت کے بعدمجھ سے بدترین وعدہ کر رہا ہے۔‘‘ (سنن بیہقیؒ)

        اس واقعہ کے بعد یہ آیات نازل ہوئی تھیں :(فرقان، 41-42) ’’یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں۔ (کہتے ہیں ) کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ اِس نے تو ہمیں گمراہ کرکے اپنے معبودوں سے پھیر ہی دیا ہوتا، اگر ہم ان کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے۔ اچھا، وہ وقت دور نہیں جب عذاب دیکھ کر انھیں خود معلوم ہوجائے گا کہ کون گمراہی میں دور نکل گیا تھا۔‘‘ کفارِ مکہ دیکھتے تھے کہ اللہ کے رسولﷺ اپنے کمزور ساتھیوں کو لے کر مسجد ِ حرام میں بیٹھا کرتے ہیں۔ آپﷺ کی مجلس میں جن لوگوں کی کثرت ہوتی تھی وہ عام طور پر سردارانِ مکہ کے غلام یا زیرِسرپرستی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں حضرت صہیبؓ رومی، حضرت عمار بن یاسرؓ، حضرت خبابؓ، حضرت ابوفکیہہؓ جوصفوان بن امیہ کے غلام تھے، وغیرہ کا نام بطورِ تذکرہ لیا جاسکتا ہے۔ سردارانِ قریش کواپنے کبر وغرور کے نشے میں مان لینامشکل تھاکہ دنیاوی لحاظ سے اتنے گرے ہوئے لوگوں کو بھی اللہ ہدایت سے مستفیض کر سکتا ہے۔ وہ اکثر یہ سوال کرتے کہ کیا یہی ہیں وہ جنہیں اللہ نے اپنے رسولﷺ کے ذریعہ صراطِ مستقیم دکھایا ہے۔ ۔ ۔ ۔؟ (انعام، 53) ’’دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈالا ہے تاکہ وہ انھیں دیکھ کر کہیں : کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل وکرم ہوا ہے؟ ہاں !کیا خدا پنے شکرگزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا؟ ‘‘ ان کم عقلوں کو شیطان نے پٹی پڑھادی تھی کہ پیغامِ نبوت یا ہدایت کوقابلِ قبول یا ناقابلِ قبول قرار دینا بھی انہی لوگوں کا کام ہے جو ان کے معیار کے مطابق عظمت ودولت کے حامل ہیں۔ اس اندھے پن اور تکبر وحسد نے انھیں اللہ کے رسولﷺ کی صداقت جاننے کے باوجود ان کی تکذیب کرنے پر آمادہ کیے رکھا۔ امام احمدؒ نے اپنی مسند میں حضرت ابنِ عباسؓ کے حوالے سے نقل کیاہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو حکم دیاکہ اپنے قریب ترین اعزہ ورشتہ داروں کو اس دعوت سے آگاہ کریں، تو اللہ کے رسولﷺ کوہِ صفا تشریف لائے اور اس کی اونچی چوٹی پرتشریف لے گئے۔ وہاں آپﷺ نے ناگہانی صورتِ حال پر طلب کیے جانے والے ہنگامی اجتماع کی پکار کے مروجہ الفاظ دہرائے۔ آپﷺ کی آواز سن کر سب لوگ جمع ہوگئے اور جو خود نہ آسکا اس نے اپنی نیابت میں کسی کو بھیج دیا۔ سب کو جمع کرنے کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے ہرایک خاندان کا نام لے کر فرمایا کہ: کیا تم سچ جانوگے اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں، ہم آپ کو سچا ہی مانیں گے۔ یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا: تو کان کھول کر سن لو کہ میں ایک شدید عذاب کے آنے سے پہلے تمہیں ڈرانے والا بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘ حاضرین پریہ سن کر سکتہ طاری ہوگیا، پھر سب سے پہلے ابولہب ملعون نے مخالفت کرتے ہوئے کہا: سارے دن کے لیے تجھ پر ہلاکت ہو، کیا اسی بکواس کے لیے تونے ہمیں جمع کیا تھا؟ اس واقعہ کے بعد سورہ لہب کا نزول ہوا تھا۔ (مسد، 1-5) ’’ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ۔ اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کام نہ آیا۔ ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گااور (اس کے ساتھ) اس کی جورو بھی، لگائی بجھائی کرنے والی، اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی۔‘‘ (صحیح بخاریؒ: 4770۔ صحیح مسلمؒ: 204)

        اس میں شک نہیں کہ ’’ابو الحکم عمروبن ہشام‘‘ جو کہ اسلامی تاریخ میں ابوجہل کے نام سے مشہور ہے، اللہ کے رسولﷺ کے معارضین ومخالفین میں سب سے زیادہ احمق اور سب سے زیادہ شدید مخالف تھا۔ شیطان پوری طرح اس پر سوار تھا اور کبر وغرور نے اسے حق کی معرفت سے اندھا کردیا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے ساتھیوں نے اسے چھپ کر قرآنِ کریم سنتے دیکھا تو انھیں گہرا تعجب ہوا۔ انھوں نے قرآن کے بارے میں اس کی ذاتی رائے جاننے کی کوشش کی۔ اس نے جو جواب دیا وہ اس طور سے قابلِ غور ہے کہ انسان کبر وحسد میں کس درجہ بیوقوفی کا ارتکاب کرجاتا ہے۔ اس نے کہا کہ: ہمارا خاندان بنو مخزوم اور محمدؐ کا خاندان بنو عبدِ مناف عزت وشرف میں ایک دوسرے کے ہمسر ورقیب رہے ہیں۔ جب انھوں نے فقراء ومساکین میں کھانے تقسیم کیے تو ہم نے بھی کیے، جب انھوں نے دوسروں کا خوں بہا اپنے ذمہ لینا شروع کیا تو ہم نے بھی کیا، جب انھوں نے لوگوں کے ساتھ دادودہش کا معاملہ کیا تو ہم نے بھی کیا، یہاں تک جب برابری کا وقت قریب آیا اور دوڑ کے گھوڑوں کی طرح ہم ان پر سبقت لے جانے لگے تو اچانک وہ کہنے لگے کہ ہمارے اندر ایک نبی مبعوث کردیاگیاہے جس پر آسمان سے وحی کا نزول ہوتا ہے۔ اب ہم کیسے اس معاملے میں بھی ان کی برابری کریں؟ لات کی قسم!ہم نہ کبھی ان کے نبی پر ایمان لائیں گے اور نہ کبھی اس کی تصدیق کریں گے۔‘‘ (سیرۃ ابن ہشامؒ:1/125)یہ تھا اللہ کے رسولﷺ کی رسالت ونبوت کے بارے میں ابوجہل کا تصور، جس کی بنیاد ظاہر ہے تکبر وغرور اور قومی وخاندانی حسد ورقابت پر تھی۔

        تکبر وغرور اور ضد وعناد کی اس سیڑھی میں ابوجہل کے بعد نام آتا ہے قریشی سردا ر ’’نضر بن الحارث‘‘ کا۔ اس کی خباثت وکمینگی کی وجہ سے اسے قریش کا شیطان بھی کہا جاتا تھا۔ یہ شیطانِ قریش کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا جس کے ذریعہ اللہ کے رسول ﷺاور آپ کے جانثار صحابۂ کرامؓ کو کسی جسمانی یا روحانی کرب واذیت میں مبتلا کیاجانا ممکن ہو۔ ابن ہشامؒ لکھتے ہیں کہ نضر بن الحارث نے قرآن کی اثر آفرینی کا توڑ کرنے کے لیے، باقاعدہ عراق کے علاقے حیرہ کا سفر کیا اور وہاں کے لوگوں سے فارسی شہنشاہوں کے قصے اور رستم واسفندیار کے افسانوں کو سیکھا۔ واپس آکر اس شیطان کا معمول یہ ہوگیاتھا کہ جب بھی اللہ کے رسولﷺ کسی مجلس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور سابقہ اقوام کے عبرتناک انجام سے ڈراتے تو آپﷺ کے وہاں سے اٹھتے ہی سامعین کو گھیر لیتاا ور کہتا: ارے قریش زادوں !یقینا میں محمدؐ سے زیادہ خوش گفتارہوں۔ آئو میں تمہیں فارسی شہنشاہوں کے واقعات بتاتا ہوں اور رستم اور اسفندیار کے افسانے سناتا ہوں۔‘‘ پھر جب وہ ان واقعات کو سناکر فارغ ہوجاتا توکہتا کہ: اب بتائو کس چیز میں محمدؐ مجھ سے زیادہ خوش کلام قرار پاتاہے؟ ‘‘ ابن اسحاقؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے تھے کہ اسی نضر بن الحارث کے بارے میں قرآن کا تبصرہ یہ ہے:(قلم، 10-16) ’’ہرگز نہ دبوکسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا، بے وقعت آدمی ہے، طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے، بھلائی سے روکتا ہے، ظلم وزیادتی میں حد سے گزرجانے والاہے، سخت بداعمال ہے، جفاکار ہے اور ان سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے، اس بنا پر کہ وہ بہت مال واولاد رکھتا ہے۔ جب ہماری آیات اس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں۔ عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے۔‘‘ (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشامؒ: 1/86)

        اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ کی ذاتِ گرامی کمالِ بشریت کا بہترین مرقع تھی جس میں انسانی تخلیق کے سارے حسین وجمیل عناصر کاامتزاج پایا جاتاہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا، جب کہ اللہ رب العزت نے آپﷺ کی ذات کو رسالت ونبوت کے اختتام کے لیے منتخب فرمایاتھااور مقدرکردیاتھا کہ آپﷺ کی رسالت پوری دنیائے انسانیت کے لیے عام ہوگی اور آپﷺ ساری دنیا کے لیے خوش خبری دینے والا، ڈرانے والا، ہادی ورہنما اور حق کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی ذات کو تمام عالمین کے لیے رحمت اور روزِ جزا کا شفیع بنایا ہے اورآپ کی اخلاقی عظمت کی صراحت فرمادی ہے۔ (قلم، 4) ’’یقینا آپ اخلاق کے بلند درجہ پر فائز ہیں۔‘‘ مشیتِ ایزدی کا فیصلہ تھا کہ حق کو باطل پر غلبہ ملے اور باطل کا زور ٹوٹ جائے۔ جنہوں نے آپﷺ کو جھٹلایا، ناک بھوں سکوڑی، تکبر وغرور کا راستہ اختیار کیا اور محض کینہ وحسد کی وجہ سے آپﷺ کی نبوت کا انکار کیا، ان کے بارے میں تقدیرِ الٰہی کا فیصلہ ہواکہ نبیٔ اکرم ﷺان کی آنکھوں کے سامنے غلبہ واقتدارپائیں اور کبر وعناد کے خوگردشمنانِ دین کی ذلت ورسوائی کاسامان ہو جائے۔ ابوجہل اور دوسرے متکبرین کی ہلاکت وذلت کادن تاریخ میں غزوۂ بدر کی حیثیت سے معروف ہے۔ یہ منظر کس قدر موثر ہے کہ ان قریشی متکبرین کی لاشوں کو ایک گڈھے میں ڈالا جاتاہے اور اللہ کا سچا اور آخری رسولﷺ گروہِ مومنین کی موجودگی میں انھیں خطاب کرتا ہے۔ آپﷺ کہتے ہیں کہ اے گڈھے والو!تم کسی نبی کے بدترین ہم قوم وہم قبیلہ تھے، تم مجھے جھٹلاتے رہے حالانکہ دوسرے لوگوں نے میری تصدیق کی، تم نے مجھے اپنے شہر سے نکال دیاتودوسرے لوگوں نے مجھے پناہ دی، تم نے مجھ سے جنگیں کی لیکن دوسرے لوگوں نے میری مددکی۔ کیا آج تم نے وہ وعدہ سچا دیکھ لیا جو تمہارے رب نے تم جیسے سرکشوں سے کیا تھا؟ کیونکہ میں نے اپنے رب کا وعدہ سچا پالیا ہے۔ (سیرۃ ابنِ ہشامؒ: 1/639) روایات میں آتا ہے کہ آپﷺ نے غزوۂ بدر کے بعد قریش کے مقتول سرداروں کی لاشوں کو ایک گڈھے میں جمع کرنے کا حکم فرمایا، اور پھر ان میں سے ہر ایک کانام لے کرخطاب کیا۔ حاضرین نے آپﷺ کو مردہ لاشوں سے خطاب کرتے دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ: اللہ کے رسولﷺ! آپ اُن لوگوں سے گفتگو فرمارہے ہیں جن کے جسموں میں سڑن پیدا ہوگئی ہے؟ اس پر آپﷺ کی زبان سے نکلا تھا کہ: وہ آج تم سے زیادہ میری باتوں کو سن رہے ہیں، فرق اتنا ہے کہ آج انھیں جواب دینے کی سکت نہیں ہے۔ (متفق علیہ)

        یہ بدلا تھا جو انھوں نے اپنے تکبر اور غرور کا پایااور یہ وہ کھیتی تھی جو انھوں نے خودرائی اورحسد کی کاٹی۔ حالانکہ قرآنِ کریم ان کی مادری زبان میں نازل ہوا تھا اور وہ اس کے سیدھے مخاطب تھے۔ اگر وہ ذرااس کے معانی ومفاہیم پر غور کرتے تو اس طرح تکبر وغرور کا شکار نہ ہوتے۔ لیکن انھوں نے بھی وہی کیا جو ابتدائے آفرینش میں ان کے مطاع ومخدوم شیطان نے کیاتھا کہ اپنے عنصری وتکوینی غرور میں آکر صریح حکمِ خداوندی سے سرتابی کی جرأت کی اور خود کو آدمؑ سے بہتر قرار دینے کی ہوڑ میں اپنے خالق ومالک کی اطاعت کا قلادہ گردن سے اتار دیا۔ (اعراف، 12) ’’پوچھا، تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا؟ بولا، میں اس سے بہتر ہوں، تونے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے۔‘‘ کاش ہماری خوش بختی ہو کہ ربیع الاول کے اس مبارک وسعید ماہ سے ہم یہ عظیم درس لے سکیں کہ اپنے اندر تواضع واعترافِ حق جیسی صفات کو پیدا کریں گے۔ اپنی نسلوں کے ذہن ودماغ میں تواضع وانکسار کی اہمیت ومحبت جاگزیں کریں اور بتائیں کہ جو اللہ کی خاطر اپنے آپ کو نیچا کرتے ہیں، اللہ رب العزت انھیں دنیا اور آخرت میں بلندی وعظمت سے ہمکنار فرماتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔