مت جوڑو آتنک واد کا نام مدرسوں سے!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

   ملک کے جو حالات چل رہے ہیں، ان سے ہر باخبر شہری اور بالخصوص مسلمان واقف ہے، کس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کی جارہی ہے وہ ہر ایک پر عیاں ہے۔ شریعت میں مداخلت اور اسلامی تعلیمات پر نکتہ چینی وانگشت نمائی کے موقعے تلاش کئے جارہے ہیں، مسلم پرسنل لامیں دخل دینے کی کوشش کی جارہی ہے، فتوی کو لے کرمنفی تبصرہ کے ذریعہ ایک ہنگامہ برپاکیا جارہا ہے، اوراسلامی احکام کو توڑمروڑکرپیش کیاجارہا ہے، طلاق ِ ثلاثہ کوبہانہ بناکر باضابطہ شرعی احکام وتعلیمات پر قد غن لگانے کی فکر کی جارہی ہے۔ کمزورطبقات کے ساتھ ظلم وزیادتی ہورہی ہے اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے اورملک ووطن کے امن وسکون کو ختم کرنے کے لئے شرپسندعناصراورفرقہ پرست طاقتیں پوری کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔

     ان حالات میں جہاں ملک کی سالمیت کو بنائے رکھنے اور امن ومحبت کی فضاکو عام کرنے، نفرت کے ماحول کو ختم کرکے امن وسکون کو ہموارکرنے اور جمہوری حقوق پر ہر ایک کوآزادی کے ساتھ رہنے اوراپنے مذہب پر عمل کرنے کے اختیار کوپامال ہونے سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے اور جو ملک ملت کا حقیقی خیرخواہ ہوگا اور انسانوں کا سچا ہمدرد ہوگا وہ ان اہم اور ضروری امور کی طرف توجہ دے گا، لیکن جن کے ذہن میں نفرت، دل میں عداوت اور زبان میں زہر ہو وہ شرانگیزی سے باز نہیں آتے اور ملک وماحول کو خراب کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اس کی تازہ مثال اترپردیش کے شیعہ سینٹرل وقف بورڈکے چیئرمین وسیم رضوی کا تازہ بیان ہے جو انہوں نے دینی مدارس کے خلاف دیا ہے۔ وسیم رضوی نے وزیر اعظم اورریاست ِ اترپردیش کے چیف منسٹر کے نام خط لکھ کر اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ مدرسے بند کئے جائیں، یہ دہشت گرد پیدا کرتے ہیں، بچے مدرسوں میں تعلیم پاکرشدت پسندی کی طرف راغب ہورہے ہیں، مدرسوں کوختم کرکے ایک جنرل تعلیم کا نظام لایاجائے، ان کو اسکولوں میں بدل دیا جائے، دینی مدارس کو دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے فنڈنگ ہورہی ہے، مدارس کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے، مدارس کمیونٹی اور سماج کے لئے نقصان دہ ہیں۔ اس طرح کی زہرافشانی وسیم رضوی جیسے ضمیر فروش، ننگ ِ ملت، دشمنوں کے آلہ ٔ کار نے کی ہے، اورمیڈیا میں اس کے بیان کو بڑے اہتمام کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ وسیم رضوی نے جو جاہلانہ انداز میں دینی مدارس پر الزامات لگائے ہیں پوری دنیا جانتی ہیں وہ سراسر بے بنیاد، خلافِ حقیقت اور فرقہ پرستی پر مبنی ہے، انہوں نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مدارس ِ اسلامیہ کو اپنی ناپاک زبان کا نشانہ بنایا ہے، جس سے اُن کی شرپسندی، تعصبیت، مسلم دشمنی، ملت بیزاری صاف واضح ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وسیم رضوی جیسے شرپسندوں کے ہزار بیانات اور خطوط کے باوجود بھی مدارس کی خدمات، ان کی بہترین کاردگردی متاثر نہیں ہوگی، اورہرباشعور فرداور عقل ِ سلیم اور فہم ِ صحیح کی دولت رکھنے والا ان مدارس کی قدرومنزلت کااعتراف کرے گا۔

وہ اپنے اس بے بنیاد بیان اورخط کے ذریعہ مدارس کے خلاف سازش کررہے ہیں بلکہ پوری ملت ِاسلامیہ کے خلاف سازش کررہے ہیں، جس کا خمیازہ انہیں ضرور بھگتنا پڑے گا، کرسی وعہدہ کی ہوس میں انسان نہ جانے کیا کچھ بول جاتا ہے اس کو اندازہ نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی خدا کی بے آواز لاٹھی پڑتی ہے توپھر نابھاگنے جگہ ملتی ہے اورنہ ہی ٹھہرنے ٹھکانہ نصیب ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ہی دشمنوں کے آلہ ٔ کار بن کر کام کرتے ہیں اور وقتی منفعت کی خاطر ضمیر وملت کا سودا کرتے ہیں، لیکن یہ کتنے گھاٹے کا سودا ہوتا ہے نشہ اترنے کے بعد احساس ضرور ہوجائے گا، ایسے ملت فروش انسان دنیا میں چہرہ دکھانے کے قابل تک نہیں ہوتے، وسیم رضوی نے حقائق سے نابلد ہوکر اور تمام تر سچائیوں کو فراموش کرکے زبان کو بے لگام استعمال کیا، مدارس پرالزامات لگانے سے پہلے کم از کم وہ دینی مدارس کا جائز ہ تو لیتے، یہاں کے پاکیزہ ماحول میں آکر بیٹھتے، نیک صفت طلباء سے بات چیت کرتے، صبح وشام کے نظام العمل سے واقفیت حاصل کرتے، کتابوں اور درسیات کی تفصیلات سے آگاہ ہوتے، خاموشی وسادگی، ایثاروقربانی کے ساتھ زیور ِ علم سے آراستہ ہونے والے طلباء سے ملک وملت کے تئیں بلند حوصلے، اونچے عزائم، پرخلوص فکر، بے ریا جذبات کی معلومات حاصل کرتے، اس وطن کے لئے اُن کی آنکھوں سے سجے خوابوں کو جانتے، اپنے اکابر کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے دین وشریعت، امن ومحبت کی تبلیغ کرنے اور ا س ملک کی تعمیر وترقی میں جان وتن کھپانے والا کا حوصلہ رکھنے والوں کے احوال دریافت کرتے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ مغربی ممالک سے لوگ آکر مدارس کا دورہ کرتے ہیں، ان کی خدمات کو سراہتے ہیں، اوران کے خاموش کارناموں کی ستائش کرتے ہیں، لیکن ایک بدنصیب وہ بھی ہے جو ملک میں رہتے ہوئے اور دینی مدارس کے اطراف میں جیتے ہوئے مدارس کے خلاف زہر اگلتا ہے، دارالعلوم دیوبند کو دنیا کے مختلف ممالک سے نمائندے آتے ہیں، ندوۃ العلماء لکھنومیں حاضر ہوتے ہیں، اوراِن جیسے ملک کے دیگر عظیم اداروں کو پہنچ کر ان کی خدمات کا اعتراف کرکے جاتے ہیں، لیکن کس قدراندھا پن اورکورچشمی ہے کہ وسیم رضوی جیسے لوگوں کو اپنے ملک کے ان عظیم مدارس کی خدمات نظر نہیں آتی، ان کے تاریخی کارنامے دکھائی نہیں دیتے، دراصل تخریب کاروں، نفرت کے علمبرداروں، شرپسندوں، فتنہ انگیزوں کو ہر طرف ویسا ہی نظر آتا ہے جیسے وہ ہوتے ہیں۔ ’’برتن میں جو چیز ہوتی ہے وہی چھلکتی ہے‘‘۔ اس کے مصداق رضوی کے ذہن ودماغ میں مسلم دشمنی بسی ہوئی ہے لہذا وہی ظاہر ہوئی۔

    دینی مدارس پر دہشت گردی کا الزام لگایاگیا، کیا وہ بھول گئے کہ آخر کیوں مدارس کے بے قصور طلباء کو ٹرینوں میں ستایاجارہا ہے، ماراپیٹاجارہا ہے، کیا مارکھانے والے دہشت گرد ہوسکتے ہیں اور مارنے والے، ظلم وستم کرنے والے، چاقو، لاٹھی، آلات واوزار لے کر دندناتے پھرنے والے امن پسند؟فرقہ پرستی کی آڑ میں مدارس کے طلباء کو جگہ جگہ ہراساں کرنے والے، سفرکو پُرخطر بناکر رکھ دینے والے امن ومحبت کے خوگر ہوگئے اور خاموش وسادی زندگی بسرکرنے والے، ظلم کرنے والوں کے ساتھ بھی عفو و درگزر کا معاملہ کرنے والے ملک کے دشمن بن گئے؟حیرت ہے ہمیں وسیم رضوی کی ذہنیت اوراُن کے بے تکے الزامات پر۔ فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے ہتھیاروں سے لیس ہوکر دی جانے والی ٹریننگ نظر نہیں آتی، لیکن بوریہ اور چٹائی پر بیٹھ کر قال اللہ وقال الرسول پڑھنے والے، انسانیت کے ہمدردومحسن، ملک وملت کے بے لوث خدمت گزاربوجھ اور دہشت گرددکھائی دے رہے ہیں۔

      جن مدرسوں میں صبح و شام یہ تعلیمات دی جاتی ہے اور جہاں پڑھانے والے اساتذہ اور پڑھنے والے طلباء مسلسل اس بات کی کوشش میں لگے رہتے ہوں کہ سیرت ِ نبوی ﷺکی جھلک زندگیوں میں آجائے، اور ایک مسلمان واقعی اسوہ ٔ رسول ﷺ کاثبوت پیش کرنے والا بن جائے، جس نبی کریم ﷺ کی پوری سیرت رحم وکرم، امن وسلامتی، محبت و الفت سے بھری ہوئی ہے، جس نبی ﷺ نے اپنے ہر عمل سے اور قول سے امن و محبت کی تعلیمات دی ہیں، اور جو نبی ساری انسانیت کے لئے امن و محبت کی تعلیمات لے کر آیا ہے، کیا بھلا ان اداروں میں غیر امن چیزوں کی توقع بھی کی جاسکتی ہے؟دینی اداروں کی کامیابی یہ سمجھی جاتی ہے کہ یہاں سے ایک اچھا انسان بن کر طالب علم دنیا میں جائے، جو اپنے دین میں کامل، اپنے اخلاق میں مکمل، اور اپنے ملک کا وفادار ہو۔ اس کے لئے محنتیں کی جاتی ہیں، طلباء کو الفت و محبت کا درس دیا جاتا ہے، نبی ٔ رحمت ﷺکی تعلیمات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور کامیابی کی معراج قراردی جاتی ہے کہ زندگی اسوہ نبویﷺ کے سانچے میں ڈھل جائے اور ادا، ادا سے سیرت رسول ﷺکی روشنی، اخلاق نبوی ﷺکے کرنیں پھوٹنی لگیں۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ مدارس کے فارغین اپنی بساط کے مطابق ہمیشہ ملک کی خیر خواہی میں ہی لگے رہے اور انہوں نے انسانوں کو اخلا ق وشرافت کا سبق پڑھا کر ایک اچھا انسا ن بننے کی کامیاب کوشش کی ہے، اور آج بھی معاشرہ کو نیک اور پاک بنانے کی تمام تر فکریں اوڑھے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، شرابیوں کو شراب کی لعنت سے بچانے، سود خوروں کو سود سے محفوظ رکھنے، ظلم و زیادتی کرنے والوں کو روکنے، لوٹ کھسوٹ سے منع کرنے، خاندانی حقوق، معاشرتی حقوق، علاقائی حقوق، ملکی حقوق کو اداکرنے کی تعلیم دینے والے یہی مدارس کے فضلاء اور فارغین ہوتے ہیں۔ جو معمولی تنخواہوں کے باوجود ایک اچھے معاشرہ کی تعمیر میں اپنی زندگیوں کو ختم کردیتے ہیں۔

    یہ کس قد ر افسو س کی بات ہے کہ جس ملک کے لئے اہل ِ مدارس نے اپنا سب کچھ قربان کیا، اپنی تمناؤں کو مٹاکر ملک وملت کی حفاظت کے لئے جانیں دیں، آج اسی ملک میں ان مدارس کو اور اہل ِ مدارس کو شک بھری نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے، مدرسہ میں پڑھنے والے طلباء پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں، امن ومحبت کے گہواروں کو دہشت گردی کے اڈے قراردینے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔ دریدہ دہن، اور تعصب پسند و فرقہ پرست افرادمسلمانوں اور مداراس کے خلاف زہر اگلتے ہیں، اور من مانی باتیں بے دریغ اور بے خوف وخطر کہہ کر الفت ومحبت کے ماحول کو اور بھائی چارگی کی فضاء کو مکدر کرنے پر ہیں۔

     یقینا ایسے لوگ جو مدارس ِ دینیہ کے خلاف زبان دراز کرتے ہیں، ان کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے، ان سے بے جا وبے بنیاد الزامات پر معافی مانگنے کا مطالبہ ہونا چاہیے، اور انہیں آئندہ اس طرح کی غیر ذمہ ارانہ باتوں، نفرت انگیز کاموں سے باز رہنے کی ترہیب ہونی چاہیے۔ وسیم رضوی کے اس بیان پر جہاں مختلف گوشوں سے مذمت کی گئی وہیں بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ’’ رضوی موقع پرست ہے انہوں نے اپنا ضمیر آرایس ایس کو بیچ دیا ہے، وہ کسی ایک مدرسہ کو نہیں بتاسکتے کہ جہاں دہشت گردی کی تعلیم ہوتی ہے۔ ‘‘وسیم رضوی جیسے تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ غیر متعلقہ باتوں اور منفی ذہنیت کے بجائے تعمیری کام اور مثبت سوچ کے ذریعہ امن ومحبت کو فروغ دینے والے بنیں اور ملک کے ضروری مسائل کی طرف توجہ دیں، اگر کچھ اچھا کرسکتے ہیں تو کریں ورنہ کچھ خراب بھی نہ کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مغرب کے نقطہ نظر سے جہاد واقعی برا ہے اور دہشت گردی ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کو دبنا اور جھکنا نہیں سکھاتا. یہ باطل اور جارحیت کے خلاف ڈٹ جانے اور اس کا مقابلہ کرنے کا درس دیتا ہے. لہذا نصابی کتابوں سے جہاد سے متعلق آیات قابل اخراج ہیں. مدرسے بند ہونے چاہئیں یا ان میں سائنس اور ریاضی پڑھائی جانی چاہیے. جو مسلمان مغربی ظلم و ستم کے خلاف زبان نہ کھولیں اس کی بلاواسطہ یا بالواسطہ حمایت کریں وہ روشن خیال، معتدل اور ترقی پسند ہیں اور جو مغرب کی بالادستی اور جارحیت قبول نہ کریں وہ دہشت گرد ہیں جہادیے اوع تخریب کار ہیں.

تبصرے بند ہیں۔