مثالی بہو کی تلاش

اسدالرحمن تیمی

(معلم:جامعہ امام ابن تیمیہ)

خبر ہے کہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی جناب شیوراج چوہان صاحب اپنی مادرعلمی برکت اللہ یونیورسیٹی میں ’’مثالی بہو ‘‘ کے نام سے ایک نیا کورس متعارف کرانے جا رہے ہیں، مقصد یہ ہے کے سماج میں جس تیزی کے ساتھ خاندانی شیرازہ بکھر رہا ہے، مشترکہ گھریلو نظام ٹوٹتا جا رہا ہے، گھر کے بڑے بزرگ تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں اور ازدواجی رشتے ناپائیدار ہو تے جارہے ہیں، ان سب مسائل کا حل نکالا جا سکے۔ مثالی بہو کی تلاش اس لئے کہ کوئی لڑکی شادی کے بعد نہ صرف کسی مرد کی بیوی ہوتی ہے بلکہ کئی نئے رشتوں کا روپ لیتی ہے مثلاًبہو وغیرہ اگر وہ اچھی بہو ثابت ہوتی ہے تو ظاہر ہے خاندانی رشتوں میں استحکام اور مضبوطی پیدا ہوگی۔

یہ بات مسلّم ہے کہ گھر کی خوشحالی اور ترقی یا بربادی اور بکھراؤ میں خواتین کا کلیدی کردار ہوتا ہے، لیکن آج کے کھلے، آزاد اور موڈرن ماحول میں عام طور سے لڑکیوں میں بے راہ روی بڑھ رہی ہے، اگر خاتون معاشی حیثیت سے خود کفیل ہے تو پھر اس سے سماجی روایات کی پاس داری کی امید کم ہی کرنی چاہئے، اس کے لئے شوہر کی تابع داری اور سسرال والوں کی خدمت گذاری مشکل ہے۔ گھر کی چہار دیواری میں اسے گھٹن محسوس ہوتی ہے، اکثر دیکھا جا رہا ہے کے بہو کے آنے کے کچھ ہی مہینوں بعد گھر کا ماحول کشیدہ ہو جاتا ہے، اور شوہر بیوی کو لے کر والدین سے علیحدہ گھر بسا لیتا ہے اور اگر مشترکہ گھریلو نظام پر چلتا رہے تو گھر کے سارے افراد کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ایسے حالات میں اس قسم کے نصاب تعلیم سے ہندوستانی سماج اور مشرقی تہذیب تمدن کی ایک بڑی ضرورت پوری ہوگی۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عورت نصف حیات ہے،تصویر کائنات میں اسی کا رنگ ہے،زندگی کے سوز دروں میں اسی کا ساز ہے،وہ کارزار حیات میں آہن بھی ہے اور آبگینہ بھی،زندگی کے چمنستان میں شبنم کے ساتھ ساتھ شعلہ بھی ہے،مردوں کے لئے راحت کا ذریعہ بھی ہے اور سر درد بھی۔ وہ جو بھی ہے اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں،لیکن عصر حاضر میں آزادیء نسواں کے نعرہ نے اسے کچھ زیادہ ہی بغاوت پرآمادہ کردیا ہے،جدید طرز زندگی نے اس کے لئے شوہر کی خدمت،گھر گرہستی کی ذمہ داری اور شرم وحیا کو بوجھ بنا دیا ہے، جس سے وہ اپنے آپ کو دور ہی رکھنا چاہتی ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض حضرات یہ چاہتے ہیں کہ خواتین زندگی کے تمام گوشوں میں مردوں کی ہم دوش ہوں، اعلی سے اعلی عہدہ حاصل کریں،ہواؤں میں اڑیں،شعلوں سے کھیلیں اور مردوں کو ثابت کردیں کہ وہ کسی طور ان سے کم نہیں،ساتھ ہی یہ حضرات یہ امید بھی پالتے ہیں کہ یہ خواتین مردوں کی ماتحت بن کر جیئیں، قدیم زمانے کی عورتوں کی طرح بلا چوں و چرا ان کی ہر بات مانیں،ظاہر ہے یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔

اگر ہمیں مثالی خواتین، مثالی بیٹیاں، مثالی بیوی اور مثالی بہو چاہئے تو اس کے لئے انہیں اعلی سماجی قدروں اور مذہبی تعلیمات کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا، انہیں اچھی تربیت دینی ہوگی، زندگی کی سچائیاں انہیں بتانی ہوں گی، لڑکیوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی،فیشن کے نام پر عریانیت اور اخلاقی ضابطوں سے دوری و مہجوری لڑکیوں میں اباحیت اور سماج میں انارکی ہی پیدا کرینگے، کیوں کہ ع جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا۔

تبصرے بند ہیں۔