مجازؔ کی شاعری: ایک مطالعہ

چودھری امتیاز احمد

مجازؔ 19اکتوبر1911ء میں ضلع بارہ بنکی کے مشہور قصبہ ردولی کے خواجہ محل میں پیدا ہوئے۔ مجازؔ ابتدائی تعلیم کے بعد 18سال کی عمر میں آگرہ آگئے تھے۔ انھوں نے 1929ء میں سینٹ جانس کالج آگرہ میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا۔ آگرہ میں ان کا قیام ان کی ادبی زندگی کے لئے بہت اہم ثابت ہوا۔ فانیؔ کا پڑوس نصیب ہوا۔ جذبیؔکے ہم جماعت تھے۔ آل احمد سرور بھی اس زمانے میں اس کالج میں زیر تعلیم تھے۔ مجازؔ اور جذبی سے ایک سال سینئر تھے۔ میکش اکبر آبادی سے بھی گہری مراسم تھے۔ حامد حسین قادری مرحوم نے وہاں انجمن ترقی اردو کی شاخ قائم کر رکھی تھی۔ اس ادبی ماحول سے مجازؔ نے دھیرے دھیرے اثر قبول کرنا شروع کیا اور شعر و شاعری سے ان کی دلچسپی بڑھنے لگی جذبیؔ کا تخلص اس زمانے میں ملالؔ تھا اور مجازؔ کا شہیدؔ۔ اسرارالحق قیام آگرہ کے دوران شہید تخلص کرتے تھے علی گڑھ میں مجازؔ تخلص اختیار کیا۔ علی احمد فاطمی اپنی کتاب ’’مجاز شخصیت اور فن‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’اسرارالحق آگرہ میں شہیدؔ تھے علی گڑھ میں مجازؔ ہو گئے۔ اسرارالحق کو بطور شاعر مجازؔ کے تخلص سے ساری اردو دنیا جانتی ہے لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ مجازؔ جب تک آگرہ میں تھے مجاز نہ تھے بلکہ شہیدؔ تخلص کرتے تھے۔ ان کے بیحد قریبی دوست و شاعری جذبیؔ کا تخلص ملالؔ تھا۔‘‘

مجازؔ کی شاعری کا آغاز ایک ایسے زمانے میں ہوا جب ہندوستان نئی منزلوں کے خوابوں کو کلیجے سے لگائے ہوئے نئے راستوں کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اور نئے حقائق اپنی تمام پیچیدگیوں اور امکانات کے ساتھ ابھر کر سامنے آرہے تھے ملک کی عام زندگی تیزی کے ساتھ ایک خاموش انقلاب سے ہمکنار ہو رہی تھی۔ ملک کی دوسری زبانوں کی طرح اردو ادب بھی بدلے ہوئے ان حالات کا آئینہ دار تھا۔ ایک سرے سے اقبال کی عظیم شخصیت کا فکر و فلسفہ کی ان رفعتوں کو چھو رہی تھی جہاں تک ان سے قبل کوئی شاعر نہیں پہنچا تھا۔ دوسرے سرے پریم چند ننگے بھوکے ہندوستان کی ان پستیوں کا احساس دلا رہے تھے جو ہمارے درمیان تھیں لیکن ان سے پہلے کسی نے ان کی طرف توجہ ہی نہیں کی تھی۔

دوسری جانب نیازؔ، مجنوں ؔ، جوشؔ، حفیظؔ، اختر شیرانی، اصغرؔ، حسرتؔ، فانیؔ، یگانہؔ، جگرؔ، قاضی عبدالغفار، ساغر نظامی اور متعدد دوسرے ادیب و شاعر تھے۔ ان میں کوئی حسن و عشق کے نغمے بالکل نئے انداز سے گا رہا تھا۔ کوئی آزادی اور انقلاب کا علمبردار تھا۔ کوئی نظم کو نئی وسعتیں عطا کر رہا تھا اور کوئی غزل کو نیا لب و لہجہ دے رہا تھا۔ ادھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ماحول بھی مجازؔ کے ذہنی اور فکری ارتقا کے سلسلے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

 آل احمد سرور لکھتے ہیں   ؎

’’مجازؔ کو نہ تو علم و فضل میں کوئی کمال حاصل رہا نہ انھوں نے کسی بڑی تحریک سے دلچسپی لی۔ ذہنی طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے مگر اس قید میں انھوں نے خاصی آزادی روا رکھی۔‘‘

 یہ سچ ہے کہ مجازؔ، فیضؔ و سردارؔ کی طرح مفکر و دانشور نہ رہے اور نہ ہی ان کی طرح مارکسی اور انقلابی جس کے سلسلے جوش سے مخدوم تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن فطری طور پر ان کی شاعری آگے چل کر ایک نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ انقلاب کے بعد وہ علی گڑھ اور دلّی پر نظمیں کہتے ہیں نورا اور ننھی پجارن پر نظمیں کہتے ہیں ۔

مجازؔ کا پہلا شعری مجموعہ ’’آہنگ‘‘ 1938ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ کا انتساب تھا ’’فیض اور جذبی کے نام جو میرے دل و جگر ہیں ۔ سردار اور مخدوم کے نام جومیرے دست و بازو ہیں ۔‘‘

 اس انتساب سے ان کی وابستگی اور ان شعراء کی انفرادیت اور شعری کیفیت کا بھی اندازہ ہو سکتا ہے۔

مجازؔ شباب اور انقلاب کے شاعر ہیں ۔ اور یہی دونوں ان کی شاعری کے خاص موضوع ہیں جہاں تک شباب کا تعلق ہے جب تک ان کے ہاتھ میں ساز اور ہونٹوں پر گیت لہراتے رہے وہ زندگی کی اس منزل کے گیت گاتے رہے ان کی شاعری میں انقلاب ہمیشہ حاوی رہا ان کی شاعری ابتدا سے آخر تک اس نصب العین کا احترام کرتی رہی وہ شاعر کی حیثیت سے زندگی کے آخری زمانہ تک مرد انقلاب رہے ۔

 شباب کا تصور مجازؔ کو عزیز تھا اس میں رومانوی اور انقلابی دونوں پہلو کچھ اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ انھیں کسی بھی مرحلے پر بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنی زمزمہ سنجی اور نغمہ خوانی کے سلسلے میں ’’محفل وفا‘‘ اور ’’بزم دلبراں ‘‘ دونوں کو اہمیت دیتے ہیں   ؎

میں ہوں مجازؔ آج بھی زمزمہ سنج و نغمہ خواں

شاعر محفل و فا، مطرب بزم دلبراں ؔ

یہاں شاعر محفل و وفا کے ٹکڑے میں بے پناہ وسعت اور معنویت ہے مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس سے مراد مجازکے لب ولہجہ اور مزاج کے پس منظر میں باغیوں اور سرکشیوں کے گیت گانے سے ہے۔ ان کی شاعری کے تجزیے کے دوران ان دونوں پہلوئوں کو بیک وقت ذہن میں رکھنا چاہئے۔

مجاز کی عشقیہ شاعری کے حوالے سے ان کی نظم ’’اعتراف‘‘ جو دراصل ان کی محبت کی ناکامی کا نوحہ ہی نہیں بلکہ ایک دور میں ایک نسل کے خوابوں کی شکست کی داستان بھی ہے۔ یہ نظم مجازؔ کی دوسری نظموں سے مختلف ہے یہاں شاعر اپنے ماضی کے ارمانوں ، امنگوں اور حوصلوں پر نگاہ ڈالتا ہے ان خوابوں کو یاد کرتا ہے جو ایک ایک کر کے چور ہوئے ان راستوں کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے جن پر عشق کی ناکامیوں نے اسے لا ڈالا تھا۔ اور جن پر چلتے چلتے زندگی اپنا سارا حسین۔ ساری معنویت اور ساری بانکپن کھو بیٹھی۔ شاعر محبوبہ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے   ؎

’’اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو‘‘

 اب میں تمہیں کیا نذر کر سکتا ہوں اب مرے پاس کچھ نہیں بچا زندگی اپنے معنی و مفہوم کھو چکی ہے۔ ’’اب میں وفادار نہیں ، ہاں میں وفادار نہیں ‘‘

  اس نظم میں اشاریت اور رمزیت کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ مجازؔ کی انفرادی زندگی کے المیہ سے بڑھ کر ان کے عہد اور ان کی نسل کے المیہ کی ترجمانی کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ مجازؔ کے جو خواب چکنا چور ہوئے ان کے جن ارمانوں کے خون ہوا وہ اکیلے ان کے نہیں تھے۔ انقلاب کی آمد کا یقین۔ سرمایہ داری کے خاتمے کا خواب اور دیگر جو آرزوئیں جو ان کی نسل کے نوجوانوں کو عزیز تھیں سب پر پانی پھر چکا تھا۔ اور اگر مجازؔ کے یہاں سوال اجتماعی محرومی اور مایوسی کا نہ ہوتا اور بات صرف عشق کی ناکامی تک محدود ہوتی تو مجازؔ اتنے دردناک لہجے میں نہ چیخ اٹھتے۔

’’میں وفادار نہیں ہاں میں وفادار نہیں ‘‘

 مجازؔکے تصور انقلاب کے متعلق دو متضاد قسم کی رائیں ملتی ہیں ایک یہ کہ مجازؔ نے اس میدان میں اپنے فرائض سیاسی و سماجی بصیرت شاعرانہ خلوص اور فنی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے کامیابی کے ساتھ انجام دیئے ہیں اس سلسلے میں فیضؔ کا یہ خیال   ؎

 ’’مجازؔ انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں مطرب ہے‘‘

 زیادہ تر ترقی پسند ناقدین نے اس پر اتفاق کیا ہے۔

 دوسری رائے یہ ہے کہ مجازؔ انقلابی شاعر کی حیثیت سے زیادہ کامیاب نہیں ہے اور ان کا انقلاب کا تصور تجریبی زیادہ تعمیری کم ہے۔ اسلوب احمد انصاری کا یہ قول    ؎

’’مجازؔ کی بیشتر نظمیں اعلیٰ اور کامیاب شاعری کے معیار پر پوری نہیں اترتی کیونکہ ان نظموں میں شاعری کے منصب کا احترام کم کرتے ہیں انقلاب کا ڈھنڈورہ زیادہ پیٹتے ہیں ۔‘‘

 بہرحال مجازؔ شباب اور انقلاب کے شاعر ہیں ۔ اگرچہ بعض ناقدین کو اس بات سے اختلاف ہے لیکن ان کی شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انقلاب ان کی شاعری میں رچ بس گیا ہے۔ مجازؔ کا پہلا شعری مجموعہ آہنگ 1938ء میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔ 1945ء میں ’’شب تاب‘‘ کے عنوان سے دوسرا مجموعہ اور بعد میں یہی مجموعہ اضافے کے ساتھ ’’ساز نو‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔

 کلیات مجاز میں کل 62نظمیں ، 33غزلیں اور آخر میں 3گیت بھی شامل ہیں ۔

 مجازؔ اور جذبی سینٹ جانس کالج آگرہ کے مشاعروں میں ہمیشہ شریک رہتے تھے۔ ایک بار کالج ہی کے ایک مشاعرے میں جس کے لئے آل احمد سرور اور جذبی نے بھی غزلیں لکھی تھیں ۔ مجاز کو اس مشاعرے میں بہترین غزل پر گولڈ میڈل ملا جس کا ذکر مجاز جنون کے عالم میں بڑے ولوے کے ساتھ کرتے تھے۔ مجازؔ شراب بہت زیادہ پیتے تھے اور یہی چیز ان کو لے ڈوبی 3دسمبر 1955ء کو مجاز نے لکھنؤ میں ایک مشاعرہ میں دو غزلیں پڑھیں یہ مجاز کے لئے آخری مشاعرہ تھا۔ 5دسمبر 1955ء میں چوالیس سال کی عمر پا کر ابدی نیند سو گئے۔

شاعر ہوں اورا میں ہوں عروس سخن کا میں

کرنل نہیں ہوں خان بہادر نہیں ہوں میں

کرنل سہی میں خان بہادر سہی مجاز

اب دوستوں کی ضد ہے تو شاعر نہیں ہوں میں

تبصرے بند ہیں۔