اطہر اعظمی کے شعری مجموعہ’فکر‘ پرایک تاثر

 وصیل خان

اس شعری مجموعے کے خالق اطہر اعظمی ہیں جو ایک عرصہ ٔ دراز سےعروس البلاد ( ممبئی ) میں مقیم ہیں ۔ نسلی و ارضی اعتبار سے ان کا تعلق اعظم گزھ کی اس سرزمین سے ہے جو زمانہ ٔ قدیم سے مختلف علوم و فنون ،خصوصاً ادبیات و اسلامیات کے ماہرین اور شہسواروں کا مسکن رہا ہے۔ یہاں کے بیشتر اہل علم و فکر میں جولانی ٔ طبع کے ساتھ ایک خاص ندرت اور زاویہ ٔ نظر ان کی انفرادیت میں نمایاں رول ادا کرتا رہا ہے،جس کے تعلق سے مولانا اقبال سہیل نے کبھی کہا تھا۔ ’جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے‘۔ یہ انفرادیت بھی کلی نہیں جزوی تھی، اب یہ بھی زوال پذیر ہے لیکن یہ زوال جزوی نہیں ،کلی ہے ،کیونکہ قدروں کا انحطاط تو عالمی سطح پر جاری ہے۔

اطہر اعظمی اہل ادب کے درمیان اجنبی نہیں ،رسائل و جرائد میں ان کے کلام کی اشاعت اور اور ممبئی کی ادبی نشستوں میں ا ن کی شمولیت نے انہیں نہ اجنبی رہنے دیا نہ ہی غیر معروف۔ ان کے کلام میں فلسفیانہ موشگافیاں اور علمی نقاط پر بھلے ہی زور کم دیا گیا ہو لیکن سیدھے سادے اور سرل انداز نے ان کے یہاں شگفتگی اور اثر انگیزی ضرور پیدا کردی ہے۔ وہ اپنے سینے میں ایک حساس دل رکھتے ہیں اور ظاہر ہے شاعری احساس کے بغیر کہاں ،یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں تہذیب و معاشرت کا پہلو نمایاں ہے وہ بار بار معاشرے کو اسی اقدار کا خوگر بننے پر زور دیتے ہیں جس کی عدم موجودگی نے آج پوری انسانی تہذیب کو ہی پامال کرکے رکھ  دیا ہے۔ ماضی سے ربط ،حال کی آگہی اور مستقبل پر گہری نظر نفیس و معیاری ادب کی تخلیق کیلئے ضروری ہے ،اس کے بغیر جو بھی خلق ہوگا وہ ادب تو ہوسکتا ہے ادب عالیہ نہیں ۔ اطہر اعظمی بھلےوہاں تک نہ پہنچے ہوں لیکن یہی کیا کم ہے کہ وہ اس سمت کے راہی تو ہیں ۔ عبید اعظم اعظمی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ’’ اطہر اعظمی کی شاعری محض حالات حاضرہ کا نشریہ نہیں ہے بلکہ اس میں مستقبل کی سمتیں اور مسائل صاف نظر آتے ہیں ۔ وہ ایک بیدار ذہن  انسان ہیں ان کے مزاج کی سچائی اور بیداری جگہ جگہ ان کی شاعری سے نمایاں ہے،ان کا بیباک قلم انہیں حقیقت نگاری اور حق بیانی سے چشم پوشی نہیں کرنے دیتا۔ ‘‘

 خاص بات یہ بھی کہ ان کے یہاں سنجیدگی ، متانت اور بردباری کی وہ لہریں صاف نظر آتی ہیں جو مسائل کی تحلیل کیلئے ضروری ہیں ۔ سیدھا سادا اور راست بیانیہ آج کی ضرورت ہے وہ اسی پر زور دیتے ہیں یہی سبب ہے کہ ابہام و ایہام سے بڑی حد تک گریز کرتے ہیں ۔ وہ شاعری کو شوق یا تفریح کا ذریعہ نہیں بناتے بلکہ اصلاح معاشرہ کیلئے ایک ہتھیار بنانا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں کہیں کہیں سختی و کسیلے پن کا بھی احساس ہوتا ہے۔ جہاں تک طرز نگارش اور زبان کا معاملہ ہے ہر صنف سخن میں انہوں نے عام فہم اور سہل تر اسلوب کو ترجیح دی ہے جو آج کی ضرورت بھی ہے۔ چند اشعار بطور تمثیل یہاں درج ہیں آپ خود ہی دیکھ لیں ، کیونکہ خوب و ناخوب کا فیصلہ بہر صورت آپ کو ہی کرنا ہے۔

ترے آئینہ ٔ وحدت کی وسعت

رہے محجوب بھی روشن بھی سب میں

انگلی اٹھائیں غیر پہ پر اس سے قبل خود

اپنا قدم بھی دیکھئے کیا اپنی حد میں ہے

خوں پسینہ بہا اسامی کا

 پھر زمیندار کو لگان ملی

رہا عروج کا دن تو سبھی چلے ہمراہ

  ہوئی جو شام تو سایہ بھی ساتھ چھوڑگیا

آج کے خود ساختہ سردار کا

 امتحاں میداں میں کل ہوجائے گا

نام کتاب : فکر ( شعری مجموعہ ) ،شاعر : اطہر اعظمی ( موبائل :  892546875)،قیمت:200/-روپئے ۔صفحات  :  156،ملنے کے پتے  : 241/19،اے ، گیٹ نمبر ۵،مالونی ملاڈ ویسٹ ،ممبئی ۹۵۔سیفی بک ایجنسی،امین بلڈنگ ،جے جے روڈ،ممبئی ۹۔کتاب دار108/110جلال منزل، ٹیمکر اسٹریٹ ، ممبئی ۸ 

تبصرے بند ہیں۔