مجبوری

فائزہ شاہ

ارے وہ دیکھ کون آرہا ہے.

جمشید معنی خیز انداز میں مسکرایا .

صمد نے جمشید کی آنکھوں کے تعاقب میں دیکھا تو ایک خواجہ سرا چلا آرہا تھا۔

عجیب و غریب حلیہ تھا اسکا  چمکیلے لال کلر کا ایکدم فٹ ریشمی شلوار کرتا .

سلک کا دوپٹہ گلے میں رسی کی مانند جھول رہا تھا.بے تحاشا میک اپ تھوپ کر اچھی خاصی شکل کو بگاڑے ہوئے تھا اس نے سر پر گھنگریالے بالوں کی وگ لگائی تھی۔

جمشید کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آگیا۔۔۔۔

خواجہ سرا اس کے قریب آکر رکا اور اپنے مخصوص انداز میں لہرا کر صدا لگانے لگا۔۔۔

 پہلے بتاؤ نام کیا ہے تمہارا……….جمشید شرارتی انداز میں بولا۔۔۔

پری  ……….خواجہ سرا نے اسے سر سے پیر تک دیکھا اور ادائے بے نیازی سے کہا۔۔۔

ہاہاہاہا……اچھا نام ہے پری ……اچھا پری! کوئی اچھا سا گانا ہی سنا دو…  جمشید مسکرا کر بولا۔۔

 خواجہ سرا اپنی بھونڈی اور بے سری آواز میں کوئی فلمی گانا گانے لگا۔۔۔

گاڑی میں بیٹھے جمشید کے دوست صمد کو یہ سب بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا وہ گاڑی سے نیچے اتر آیا۔۔۔

صمد جمشید کے ساتھ آکر کھڑا ہوگیا۔۔۔

جواجہ سرا اپنا گانا ختم کر کے سوالیہ نظروں سے جمشید کی طرف دیکھنے لگا کہ شاید اب وہ کچھ پیسےاسے دے دیگا .!!!
اچھا ادھر آو……. اب ایسا کرو کہ کچھ رقص وغیرہ دکھاؤ پھر کچھ دیتا ہوں تمہیں  ……..جمشید کمینگی سے ہنسا

خواجہ سرا کے آگے بڑھتے قدم رک گئے۔۔

پیسے دینے ہے تو دو بھائی تماشہ مت بناو …خواجہ سرا نے تلخی سےکہا۔۔

تماشہ ….ہاہاہا ….تم خود کسی تماشے سے کم ہوکیا؟ …..جمشید نے قہقہہ لگایا۔۔

خواجہ سرا نے چیرتی ہوئی نظروں سے جمشید کو دیکھا اور خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔۔۔۔

جمشید سے اسکا یوں جانا گوارہ نا ہوا وہ آگے بڑھا اور اس خواجہ سرا کابازو دبوچا۔۔۔

ایسے نہیں جانے دونگا ہمیں خوش کر کے جاؤ…..جمشید نے سفاکی سے کہا۔۔۔

کیا کر رہے ہو یار چھوڑو اس کا  پیچھا بد دعا لگ جاتی ہے انکی تنگ مت کرو اسے… …صمد نے آگے بڑھ کرجمشید کا ہاتھ کھینچا۔۔

نہیں چھوڑنا اسےجب تک یہ میری بات نہیں مان جاتا اور اس کی کیا بد دعا لگے گی جو خود نا آدمی ہے نا عورت….جمشید طنزیہ انداز میں بولا۔۔۔

خواجہ سرا جمشید کی بات پر ٹھٹھک گیا اور اسکے چہرے کی طرف دیکھا  …اور بلند آواز میں قہقہہ لگانے لگا …

جمشید اور صمد حیران ہورہے تھے کہ اسے کیا ہوگیا مسلسل  پاگلوں کی طرح ہنسے جارہا ہے  حتی کہ اس کی  آنکھوں میں پانی بھر آیا۔۔

وہ دونوں اسے دیکھے جارہے تھے …

خواجہ سرا بہت دیر ہنسنے کے بعد ایکدم چپ ہوگیا اور سر نیچے کیے زمین کو گھورتا رہا پھر اس نے سر اٹھایا تو ان دونوں نے دیکھا

اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔

صمد کو ڈر سا محسوس ہوا۔۔۔۔

 اسے بہت ڈر لگتا تھا ایسے لوگوں کی بد دعا سے۔۔

خواجہ سرا ایک قدم آگے آیا اور اپنے سر سے بالوں کی وگ اتاری اور جمشید کی طرف اچھالی جو جمشید کے پیروں میں گر گئی

اس کی تمہیں ذیادہ ضرورت ہے مجھ سے بھی ذیادہ کیوں کہ تم ذیادہ شوق رکھتے ہو ایسے  …اب وہ خواجہ سرا مردانہ انداز میں بات کر رہا تھا۔

جمشید کے ہونٹ تو جیسے سل گئے تھے۔۔

میں کوئی اصلی خواجہ سرا نہیں میرا نام شاہد ہے میں نے گریجویشن کی ہے  میری اکلوتی چار سالہ بیٹی کینسر کے مرض میں مبتلا ہے بیوی مر چکی ہے۔

 میرا اس دنیا میں میری بیٹی کے علاوہ کوئی نہیں …..خواجہ سرا زخمی لہجے میں بولا۔

پر تم کوئی اور نوکری بھی کر سکتے ہو نا تعلیم یافتہ ہو آخر یہ کام کس لیے کررہے ہو…..صمد نے ہمت کر کےپوچھا
شاہد دکھی سا ہنس دیا..

کسی نے نوکری نہیں دی دربدر کی خاک چھانی  دو سال تک دھکے کھائے ہر جگہ اسی دوران اچانک بیوی مر گئی شاید وہ کسی  موذی مرض میں مبتلا تھی  جس کا اس نیک بخت نے کبھی ذکر تک نہیں کیا .. بیٹی بھی  اسی  مرض میں مبتلا ہوئی کہ سرکاری ہسپتال میں داخل کروانا پڑا.. جب ڈاکٹر نے باہر کی لیبارٹری کے ٹیسٹ کی لسٹ لاکر تھمائی تب میری آنکھیں کھل گئیں میں نے سوچا کہ صرف سرکاری ہسپتال میں بھرتی کروانے سے علاج نہیں ہوسکے گا۔ پیسے تو ہر صورت میں  چاہیے ہوں  گے پھر نوکری کی تلاش میں نکل پڑا پر کہیں سفارش تو کہیں رشوت کی ضرورت تھی ان دونوں میں سے میرے پاس کچھ نہیں تھا آخر کار میں مایوس ہوکر ایک دکان کے آگے بیٹھ گیا اتنے میں وہاں ایک خواجہ سرا آیا کچھ دیر میں  اچھے خاصے پیسے مانگ کر چلا گیا۔

بس مجھے بھی  یہ طریقہ کارآمد نظر آیا  جب تک نوکری نہیں ملتی مجھے ایسے ہی اپنی بیٹی کا پیٹ پالنا تھا اور علاج کروانا تھا
کوئی بھی انسان  بہروپ اپنی مرضی سے نہیں دھارتا اسکو حالات مجبور کرتے ہیں مجھے اگر نوکری مل جاتی تو مجھ جیسے مرد کو کیا ضرورت تھی خواجہ سرا بن کرتم جیسے لوگوں کے ہاتھوں بے عزت ہونےکی حالات نے مجھے آج اس مقام پر کھڑا کردیا ہے
پر خواجہ سرا کا یہ روپ دھار کر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ کمی خواجہ سرا میں نہیں بلکہ ہم جیسے مکمل انسانوں میں ہے ہم کبھی ان خواجہ سراؤں کے دکھ کو سمجھ ہی نہیں سکتے صرف ان کا مذاق اڑا سکتے ہیں اور یہ معصوم لوگ ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں …..

شاہد اتنا بول کر رکا نہیں اور دونوں کو دکھی انداز میں دیکھ کر  چل دیا …..

وہ دونوں کچھ بولنے اور اسے روکنے کے قابل نہ تھے۔

لیکن وہ جمشید کی آنکھیں کھول کر گیا تھا۔

وہ دونوں خود کو اس کے مقابلے میں بلکل چھوٹا محسوس کر رہے تھے۔

 جمشید نے ایک قدم بڑھایا تو کچھ پیر میں لگا۔

  سر جھکا کر دیکھا تو اس کے پیروں میں پڑی خواجہ سرا کی وگ اس کا منہ چڑا رہی تھی ..

تبصرے بند ہیں۔