جنسی تعلیم: ایک جائزہ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

تعلیمی موضوعات سے متعلق ایک مسئلہ جنسی تعلیم کاہے، آیابچوں کواس کی تعلیم دی جائے یانہیں ؟یااگردی جائے توکیااس کے لئے عمروغیرہ کی تحدید ہونی چاہئے یانہیں ؟ ذیل میں انہی باتوں کاشرعی نقطۂ نظرسے جائزہ لیاگیاہے۔

 جنسی تعلیم کے سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہرچیز کے لئے ایک وقت ہوتاہے، قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْْء ٍ قَدْراً (الطلاق:۳) اوروقت سے پہلے اس چیزکاحصول نقصان دہ ثابت ہوتاہے، کوئی بھی شخص بخارکی دوابخارلاحق ہونے سے پہلے نہیں کھاتا، جنسی تعلیم کے لئے بھی ایک عمرہوتی ہے، اس اعتبارسے اس مسئلہ کے دوصورتیں ہوتی ہیں :

          ۱-  بلوغ سے پہلے جنسی تعلیم دی جائے۔

          ۲-  بلوغ کے بعدجنسی تعلیم دی جائے۔

پہلی صورت میں جنسی تعلیم کی بالکل گنجائش نہیں ؛ کیوں کہ یہ عمر اس تعلیم کی متحمل نہیں اورعلماء نے لکھاہے کہ تحمل نہ کرنے والے سامع کوعلم دینا درست نہیں، ابن عقیل ؒ کاقول ہے:

یحرم إلقاء علم لایحتملہ السامع لاحتمال أن یفتنہ۔ (شرح الکوکب المنیر، فصل:للمفتی رد الفتوی: ۴؍۵۸۷) ’’سامع کوایسی تعلیم دینادرست نہیں، جس کاوہ متحمل نہ ہو، فتنہ کی وجہ سے‘‘۔

 ابن جوزیؒ فرماتے ہیں :

لاینبغی إلقاء علم لایحتملہ السامع۔((شرح الکوکب المنیر، فصل:للمفتی رد الفتوی: ۴؍۵۸۷)

’’سامع کوایسی تعلیم دینامناسب نہیں، جس کاوہ متحمل نہ ہو‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کاقول ہے:

ماأنت بمحدث قوماً حدیثاً لاتبلغہ عقولہم؛ إلاکان فتنۃ لبعضہم۔ (مقدمہ مسلم، باب النہی عن الحدیث بکل ماسمع)

غیرپختہ عقل لوگوں کوحدیث سنانے میں یہ خطرہ ہے کہ ان میں سے بعض کے لئے یہ فتنہ ہوجائے۔

خوداللہ کے رسول ﷺنے ’’غلوطات‘‘ (ایسے مسائل، جن کے ذریعہ سے مغالطہ ہو)سے منع فرمایاہے، حضرت معاویہؓ مروی ہے:

نہی رسول اللہ ﷺ عن الغلوطات۔ (ابوداود، باب التوقی فی الفتیا، حدیث نمبر: ۳۶۵۸، مسندأحمد، حدیث نمبر: ۲۳۶۸۷)

رسول اللہ ﷺ غَلوطات(مشکل اورمغالطہ میں ڈالنے والے مسائل) سے منع فرمایاہے۔

نیز بلوغ سے پہلے جنسیات کی تعلیم غیرنافع ہے اوراللہ کے رسول ﷺ نے غیرنافع علم سے پناہ مانگی ہے، حضرت زیدبن ارقمؓ ّسے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ دعا فرماتے تھے:

اللہم إنی أعوذ بک من علم لاینفع۔ (مسلم، حدیث نمبر:۲۷۲۲)

اے اللہ! میں غیرنافع علم سے پناہ چاہتاہوں۔

مذکورہ تمام باتوں سے معلوم ہواکہ بلوغ سے پہلے جنسیات کی تعلیم کسی بھی طورپردرست نہیں۔

جہاں تک دوسری صورت(بلوغ کے بعدجنسی تعلیم دیئے جانے ) کاتعلق ہے توچندشرطوں کے ساتھ اس کی گنجائش ہونی چاہئے:

          ۱-  بلوغ کے بعداس عمرمیں دی جائے، جس میں اس کی ضرورت محسوس ہو۔

          ۲-  لڑکوں کولڑکیوں سے الگ مرد استاذ کے ذریعہ دی جائے اورلڑکیوں کولڑکوں سے الگ عورت معلمہ کے ذریعہ دی جائے۔

          ۳-  ضرورت کے بقدر دی جائے کہ اصول ہے: ماأبیح للضرورۃ یقدر بقدرہا۔ (الأشباہ والنظائر،ص: ۱۰۷)

          ۴-  مصوراورمتحرک شکل میں ہرگزنہ دی جائے؛ البتہ میڈیکل کی تعلیم (جوکہ فرض کفایہ ہے)میں حد بندیوں کے ساتھ گنجائش ہے۔

          ۵-  کھلے الفاظ کے بجائے الفاظ کنائی کازیادہ سے زیادہ استعمال ہو۔

          ۶-  ایسے قابل اعتماداساتذہ کاانتخاب کیاجائے، جومذکورہ باتوں کا مکمل طورپرخیال رکھیں۔

          ۷-  اس موضوع پرکتابوں کے انتخاب میں بھی خاص خیال رکھاجائے؛ بل کہ مناسب عمروں کاخیال رکھتے ہوئے مکمل نصاب تیار کیاجائے۔

اگرمذکورہ شرائط کاخیال رکھ کرجنسیات کی تعلیم دی جائے توراقم کی نظرمیں حرج نہیں ؛ کیوں کہ عمرکی ایک حد تک پہنچنے کے بعدجنسیات کی تعلیم دینا بھی موجودہ زمانہ میں ضروری ہے؛ تاکہ بچے جنسی خرافات سے بچ سکیں، اس سلسلہ میں ہمیں سیرت نبوی ﷺ سے بھی نمونہ ملتاہے؛ چنانچہ حضرت ام سلمہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ ام سلیمؓ اللہ کے رسول ﷺکی خدمت میں حاضرہوئیں اورکہا:

یارسول اللہ! إن اللہ لایستحیی من الحق، فہل علی المرأۃ من غسل إذااحتلمت ؟ قال النبی ﷺ: إذارأت الماء۔ (بخاری، باب الحیاء فی العلم، حدیث نمبر: ۱۳۰)

اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا، توکیااحتلام کی وجہ سے عورت پرغسل ہے؟ اللہ کے رسولﷺ کے جواب دیا: جب پانی دیکھے۔

معلوم ہوا کہ فی نفسہ جنسی تعلیم اس طرح شجر ممنوعہ نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے معاشرہ میں سمجھ لیاگیاہے اورجس کے نتیجہ میں بالخصوص ہمارے نوخیز جوان غلط کاری کے شکارہورہے ہیں، اگرانھیں دائرہ میں رہتے ہوئے جنسی تعلیم دی جائے توجنسی بیماریوں سے بھی بچایاجاسکتاہے، اسی لئے ڈاکٹرآفتا ب احمدشاہ کی کتاب ’’آداب مباشرت‘‘ میں تقریظ لکھتے ہوئے فقیہ الامت حضرت مولانامفتی محمودحسنؒ فرماتے ہیں :

رسالہ’’آداب مباشرت‘‘ نظرسے گزرا، ماشاء اللہ بہت اہم ضروری مسائل ومعلومات پرمشتمل ہے، اس پرفتن دورمیں، جب کہ جنسیات کی طرف بہت رجحان ہے، غلط طریقوں کواستعمال کرکے شہوات کی تسکین کی جاتی ہے اوربے حیائی کے گھناؤنے طریقے صحبت وجماع میں استعمال کئے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں مختلف قسم کے امراض پیداہوتے ہیں، نیز آنے والی نسلوں پربھی خراب اثرظاہرہوتاہے۔

امیدہے کہ یہ رسالہ عہدحاضرکے لوگوں بالخصوص نوجوانوں کوراہ راست دکھانے میں بہت مفیدثابت ہوگا، اللہ تعالیٰ اس کے نفع کوعام وتام فرمائے اورمؤلف محترم کو جزائے خیردے اوردارین کی ترقیات سے نوازے، آمین! (آداب مباشرت، ص: ۸)

اورحضرت مولانامنظورنعمانی ؒ اسی رسالہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

اتفاق سے کتاب ہاتھ آگئی، میں نے اس میں حضرت مولانامفتی محمودحسن گنگوہی دامت فیوضہم کی تقریظ پڑھی، پھربعض عنوانات کے تحت جوکچھ لکھا ہے، وہ بھی پڑھ لیاتواندازہ ہواکہ کتاب بفضلہ تعالیٰ مفیدہے۔ (آداب مباشرت،ص:۱۳)

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    نوجوانوں کو جنسی تعلیم دینی چاہئے یا نہیں ؟

    اس موضوع پہ اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں.مگر ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے. یہ بات طے ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سیکولر و لبرل طبقہ ہمارے بچوں کی اس معاملے میں جس قسم کی تربیت کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے وہ ہر باحیا مسلمان کے لیے ناقابل قبول ہے. مگر یہ بھی ضروری ہے کہ نوعمر یا جوانی کے قریب پہنچنے والے بچوں اور بچیوں کو اپنے وجود میں ہونے والی تبدیلیوں اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر سے بچوں کو اس چیز کی مناسب تعلیم نہ ملے تو وہ باہر سے لیں گے جو کہ گمراہی اور تباہی کا باعث بنے گی. چند فیصد لبرل مسلمانوں کو چھوڑ کر ہمارے گھروں کے بزرگوں کی اکثریت آج کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہے. وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہش مند ہیں، ان کی خدمت میں کچھ گزارشات ہیں جن سے ان شاءاللّہ تعالیٰ آپ کے بچوں میں پاکیزگی پیدا ہوگی.
    1- بچوں کو زیادہ وقت تنہا مت رہنے دیں
    آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں. یہ قطعاً غلط ہے. بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں. کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں.
    2- بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے….
    3- بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں. اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں… یاد رکھیں والدین بننا فل ٹائم جاب ہے. اللّہ تعالی نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے.
    4- بچوں کو فارغ مت رکھیں
    فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے. بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لیے انکی دل چسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں. ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں.
    5- ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی، گہری نیند سوئے.
    6- بچوں کے دوستوں اور مصروفیات پر نظر رکھیں
    7- بچوں کو صرف رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ہی قتل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے ان کو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی ان کے قتل کے برابر ہے.
    8- بچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں. اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بھاگ جاۓ یا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں. بچوں کو عادی کریں کہ کسی کے پاس تنہائی میں نہ جائیں چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی اور نہ ہی کسی کو اپنے اعضائے مخصوصہ یعنی شرم گاہوں کو چھونے دیں.
    9- بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر الگ کردیں اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ ان کی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے.
    10- بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں. آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے بھری ہے. مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں پرائویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے
    اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں. کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے. یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپ کے نہیں. آج کے دور میں میڈیا والدین کا مقام بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے. ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہیے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غلط قسم کی معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب نہ کر لیں.
    11- بچوں کو بستر پر تب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو. اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں.
    12- 13 یا 14 سال کی عمر میں بچوں کو ڈاکٹر کی کتاب Teenage Tinglings پڑھنے کو دیں. اس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے .یاد رکھیں آپ اپنے بچوں کو گائیڈ نہیں کریں گے تو وہ باہر سے سیکھیں گے جس میں زیادہ تر غلط اور من گھڑت ہوگا جس سے ان کے اذہان آلودہ ہوں گے.
    13- تیرہ، چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو ان کے والد اور بچیوں کو ان کی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں. کہ کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے بے حد خوب صورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. بدلے میں اللّہ تعالی کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے. اس طرح بچے بچیاں انشاءاللّہ تعالیٰ اپنی پاک دامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے.
    آخر میں گذارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھا دیں کہ اس دنیا میں حرام سے پرہیز کریں گے تو انشاءاللّہ تعالیٰ آخرت میں اللّہ سبحان وتعالیٰ کے عرش کے سائے تلے رہیےگے.
    اللّہ تعالیٰ امت مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے.

تبصرے بند ہیں۔