گر حوصلہ دیوں کا بڑھایا نہ جائے گا

شازیب شہاب

گر حوصلہ دیوں کا بڑھایا نہ جائے گا
ظالم ہوا سے ان کو بچایا نہ جائے گا

جدت کی ہے شکار دوالی کی روشنی
مٹی کا دیپ اب تو جلایا نہ جائے گا

گھر کر گئیں ہیں گھر میں توہم پرستیاں
اِس گھر کو ٹوٹنے سے بچایا نہ جائے گا

ہر نقشِ پا کو ملتا  نہیں فیضِِ رہبری
ہر سنگ، سنگ میل بنایا نہ جائے گا

رچ بس گیا ہے روح میں چاہت کا رنگ یوں
اب چاہ کر بھی اس کو ہٹایا نہ جائے گا

بہتر یہی ہےخود کو مٹادوں میں عشق میں
،،دل سے خیال دوست مٹایا نہ جائے گا،،

بے اعتدالیوں پہ توجہ بھی دیں حضور
ورنہ یہ اختلاف مٹایا نہ جائے گا

بہتر ہے دھوپ ساتھ دے مجھ دھوپ  کا شہابؔ
سائے کا ساتھ مجھ سے نبھایا نہ جائے گا

تبصرے بند ہیں۔