مجسموں سے کیسی دشمنی؟

فیصل فاروق

گزشتہ دنوں تریپورہ میں ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کا جشن منانے والوں نے بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگاتے ہوئے روسی انقلاب کے ہیرو ولادمیرلینن کا مجسمہ بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کر دیا۔ اس کے بعد تمل ناڈو کے ویلورضلع‎ میں پیریار کے مجسمہ کو مسمار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ پھر میرٹھ میں بابا صاحب امبیڈکر کے مجسمے کو نقصان پہنچایا گیا۔ حسب اقتدار کے حامیوں کی یہ حرکت بالکل غلط ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے فوراً بعد بی جے پی کے مرکزی صدر رام مادھو نے لینن مجسمے کو گرائے جانے کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے اسے بدلتے دور کی جانب ایک اشارہ قرار دیا، ساتھ ہی آئینی عہدے کے وقار کو بالاۓ طاق رکھ کر ریاست کے گورنر تتھاگت رائے نے بھی یہی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے مجسمہ شکنی کی کھل کر تائید کردی، پارٹی کے ترجمان گری راج سنگھ نے دعوی کیا کہ یہ مجسمہ ان مظلوم لوگوں نے گرایا ہے جو کمیونسٹوں کے مظالم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔

بی جے پی کے ایم پی سبرامنیم سوامی نے لینن کو ایک قسم کا دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ملک میں لینن کے مجسمے کی موجودگی پر سوال اٹھائے۔ ایچ راجہ نے اپنی تمل میں تحریر کردہ پوسٹ میں تو یہاں تک کہہ دیا کہ لینن کون ہے؟ لینن اور بھارت کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کمیونسٹوں کے ساتھ بھارت کا کیا کنکشن ہے؟ لینن کا مجسمہ تریپورہ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ سارے بیانات جمہوریت مخالف ذہنیت کا عکس پیش کرتے ہیں۔ بعد ازیں ایچ راجہ کو خود اپنی متنازعہ پوسٹ ہٹانے پر مجبور ہونا پڑا۔

لینن کے مجسموں کو توڑنے کے پیچھے یہ دلیل دینا کہ لینن ایک غیر ملکی شخص تھا، ایک غیر ملکی نظریہ ساز تھا، ہندوستانی نہیں تھا اس لئے اس کا مجسمہ ہندوستان میں نہیں ہونا چاہئے تو پھر باباۓ قوم مہاتما گاندھی کو بھی لینن کی طرح ایک انقلابی اور عالمی لیڈر کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں ان کے مجسمے یادگار کے طور پر لگاۓ گئے ہیں۔ تو کیا اب وہاں کے لوگ بھی یہ کہنے لگیں کہ گاندھی جی ہمارے ملک کے باشندے نہیں ہیں اس لئے ہم ان کا مجسمہ نہیں رہنے دیں گے؟ یہ بالکل بےتکا اور احمقانہ جواز ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اب بے جان مجسمے بھی بی جے پی کے عدم تحمل کا شکار ہونے لگے ہیں۔

ایک طرف جہاں مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ توڑپھوڑ کے ان واقعات کو سنجیدگی سے لیا جاۓ۔ ساتھ ہی ریاستی حکومتوں کو ان معاملوں میں سخت کارروائی کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے واقعات میں ملوث تمام لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے اور قانون کے تحت ان کے خلاف معاملہ درج کیا جائے۔ اور دوسری جانب بی جے پی کے ہی لیڈران مجسمہ شکنی کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ مجسموں کو مسمار تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان شخصیات کے خیالات و تعلیمات کو لوگوں کے ذہنوں سے نہیں نکالا جا سکتا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر مجسموں سے کسی کو کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. اردو گلشن ممبئ کہتے ہیں

    انتہائی بہترین تجزیہ
    جناب فیصل فاروق صاحب

  2. حسان آفندی کہتے ہیں

    مرکزی حکومت کا یہ سب دکھاوا ہے ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے اور۔چور سے کہو چوری کر شاہ سے کہو جاگتے رہو صاحب یہ نورا کشتی ہے حکومت اور بوسر اقتدار جماعت کے کارندے دو الگ الگ باتیں نہیں خیں

تبصرے بند ہیں۔