مجھے تجھ سے پشیمانی بہت ہے

فوزیہ رباب

کہوں کیسے کہ ویرانی بہت ہے

ترے غم کی فراوانی بہت ہے

 مری آنکھوں میں کیوں پانی بہت ہے

"مجھے تجھ سے پشیمانی بہت ہے”

میں اس پر شعر کہنا چاہتی ہوں

مرے لفطوں میں حیرانی بہت ہے

بچھڑنے کا تو ایسے کہہ رہے ہو

کہ جیسے اس میں آسانی بہت ہے

سیانے کس طرح بن پاؤگے اب

محبت میں تو نادانی بہت ہے

گریزاں بھی نہیں ہے کم وہ مجھ سے

اور اس نے بات بھی مانی بہت ہے

بنا مشق ستم مجھ کو نہ اے دل

مجھے اک دشمن جانی بہت ہے

ہمیں تڑپائے رکھنے کو مسلسل

تمھاری یاد مرجانی بہت ہے

کبھی اس کا جنوں سمجھا ہے تم نے؟

جسے کہتے تھے، دیوانی بہت ہے

تمھارا خواب کیا پگھلا ہے کوئی؟

تمھاری آنکھ میں پانی بہت ہے!

سجاؤں پھول تیری چاہتوں کے

غزل کی شال مہکانی بہت ہے

تمہارے دل میں آ کر ہم نے جانا

علاقہ یہ تو چٹّانی بہت ہے

اڑا دیتا ہے سارا ہوش میرا

خیالِ یار طوفانی بہت ہے

یقیں بن کچھ اسے آتا نہیں تھا

وہ لڑکی اب بھی انجانی بہت ہے

رباب اب کے اسے دینے کی خاطر

ہمارے پاس حیرانی بہت ہے

رباب اک شخص کی تو ہو گئی ہے

بھلے دنیا سے بیگانی، بہت ہے!

تبصرے بند ہیں۔