مجھے لگ رہا تھا کہ شادی خوشی ہے

اشفاق دیشمکھ 
مجھے لگ رہا تھا کہ شادی خوشی ہے
سمجھ میں اب آیا فقط بےبسی ہے
یہ جدّت کی اک مشترک پارٹی ہے
پتہ ہی نہیں کون کس کا پتی ہے
اسے غم ہے اسکا کہ بیگم ہے گونگی
اسے کیا پتہ کہ وہ کتنا لکی ہے
سیاسی گلی سے نکلنا ہے مشکل
ادھر گر ہے غنڈہ ادھر منتری ہے
کہا تھا جسے جان شادی سے پہلے
وہی اب میری جاں کے پیچھے پڑی ہے
کرے کوئی تعریف بیگم زیادہ
تو سمجھو کہ بیوی پھر اسکی نئی ہے
ہوئی رفتہ رفتہ وہ اسی(80 ) کلو کی
کہا تھا کبھی جسکو تو اک کلی ہے
ترنّم سے اشفاق کچھ مت سنا تو
کہ آواز تیری بڑی بے سری ہے
قطع
 مانگا گیا سوال کا سسرال میں جواب
بیگم ذہیں ہیں آپ کی یا آپ ہیں جناب
میں نے کہا ذہین ہے بیوی میں بیوقوف
میں اسکا انتخاب ہوں وہ میرا انتخاب
قطع
ساٹھ کی تو ہو گیئ ہے اب نہیں ہے تو پری
میں ترا بڑھا ہوں بیگم اور تو بڈھی مری
گاؤں کا ہر شخص دادا مجھ کو کہتا ہے مگر
دادی ہو کے کر رہی ہے گھر میں تو داداگری

تبصرے بند ہیں۔