کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات!

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

‘‘سفرمعراج’’ جہاں عالم انسانیت کو ورطۂ حیرت میں ڈالنےوالاکائنات کاسب سے انوکھااورالبیلا واقعہ ہے،وہیں اپنےاندر ملت اسلامیہ کےحق میں متعدد خوش خبریوں ، برکتوں اور رحمتوں کی سوغات بھی رکھتا ہے۔

غورکیاجائے تواسراءاور معراج کےاس اہم ترین واقعے نے فکرِ انسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا اور تاریخ پر ایسے دوررس اثرات ڈالے کہ؛ جس کے نتیجے میں فکرونظر کو وسعت ملی،قلب ودماغ کوبالیدگی عطاہوئی،جسم وروح کو بلندی وپاکیزگی حاصل ہوئی ۔

یہ ایک ایسا واقعہ ہے؛جس سےخالق کائنات کی زبردست قدرت اور خاتم النبیینﷺ کی برتری و فضیلت  ظاہر ہوتی ہے ۔

 امام شرف الدین بوصیریؒ اسی کمال کی طرف اشارہ کرتےہوئے (م694ھ) فرماتے ہیں :

فَحُزتَ کُلَّ فَخَارٍ غَیرَ مُشتَرَکٍ

وَجُزتَ کُلَّ مَقَامٍ غَیرَ مُزدَحِم

ترجمہ: تو آپ نے ہر قابل فخر کمال اپنی ذات میں اس طرح سمیٹ لیا کہ اس میں کوئی آپ کا شریک و سہیم نہیں اور ہر منزل آپ نے تنِ تنہا طے کی۔

واقعہ معراج انسانیت کو رشدوہدایت اور ترقی و کامرانی کی راہوں پر گامزن کرتا ہے، اسے فضاؤں کی بسیط وُسعتوں اور خلاؤں کے دور اُفتاد

مقامات کو زیر کرنے کا حوصلہ بخشتا ہے، اُسے یہ احساس دلاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی قادرِ مطلق اور زبردست قوت و حکمت والا ہے اور انسانی مادّی طاقت اورمحدود عقل اُس کی گہرائیوں تک پہونچنےسے عاجزوقاصر ہے۔

علامہ اقبال مرحوم نےکیاخوب  کہا ہے  ؎

عقل کو تنقید سےفرصت نہیں

عشق پر اعمال کی بنیادرکھ

 اس عظیم رات میں پانچ نمازوں کی فرضیت کے انعام سےبھی نوازا گیااوراس کے ذریعے قدرت کے بے شمار عجائبات کوبھی ظاہر کیا گیا،مختلف حسی تمثیلات کے ذریعہ عبرت پکڑنے کی ہدایت بھی کی گئی اورعالم بالا بالخصوص جنت وجہنم کی سیر بھی کرائی گئی۔

کسی شاعر نے بڑے ہی خوب صورت انداز مین اس کو اس طرح بیان کیا ہے کہ    ؎

سفرِ معراج کے تین مراحل:

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقدس مرحلہ وار سفر کے لئے اپنی کتاب ’’فوائد الفوائد‘‘ میں تین اصطلاحات استعمال فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں ۔

اسراء : مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر

معراج : بیت المقدس سے مرحلہ وار ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہی تک کا سفر

اعراج : سدرۃ المنتہی سے مقام قاب قوسین تک عروج

(فوائدالفوائد، 4 : 350)

سفرمعراج کادل کش نظارہ:

اللہ اللہ ! وہ اِک نُور مبیں آج کی رات

جسم کی ، روح کی،عرفان و یقیں کی معراج

تیری معراج بنی اہلِ زمیں کی معراج

عقل کی ، ہوش کی ، ایمان و یقیں کی معراج

اُم ہانی کے مکاں ، تجھ پہ ابد تک ہوں سلام

سب کی معراج ہے اِک تیرے مکیں کی معراج

تھم گیا وقت، رُکی کون و مکاں کی گردش

دیکھ اے چرخ! یہ ہے حجرہ نشیں کی معراج

 معراج کی اس رات کا کیا سماں ہوگا ،کس قدر حسین و دل کش نظارہ ہوگا،عالم بالا کی بہاریں سمٹ سمٹ کرجلوہ جاناں کے لئے کب سے فرش راہ بنی ہوں گی،عالم قدس کا ذرہ ذرہ سراپامحوانتظاررہاہوگا کہ شہنشاہ بطحی ارض مقدس سے عرش معظم پر تشریف لانے والے ہیں ،خود آ نہیں رہے ہیں بلائےجارہے ہیں ،کسی وحی اور پیغام کے ذریعہ نہیں ؛ بل کہ پیام بر امین کےتوسط سے-

ایک طرف غایت اشتیاق میں جنتیں سجادی گئیں ،رحمتیں لٹادی گئیں ،منادی کرادی گئی کہ  شاہ دوعالم آرہےہیں !حبیب کبریا رونق افروز ہونے جارہےہیں !تو دوسری طرف حقیقت منتظر کو دیکھنے کے لئے جبین نیاز میں ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں ،گردن مبارک عبدیت وبندگی کے جذبات سے جھکی جارہی ہے۔

ذراتصور تو کیجئے !

رجب کی وہ کیف آگیں شب  آہستہ آہستہ نشاط و مستی میں مست ہوئی جارہی ہے،ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں ، پوری دنیا پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے، نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکا یک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے، انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لاچکےہوتے ہیں ؛جہاں ماہ نبوت حضرت محمد ﷺ محو خواب ہیں ، آنکھیں بند کئے، دل بیدار لئے آرام فرمارہے ہیں ، حضرت جبرائیل امین غایت ادب واحترام کے ساتھ آپ کو بیدار فرمارہےہیں ۔

زمیں وآسمان نجوم وقمر اس منظر کو دیکھنے کےلئے بے حس وحرکت ہو ئےجارہے ہیں ،رحمت عالم ،محسن کائنات، فخر موجودات ﷺ کو عالم بالا پر لے جانے کےلئے تیار کیا جارہا ہے، دل کو آب زمزم سے دھوکر اسمیں معرفت الہیہ اور انوارات ربانیہ کو بھر اجارہا ہے ۔

ادھربراق جیسی انوکھی سواری حاضر خدمت ہے آپ اس پر سوار ہوکرچشم زدن میں بیت المقدس میں جلوہ گرہورہے ہیں ۔

 صحن حرم سےتابہ فلک نور ہی نور چھایا ہوا ہے، ستارے ماند پڑچکے ہیں ، قدسی سلامی دے رہے ہیں ، حضرت جبرائیل علیہ السلام اذان دے رہے ہیں ، تمام انبیاء و رسل صف بستہ کھڑے ہورہے ہیں ، صفیں بن چکیں ہیں ، امام الانبیاء فخر دوجہاں حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت کےلئے تشریف لارہے ہیں ، تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان فرمارہے ہیں ، ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سرتسلیم خم کئے کھڑے ہیں ۔

 بیت المقدس اپنے نصیب پر رشک کررہاہےکہ اس نے آج تک ایسا دلنواز منظر اور روح پرور سماں نہیں دیکھا ۔

 وہاں سے فارغ ہوتےہی عظمت و رفعت کے پرچم بلند ہوتےنظرآرہےہیں اور سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہورہے ہیں ،آسمانوں پر نبی اُمی ﷺ عالم ملکوت کا مشاہدہ کرتے ہوئے اورانبیاءورسل سے ملاقاتیں کرتےہوئے، قاب قوسین کے مرتبہ پر پہنچ کر جبین مبارک خم کردیتےہیں اور رب کائنات ” فاوحیٰ الیٰ عبدہ مااوحیٰ“ کے پیار بھرے الفاظ سے کائنات کے اسرار ورموز کھول کرآپ کو انسانیت کے اعلیٰ ترین منصب ” مقام عبدیت“ پر فائز کرتے ہیں ۔

جلوہ افروز ہے اک ماہِ مبیں آج کی رات

نور ہی نور ہے تا حدِ یقیں آج کی رات

حرمِ ناز میں پہنچے شہِ دیں آج کی رات

حرمِ ناز ہے کچھ اور حسیں آج کی رات​

واقعۂ معراج کا مقصد:

واقعہ معراج کے مقاصد میں جو سب سے اہم اور بنیادی مقصد قرآن کریم (سورہ بنی اسرائیل) میں ذکر کیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم (اللہ تعالیٰ)  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنی قدرت کی کچھ نشانیاں دکھلائیں ۔

 اس کے مقاصد میں سے ایک اورمقصد اپنے حبیب ﷺ  کو وہ عظیم الشان مقام ورتبہ دینا ہے جو کسی بھی انسان ؛حتی کہ  مقرب ترین فرشتہ کوبھی حاصل نہیں اور نہ  کبھی حاصل ہوگا، نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا بھی ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم المرتبت فریضہ ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں ؛بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا؛جس کا حکم عام احکام کی طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  تک نہیں پہنچا؛بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم  کواپنےپاس عطا فرمایا۔

معراج کےاس واقعہ کو عقل و قیاس کے پیمانہ سے ناپنا بے سود بھی ہے اور حقیقت واقعہ کو محض دماغی قابلیت کے بل پر سمجھنا اور سمجھانا گرفتاران عقل کے بس سے باہر بھی ، یہ مسئلہ خالص یقین و اعتقاد کا ہے بس اس پر ایمان لانا اور اس کی حقیقت و کیفیت کو علم الٰہی کے سپرد کر دینا ہی عین عبادت ہے، اور ویسے بھی نبوت، وحی اور معجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل و قیاس سے باہر کی چیزیں ہیں ، جو شخص ان چیزوں کو قیاس کے تابع اور اپنی عقل و فہم پر موقوف رکھے اور کہے کہ یہ چیز جب تک عقل میں نہ آئے میں اس کو نہیں مانوں گا اور اس پر اعتقاد نہیں رکھوں گا تو سمجھنا چاہئے کہ وہ شخص ایمان سے محروم ہے ؛لہذا جو لوگ معرفت کے  مقام کو نہ پہنچے ہوں ان کے لئے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول جو کچھ فرما دیں بس اس کو مان لیں اور بلا چون وچرا اس پر ایمان لے آئیں ، سلامتی اور نجات کی راہ اس کے علاوہ کوئی نہیں ۔

پیامِ معراج:

معراج سے درس حاصل کرنے کا تقاضا ہے کہ انسان کو انسانیت کی معراج، مومنانہ صفات کی ترقی کی جانب متوجہ ہو جانا چاہیئے، نفس امارہ پر جس قدر گرفت ممکن ہوگی اسی قدر جہالت، خباثت، تکبر اور تنگ ظرفی سے چھٹکارا مل سکےگا، فکرونظر کی وسعت اور علم و حکمت کی گہرائی میں اضافہ ہوگا۔ معراج کا یہ عظیم واقعہ عالمِ عارف اور مومنِ محقق کے دل و دماغ میں انقلاب برپا کرتا ہے، عاشقی کوزندگی کے آداب اور بندگی کا سلیقہ سکھاتا ہے، ایقان کی نظر کھولتا ہے، رحمۃ للعالمین کے معانی کی تشریح کرتا ہے، معراج لطافت و حکمت کے راز سے آشنا کرتا ہے، عشق و قوت کو الہی صفات کے اثر و توفیق سے ملا دیتا ہے، سرور کائنات ﷺ کے خطاب کا مفہوم رقم کرتا ہے، انسانی ارادوں ، کاوشوں ، کارناموں اور ترقیات کا رُخ متعین کرتا ہے، تاکہ انسان بھول بھلیوں سے نکل کر ہمہ وقت اپنے مقصد حیات کو پیش نظر رکھے۔

 علامہ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق صرف سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت ہی واقعہء اسراء یا معراج سےمتعلق نہیں ، بلکہ پوری سورت اسی واقعہ کے گرد گھومتی ہے اور معراج کے فلسفہ و مقاصد کو واضح کرتی ہے۔(بحوالہ سیرت النبیٰ ﷺ جلد سوم ص252)

چناں چہ آپ ﷺ کو سورہ بنی اسرائیل میں انسانیت کو راہ ترقی پر گام زن رکھنے کے لیے بارہ احکامات عطا ہوئے، جو زیادہ جامع اور ہر دور کی انسانیت کو اس کی فطرت پر قائم رکھنے کے لیے بنیادی نسخہ ہیں ۔ انسانیت کو حکم دیا گیا۔

(1)شرک نہ کرو (2) والدین کی عزت اور اطاعت کرو (3) حق داروں کا حق ادا کرو (4) اسراف، افراط و تفریط سے پر ہیز کر کے میانہ روی اختیار کرو (5) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (6) زنا کے قریب نہ جاؤ (7) کسی کو ناحق قتل نہ کرو (8) یتیم سے بہتر سلوک کرو (9) عہد کی پاس داری کرو (1) ناپ تول اور وزن کرنے میں عدل کرو (11) نامعلوم بات کی پیروی نہ کرو، یعنی جہالت سے دور رہو (12) غرور اور تکبر سے اجنتاب کرو۔(سورۃ بنی اسرائیل آیت 32تا37)

آج ہماری تہذیب و تمدن کی عمارت متزلزل ہوچکی ہے، اس کی بنیادوں میں دراڑیں پڑچکی ہیں ، اس کے شہتیر ہل رہے ہیں اوریہ سب کچھ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو نظرانداز کردینے کا ہی نتیجہ ہے،یہ رات اس بات کی یاد تازہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے؛ جس کے لیے بطور خاص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمانوں پربلایا گیا ۔

واقعہ معراج کا گہرا اور معروضی مطالعہ ہمیں مستقبل میں ہونےوالی ترقیات وکمالات کا مرکزی نقطہ اور بنیادی تصور فراہم کرتاہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ معراج خاتم الانبیاءﷺ کا اک معجزہ ہے جو اسباب اور وسائل کا محتاج نہیں اور انسانی ترقی وجدید کمالات کےلئے اسباب ووسائل درکار ہیں اور اگر اسی ترقی وکمالات کا رخ ” مادیت“ کے بجائے” روحانیت“ کی طرف موڑ کر ایمان وعمل میں مشغول ہوجائیں تو دنیائے فانی کی عارضی نعمتوں کی بجائے جنت کی ایسی لازوال نعمتیں ملیں گی کہ جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا نہیں ، کسی کان نے سنا نہیں ؛ بلکہ کسی انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آئیں ۔

ہم آج اس رہبر انسانیت کو سلام کرتے ہیں جس نے انسان کو یہ سبق دیا کہ تجھ پر شمس وقمر اور نجوم وسماءکی حکمرانی نہیں ہے بلکہ سارا نظام فلکی تیرے لئے غبار راہ ہے اور اس نبی امی ﷺ کے جاں نثار غلام ” حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ“ کی عظمتوں کو سلام کرتے ہیں جس نے شب معراج میں یہ پیغام دیا کہ انسانیت کی فلاح وکامرانی اور ” تسخیرکائنات “ کا راز پیغمبر اسلام کی غلامی اور آپ کی اطاعت وفرماں برداری میں پوشیدہ ہے،مختصر یہ کہ:معراج ایک عظیم ترین معجزہ، ایک عظیم ترین واقعہ، ایک عظیم ترین سبق اور ایک عظیم ترین پیغام ہے۔

تبصرے بند ہیں۔