مجھے ہے حکم اذاں !

عالم نقوی

مدیر اردو بک ریویو نےاکتوبر۔ دسمبر ۲۰۱۷ کے تازہ شمارے  میں کچھ  حسب ِ حال باتیں ایسی لکھی ہیں جن کو ہم   اپنے اُن قارئین تک پہنچانا ضروری سمجھتے ہیں جو  اِس قابل قدر جریدے کی قرات سے ابھی تک  محروم ہیں ۔

’’کتابوں کا مطالعہ کیوں ‘‘کے عنوان سے مدیر شہیر برادر عزیز محمد عارف اقبال لکھتے ہیں کہ اہل علم و ادب کے نزدیک رسائل و مجلات اور اخبارات کے مطالعے کا تعلق ایک وقت خاص میں باخبر ہونے سے ہے۔ اخبارات کے مقابلے میں رسائل  و مجلات کے موضوعات محدود ہوتے ہیں لیکن اپنے نصب ا لعین کے لحاظ سے سماج کی ذہنی، فکری، اخلاقی اور علمی و ادبی تربیت کرتے رہتے ہیں ۔ مثلاً مجلہ اردو بک ریویو، اردو والوں کو، اردو  دنیا کی، علمی، ادبی، لسانی اور تحقیقی سرگرمیوں سے واقف کراتا ہے۔ مختلف ا لنوع تازہ کتابوں کی معلومات کے ساتھ جس کے  ہر شمارے میں نئی کتابوں پر تبصرے اور تجزیے شایع ہوتے ہیں ۔

یہ  نہ صرف اپنے قارئین کے علمی و ادبی ذوق کی آبیاری کرتا ہے بلکہ کتب بینی اور تحقیقی مطالعے کے لیے مہمیز کا کام بھی کرتا ہے کیونکہ مہذب اور تعلیم یافتہ سماج کے افراد کا مزاج کتابوں کے سنجیدہ مطالعے ہی سے ٹھوس اور تعمیری کام کے لیے تیار ہوتا ہے۔ جس طرح تعلیمی اداروں میں ’نصابی کتابوں ‘ کا مطالعہ طلبا کو عملی زندگی میں قدم رکھنے کے قابل بناتا ہے   اسی طرح عملی زندگی میں تاریخی، ادبی، علمی، تحقیقی اور تعمیری کتب کا مطالعہ، مشاہدے، تجزیے اور عملی تجربے کی حس بیدار کرتا ہے۔ اگر تعلیم یافتہ کہے اور سمجھے جانے والے افراد میں مطالعہ کتب کا رجحان کم ترین درجے تک پہنچ جائے یا(خدا نخواستہ) بالکل ہی ختم ہو جائے   تو سمجھ لیجیے کہ وہ سماج خود غرض اور بد عنوان سیاست دانوں اور پیشہ ورانہ یا غیر پیشہ ورانہ بے پڑھے لکھے (دِہاڑی)مزدوروں پر مشتمل ہو چکا ہے۔کسی بھی  سماج کی ذہنی و فکری پسماندگی اور تعمیری و مثبت سوچ کا فقدان اِسی صورت حال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ در اصل ’’قلم کے مزدور‘‘ ہی سماج کو مثبت اور تعمیری فکر عطا کرتے ہیں ۔ اور قلم کے یہ مزدور کسی کارخانے اور فیکٹری میں نہیں ڈھلتے یہ اُن  سنجیدہ علمی و ادبی سر گرمیوں سے تیار ہوتے ہیں جو  کتب بینی اور مسلسل غورو فکر سے عبارت ہوتی ہے۔

محمد عارف اقبال نےاردو کے شیدائی اور مجاہد  آنجہانی ٹام آ لٹر کی نامکمل خود نوشت کا ایک اقتباس بھی نقل کیا ہے  جسے  ہفت روزہ ہماری زبان نئی دہلی نے یکم تا ۷ نومبر ۲۰۱۷ کے شمارے میں شایع کیا تھا۔۔ ٹام آلٹر نے بھی یہی بات لکھی تھی کہ۔ ۔’’اب ہندستان میں ادب کی فہم ہی نہیں ادب کے مطالعے کا رجحان بھی کم سے کمتر ہوتا جا رہا ہے۔ ۔اپنے تہذیبی ورثے سے عدم واقفیت میں مجرمانہ حد تک اضافہ ہور ہا ہے۔ ۔ادب اور تاریخ کے تئیں ہمارا رویہ مایوس کن ہے۔ تاریخ تو اب ہندستان میں مذاق بن کر رہ گئی ہے جس میں دائیں بازو (یعنی یرقانی و برہمنی سنگھ پریوار ) کی(بیمار ذہنیت اور )  سیاست کا رول فیصلہ کن ہے۔

ہندستان کی تاریخ کے بارے میں گمراہیاں پھیلانا اور۔ ۔نئی تاریخ گڑھنا ہی ان کا سیاسی ایجنڈا (ہے )۔۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب ہندستان کے زیادہ تر  پرائیوٹ اسکولوں میں ’’ہیو مینٹیز ‘‘کی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع موجود ہی نہیں ہیں ۔ اس سے  بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ دسویں درجے تک لازمی مضامین کی فہرست میں شامل زبان و ادب کی تدریس اس طرح نہیں کی جاتی  کہ بچوں میں زبان کی صحیح   فہم اور  ادب کا ستھرا ذوق پیدا ہو سکے۔۔ (جس سے )۔ ۔ہندستان کے تہذیبی مستقبل کا مخدوش ہوجانا لازمی ہے۔ ۔۔فرقہ وارانہ ذہنیت کے فروغ میں بھی ہماری ادب سے عدم دلچسپی کا رول( ہی سب سے زیادہ )اہم ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ( ذرا) تکلف نہیں کہ تاریخ کے معاملے میں اب ہندستان کا افسوسناک مجموعی رویہ نری جہالت میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ‘‘

ہم برادر عارف اقبال سے صد فی صد متفق ہیں  کہ ہندستان میں موجودہ (یرقانی و قارونی و فرعونی ) اقتدار کے زیر سایہ حق کی ہر آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو سکتی ہے۔ ۔لیکن۔ ۔ ہمارا کام تو اذان دینا ہے سو ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ ۔تا وقتیکہ ’وقت کا ابراہیم ‘ آکر اس نظام شرک و ظلم کا دھڑن تختہ کردے۔ ۔انشا اللہ !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔