مجھ سے ملنے جو یار آتے ہیں

جمالؔ کاکوی

مجھ سے ملنے جو یار آتے ہیں
بس ہوا پہ سوار آتے ہیں

دل جلے اشک بار آتے ہیں
مئے کے طالب فگار آتے ہیں

آنے والے یہ سوئے میخانہ
کھو کے دل کا قرار آتے ہیں

میرا جانا وہاں نہیں ہوتا
جس جگہ ذی وقار آتے ہیں

جس نے گلشن کو خون سے سینچا
ان کے حصّے میں خار آتے ہیں

ایسے اغیار دیکھتے ہیں ہمیں
جیسے ان کے شکار آتے ہیں

اب نا آئیں گے جو گئے کہ کر
کیجئے انتظار آتے ہیں

مررہے ہیں کسان فاقے سے
اصل ہے تو ادھار آتے ہیں

پا پیادہ تو کام کے نکلے
وقت پر جانثار آتے ہیں

چاند پھر چودھوی کا ہوتاہے
جب وہ کر کے سنگار آتے ہیں

ان کو سائیکل سوار مت کہئے
وقت کے شہ سوار آتے ہیں

ان کے کوچے سے جانے والے پھر
لوٹ کر بار بار آتے ہیں

لوگ کہ کر جمالؔ ہنستے ہیں
دیکھو وہ تاجدارآتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔