مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے!

 منصور عالم قاسمی

 خالق کا ئنات نے جب دونوں عالم کو پیدا فرمایا تھا، اس وقت زمین ایک تھی ،آسمان ایک تھا اور کھلی ہوئی ایک ہی فضا بھی تھی ۔ نہ زمین پر کوئی سرحد ،نہ آسمان پر کوئی لکیریں اور نہ فضا پر کسی کی ملکیت ۔نہ چند گززمین کے لئے خون کی ندیاں بہتیں ،نہ آسمان پر کوئی کمندیں ڈالنے کی کو شش کرتا اور نہ فضاکے لئے جنگ ہوتی ۔لیکن انسان کے اندر جب سے مفاد پرستی آگئی ہے اس نے زمین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ، آسمان کو تقسیم کر دیا اور فضامیں بھی لکیریں کھینچ ڈالیں ۔پھر کیا تھا پوری دنیا ایک چڑیا خانہ میں تبدیل ہو گئی ،جہاں ایک جانور دوسرے کے باڑے میں نہیں جا سکتا، اگر چلا گیا یا جانے کی کوشش کی تو اسے دردناک سزا دی جاتی ہے ۔

 ان دنوں روہنگیا مسلمانوں کا حال چڑیا خانہ کے جانوروں سے بھی بدتر ہے ،ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ۲۵؍اگست سے اب تک بودھ دہشت گردوں اور میانمار کی فوج نے مل کر۱۰۰ کلو میٹر تک مسلم آبادی کو صفحہء ہستی سے مٹا دیا جس میں ۲۱۰۰ سو بستیاں تھیں ، ۲۰۰۰ سے زائد مسلمان تہ تیغ کر دیئے گئے ،ایک لاکھ ۳۰ ہزار افراد شدید زخمی ہیں ،ایک لاکھ لوگ جنگلوں میں محصور ہیں ، ۱۵۰۰ عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی ،بنگلہ دیش کی سنگدلی کے باعث کشتیوں میں سوار ۲۰ہزار افراد موت و حیات کی جنگ لڑ رہے ہیں جن کی پیدائش نہ میانمار میں ہوئی ہے اور نہ بنگلہ دیش میں !گو کہ یہ لوگ آسمان سے ٹپکے ہیں یا پھر الینز ہیں جس کا وجود صفحہء گیتی میں کہیں نہیں ملتا ۔ انسانیت کے ساتھ اس سے بھدا مذاق اور کیا ہوگا کہ جب بے یارو مددگار اشرف المخلوقات اپنے ہم جنس کومدد و نصرت کے لئے پکارتاہے تو اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ تجھ سے میرا کوئی رشتہ نہیںہے ،اور اگر اپنی آبائی زمین میں واپس آتا ہے تو خود کو شانتی اور امن کا علمبردار کہلانے والے بودھ دہشت گرد اسے گولیوں کا نشانہ بنا کربھون دیتے ہیں یانذر آتش کردیتے ہیں ۔اتنے دل خراش اور روح فرساحالات منظر عام پر آنے کے باوجود جنوب مشرقی ایشیا ئی ممالک جو میانمار کے پڑوسی ہیں ان کا رول ان ستم زدہ روہنگیا مسلمانوں کے تئیں انتہائی شرمناک اور گھٹیا ہے ۔ چین جو خود کو سوپر پاور کی دوڑ میں شمار کررہا ہے ،وہ میانمار پر اخلاقی طور پر کوئی دبائو نہیں ڈال رہا ہے، اور نہ سوپر پاور کا کوئی رول ادا کررہا ہے ، اور کرے بھی کیوں کر کہ میانمار میں اس نے بڑے بڑے پروجیکٹس لگا رکھے ہیں، پھر مذہبی اعتبار سے بھی تو وہ اسی کا ملک ہے ،نیز چین کی خاموشی یہی کہہ رہی ہے کہ ان مسلمانوں کو مارو ،کاٹو اور سمندروں میں دھکیلو ۔ ہندوستان جو خود کو ترقی یافتہ ملک کہتا ہے ،اس نے بھی خامو شی سادھ رکھی ہے بلکہ برکس اجتماع سے نریندر مودی سیدھے میانمار تشریف لے گئے ،امید تھی کہ دکھاوا ہی سہی ،انسانیت کے ناطے آنگ سان سوچی سے کچھ کہیں گے مگرجن کے ہاتھ خود خون مسلم سے رنگے ہوں، وہ مسلمان کے قتل کو روکنے کے لئے کیسے کچھ کہیں گے ؟پاکستان جومسلم ممالک  میں سب سے طاقتور ہے ، ایٹمی طاقت کا رعب دکھاتا رہتا ہے ،اس نے بھی رسمی مذمت اور اظہار تشویش کردی بس۔ یاد رکھنی والی بات یہ ہے کہ ۱۹۴۸ء میں روہنگیا مسلمانوں نے محمد علی جناح سے کہا تھا کہ ہمیں ا خوت اسلامی کی بنیاد پرپاکستان میں ملا لیا جائے لیکن محمد علی جناح نے اس مطالبہ کو رد کردیا تھا ،اگر ان لاچاروں کو پاکستان میں شامل کرلیا جاتا تو آج ان کو بودھ دہشت گردوں کے ظلم وستم کا شکار نہ ہونا پڑتا ۔ بنگلہ دیش کا ڈھٹائی سے یہ کہنا کہ کوئی بھی روہنگیا مسلمان بنگالی نہیں ہے،اس لئے ہم قبول نہیں کر سکتے ہیں ،تاریخ کا سب سے بڑاجھوٹ ہے ۔ تاریخ کہتی ہے کہ ۱۸۲۶ء میں جب انگریزوں کا برما پر تسلط ہوا تو اس نے مشرقی بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو اراکان خطے میں کاشتکاری کے لئے بھیجا تھا ،مطلب یہ بنگلہ دیشی مہاجرین ہی ہیں ،جو دو صدی سے برما میںقیام پذیر ہیں ،پھر بنگلہ دیش کا انکار چہ معنی دارد ؟میانمار کے دو پڑوسی ممالک انڈو نیشیا اور ملیشیا باوجودیکہ مسلم ہیں لیکن ان کے پاس بھی مجبور و مقہور روہنگیا مسلمانوں کی آہ و پکار سننے والی قوت سماع نہیں ہے ، البتہ انڈونیشیا کی عوام میانمار کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں،جماعت اسلامی پاکستان نے بھی احتجاج کا اعلان کیا ہے،دوسرے ممالک کی عوام بھی اب جا گ رہی ہیں مگرحکومت نہیں ۔تو یہ ہے جنوبی ایشیائی ممالک کا کردار ۔

     عامی سطح پر جب نگاہ اٹھتی ہے تو افسوس کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آرہا ہے کہ آج  ۵۷ آزادمسلم ممالک ہیں ،جن کی آبادی تقریباً۳۴ فیصد ہے ،جغرافیائی طور پر دنیا کے ۱۲ فیصد حصے پر انہیں اقتدار حاصل ہے لیکن روہنگیا مسلمانوں کے مسئلہ پر کسی اسلامی ملک نے ابھی تک  اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل میں احتجاج تک درج نہیں کرایا ہے،ہاں ترکی نے  روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لئے سب سے پہلے ہاتھ بڑھا کر سارے نام نہاد اسلامی ممالک کو ضرور عا ر دلایا ہے ۔۱۹۶۹ء میں ایک تنظیم ’’تنظیم اسلامی کانفرنس ،،بنی ،جس کا مقصد مسلم ممالک کے درمیان رشتہ مضبوط کرنا اور کلمہء واحدہ کی بنیاد پر ساری دنیا کے مسلمانوں کی مدد کرنا تھا تاہم یہ تنظیم اپنے یوم تاسیس ہی سے نکمی ثابت ہوئی ہے ۔آج تک یہ تنظیم نہ قضیہء فلسطین و اسرائیل حل کرسکی ،نہ بیت المقدس آزاد کراسکی ،نہ افغانستان و عراق کی جنگ ٹال سکی ،اور نہ اب شام و یمن میں کشت وخون روک پارہی ہے ،اس لئے روہنگیا مسلمانوں کو اس سے امید رکھنا سراب  میں پانی تلاش کرنا ہے (ابھی ابھی خبر آ رہی ہے کہ اس نے ارکان میں اپنے دفتر قائم کرنے کا عزم کیا ہے۔ بہت دیر کردی حضور آتے آتے )۔۳۴ ممالک کی اتحادی فوج کس سر من رای کے غار میں روپوش ہے ،نہیں معلوم ۔امن امن کا ڈھنڈورا پیٹنے والا اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل بھی اپنا وہ کردار بھول گئی ہے جو محض شک و شبہ کی بنیاد پر اس نے عراق و افغانستان میں ادا کیا تھا ،شاید اس لئے کہ یہاں پٹرول کا ذخیرہ نہیں ہے اور ہیڈن یا چارلس قتل نہیں کئے جا رہے ہیں۔  کتے اور بلیوں کے حقوق و تحفظ کی باتیں کرنے والی تنظیمیں بھی شاید انسانی حقوق سے نابلدہیںیا پھر مارے جانے والی قوم مسلم ہے ،عیسائی ،یہودی یا ہندو نہیں ، اس لئے ان کے منھ بند ہیں۔اقوام متحدہ نے تو بے شرمی کی حدہی کردی ،اس نے کہا ہے کہ یہ میانمار کا داخلی معاملہ ہے اس لئے بے گھراور بے در لوگوں کی ہم کوئی مدد نہیں کر سکتے ۔ میانمار کی موجودہ حکمراں ، جمہوریت کی چمپئین نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کا رول سب سے قابل مذمت و لعنت ہے ۔یہی وہ عورت ہے جس کو یہ کہتے ہوئے نوبل انعام سے سر فراز کیا گیا تھا کہ ’’جب لوگ جمہوریت ،انسانی حقوق اور نسلی ہم آہنگی کے لئے جد و جہد کر رہے تھے ،اس وقت انہوں نے لوگوں کی نصرت ومدد کی ،، سفارش کنندہ ناروے کی نوبل کمیٹی نے سوچی کو ظلم کے خلاف جد و جہد کی علامت قرار دیا تھا لیکن آج ضمیر فروش واصول فروش سوچی خود اپنے ملک کے بے گناہ لوگوں کوفوج اور بدھ دہشت گردوں سے قتل کروا رہی ہیں ،معصوم بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کروا رہی ہیں ،عورتوں کی عصمت دری کروا رہی ہیں ،گھروں کو جلوا رہی ہیں ، عبادت گاہوں کو مسمار کروا رہی ہیں ۔خبر ہے کہ آنگ سان سوچی سے امن کا نوبل انعام واپس لینے کیلئے پٹیشن پر دستخط کرنے کی مہم چل رہی ہے جس کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہو گئی ہے لیکن اس کا اثر کیا ہوتا ہے، یہ وقت بتلائے گا ،ہا ں یہ ضرور ہے کہ اگر سوچی کی جگہ توکل کرمان ہوتیں تو کب کا امن کے ٹھیکیدار ایوارڈ چھین لیتے ۔

 آج ان مظلوموںکی طرف سے آنکھیں پھیر والے ممالک ، تنظیمیں اور ظلم و تشدد کرنے والے لوگ جان لیں !ان مظلوموں کی آہیں جب عرش رسا ہوں گی ،تو آسمان ٹوٹ پڑے گا ، زمین پھٹ جائے گی ،پھر تمہارا وجود بھی صفحہء ہستی سے مٹ جائے گا ۔ یاد رکھیں ! اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی ہے مگر جب برستی ہے تو تباہی و ہلاکت لے کر آتی ہے ،تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔