محبت کی کہانی!

محمد عرفان ندیم

اس نے ہونٹ بھینچ کر لمبی سانس کھینچی، فضا میں گھورا اور آہستہ آہستہ سانس خارج کرتے ہوئے بولا ’’تم نے آج تک محبت کی ایسی سچی اور لازوال داستان نہیں سنی ہو گی۔ ‘‘ میں ایک لمحے کے لیے رکا، اس کے ہونٹوں پر پھیلی لفظ محبت کی مٹھاس کو دیکھااور داستان سننے کی فرمائش کر دی۔ وہ میری بات مان گیا اور ہم چلتے چلتے ایک مقام پر رک گئے۔ ہم نے دئیں بائیں دیکھا، سامنے ایک چٹان تھی اور چٹان کے پیچھے تاحد نگا ہ مارگلہ کا جنگل پھیلا ہوا تھا۔

 یہ ایک سہانی صبح تھی اور ہم مارگلہ کی پہاڑیوں میں واک کر رہے تھے، گرمیوں کی صبح اور سردیوں کی شام مجھے ہمیشہ اچھی لگتی ہے اور میں ا ن دونوں موسموں کو واک کے ذریعے اپنے اندر جذب کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔ میں دیہاتی جانور ہوں، میں شہر میں جاؤں تو اپنے لیے گاؤں دیہات جیسا صاف، کھلا اور سرسبز مقام تلاش کر لیتاہوں۔ میں شہر میں رہتے ہوئے جب تک سبزہ، وسیع پارک اور سر سبز درخت نہ دیکھ لوں میرا دم گھٹنے لگتا ہے اور میں بے بس ہو جاتا ہوں۔

 میں تقریبا چھ سال لاہور میں رہا میں جہاں کہیں بھی ہوتا تھا میں ہر صبح لاہور کے عین وسط سے گزرنے والی نہر پر پہنچ جاتا تھا اور نہر کا ٹھنڈا پانی، سبزہ اور درختوں کی طویل قطاریں میرے لیے آکسیجن کا کام کرتی تھیں اور میں باقی دن کے لئے متحرک اور تروتازہ ہو جاتا تھا۔ میں اور میرا دوست طویل واک سے تھک گئے تھے، ہم درختوں سے گھری ایک چٹان پر بیٹھ گئے اور میں نے داستان سننے کی فرمائش کردی۔ وہ بولا ’’یہ داستان مجھے میرے والد صاحب نے سنائی تھی اور وہ اس کے عینی شاہد تھے۔

برسو ں پہلے کی بات ہے ہم شمالی علاقہ جات کے ایک گاؤں میں رہتے تھے، گاؤں کا ماحول بہت اچھا تھا، لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ اور تھے اور سارا گاؤں خوشحال تھا، ہر طرف ہریالی اور خوشحالی تھی، پھلوں کے باغات تھے، درختوں کی بہتات تھی، باغوں میں پرندے چہچہاتے تھے اور پرندوں کی خوبصورت آوازیں کانوں میں رس گھولتی تھیں۔ سارا گاؤں ایک وسیع حویلی کی مانند تھا، لوگ بلا روک ٹوک ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے۔ آنکھوں میں حیا تھی، سوچ میں پاکیزگی تھی اور خیالات میں تقدس تھا۔ رشتوں کا پاس تھا، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت تھی، جھوٹ سے نفرت تھی اور سچائی کی پذیرائی تھی۔ پڑھائی کا ذوق تھا، استاد کی عزت تھی، کتاب کی قدر تھی، طالبعلم کو شوق تھا اور کتاب کا رواج تھا۔ گاؤں میں صرف ایک سکول ہوا کرتا تھا جس میں طلباء و طالبات اکھٹے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

سارا گاؤں ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا، پھر ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا جس نے گاؤں کے سارے  ماحول میں ہلچل پیدا کر دی۔ گاؤں کے سکول کا طالبعلم ایک طالبہ کی محبت میں گرفتار ہو گیا اور دونوں نے شادی اور ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھالیں۔ یہ گاؤں کے پر سکون اور حیا دار ماحول میں بہت بڑا ایٹمی دھماکا تھا، بات سارے گاؤں میں پھیل گئی، بڑے بوڑھے اکھٹے ہوئی، مل کر بیٹھے، پنچائیت ہوئی اور فیصلہ ہوا لڑکے والوں کو گاؤں بدر کر دیا جائے، فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور کہانی ختم ہو گئی۔ ‘‘ وہ بات کرکے خاموش ہوا تو میرا تجسس آسمان کو چھونے لگا، میری بے چینی بڑھ رہی تھی اتنے میں سامنے کچنار کے درخت سے ایک پتا سرکا ہوا کے کندھے پر سوا ر ہوا اور میرے وجود پر اپنے لمس کا تاثر چھوڑتا ہوا مارگلہ کی فضاؤں میں گم ہو گیا، میرے دائیں طرف سے ایک رنگین تتلی آئی اور میرے سر کے اوپر سے گزرتی بیل کے زرد پھول پر بیٹھ کر اس کا خون چوسنے میں محو ہو گئی۔ سامنے درخت پر بیٹھی بلبل نے پھول کے کان میں سرگوشی اور راز و نیاز شرو ع کر دی، پیچھے سے کالی گھٹائیں اٹھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے جنگل میں چھا گئیں۔ پرندو ں کے میٹھے گیت کانوں میں محبت کا رس گھول رہے تھے اور ہم چاروں طرف سے محبت کے طلسم میں گرفتار ہو چکے تھے۔

 میں نے نظریں دوبارہ اس کے چہرے پر گاڑ دیں، وہ دوبارہ گویا ہوا ’’ اب تم کہانی کا دوسرا پارٹ سنو۔ پورے خاندان کو گاؤں بدر کر دیا گیاتھا، کسی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ خاندان کہاں جا کر بسا اور اس خاندان کی باقی زندگی کیسے گزرے۔ لڑکی والے اسی گاؤں میں رہائش پذیر رہے، لڑکی بڑی ہوئی تو گھر والوں نے اسے مزید تعلیم کے لیے شہر بھیج دیا۔ لڑکی نے ایم بی بی ایس کیا، گاؤں واپس آئی، شادی ہوئی اور لاہور شفٹ ہو گئی۔ دو سال بعد اللہ نے بیٹی سے نواز اور تیسرے سال میں اس کے میاں روڈ ایکسیڈنٹ میں وفات پاگئے۔ لڑکی نے ساری زندگی دوبارہ شادی نہ کی اور اپنی بیٹی کے ساتھ لاہور میں ہی زندگی گزار دی۔ بیٹی جوان ہوئی اور لاہور کے ایک متمول خاندان میں بیاہ دی اور خود ایک بار پھر اکیلی رہ گئی۔ وہ لاہور کے ایک نامور ہسپتال میں ڈاکٹر تھی اور خود کو  ہسپتال اور مریضوں کے لئے وقف کر چکی تھی۔ یہ اس داستان کے ایک کردار کی کہانی تھی لیکن داستان کا دوسرا کردار کہاں اور کس حال میں تھا کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔

 ایک دن ہسپتال میں ایک مریض داخل ہوا، یہ لاہور کی کسی یونیورسٹی کے نامور پروفیسر تھے جو روڈ ایکسڈنٹ میں شدید زخمی ہو گئے تھے، طلباء کا جم غفیر اپنے استاد کی عیادت کے لیے ہسپتال کے باہر موجود تھا، رات تک طلباء کی ٹولیاں آتی رہیں اورپروفیسر صاحب کا حال پوچھتی رہیں۔ پروفیسر صاحب شدید زخمی تھے، وہ خاتون ڈاکٹر ان کی تیمار داری پر مامور تھیں، پروفیسر صاحب ہوش میں آئے تو ڈاکٹر اورپروفیسر صاحب کی نظریں ملیں، جھکیں، جھک کر ملیں اور انہی لمحا ت میں بہا ر اور خزاں کے کئی موسم ان کے سامنے سے گزر گئے۔ دونوں ایک دوسرے کو پہچان چکے تھے، چالیس سال پہلے روٹھنے والی محبت آج پھر ان پر مہربان ہو چکی تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے بات کیئے بنا نظریں جھکائے کھڑے تھے، زبان گنگ تھی اور آنکھیں چشمے بن کر بہہ نکلی تھیں، گفتگو اور بات کرنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ زندگی میں بہت سے ایسے مقامات ہوتے ہیں جہاں آپ کی زبان، ہاتھ پاؤں سب جواب دے جاتے ہیں اور آپ کا پورا وجود متکلم بن جاتا ہے۔

پروفیسر صاحب گاؤں بدر ہونے کے بعد لاہور شفٹ ہو گئے تھے، یہاں انہوں نے پڑھائی پر خوب محنت کی، اسکالرشپ پر باہر گئے اور واپس آکر یونیورسٹی جوائن کر لی۔ اللہ نے پڑھانے کا ملکہ دیا تھا بہت جلد مقبولیت ملی اور ہزاروں طلباء ان کے شاگرد بن گئے۔ شادی کے دو سال بعد بیوی کی وفات ہو گئی تھی اور انہوں نے دوسری شادی کی زحمت نہیں کی تھی۔ چالیس سالہ محبت آمنے سامنے کھڑی تھی اور انہیں ایک بننے میں بظاہر کوئی امر مانع نہیں تھا۔ایک ہفتے بعد ا ن کی شادی ہو گئی، آخری عمر کی محبت انسان کو دوبارہ جوان بنا دیتی ہے اور یہ ساٹھ سالہ جوڑا دوبارہ سے جوان ہو چکا تھا۔

 پائیلو کوئیلو نے سچ لکھا ہے کہ اگر آپ کسی چیز کو پانی کی شدت سے خواہش رکھتے ہیں تو ساری کائنات اس چیز کو ملانے میں آپ کے ساتھ اس سازش میں شریک ہو جاتی ہے۔ ‘‘میرا دوست داستان ختم کر کے خاموش ہوا تو میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا، میں نے برسوں پہلے ایک صاحب علم سے سنا تھا کہ محبت خاموشی اورتسلیم و رضا کا نام ہے، محبت خود سپردگی اور رب کی رضا پر راضی رہنے کا نام ہے۔ اگر اس نے لکھا ہے تو وہ چالیس سال بعد بھی ملا دے گا اگر نہیں لکھا تو ساری کائنات مل کر بھی آپ کا ہاتھ نہیں تھام سکتی۔

تبصرے بند ہیں۔